• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی قریب میں ایک سیاسی دھرنے کے 126دنوں کا سایہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ احتساب اور انصاف کی حکمرانی کا سورج طلوع ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، البتہ اس گہرے ہوتے سائے کے سیاہ رنگ میں اس حکمرانی کی کسی بھی وقت آمد کے خاموش سے پیغام کی گونج سنائی دینے لگتی ہے! ڈاکٹر طاہر القادری تو بیرون ملک تشریف رکھتے ہیں، ان کی صحت یابی کے لئے دلی دعائیں، ویسے بھی لگتا ہے ڈاکٹر صاحب ذہناً لاتعلقی اور عملاً عدم اعتماد کی اضطرابی حالتوں کا سامنا کر رہے ہیں، عمران خان کے جوبن اور پھن میں کوئی فرق نہیں پڑا، الیکشن کمیشن کے ارکان کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے میں کامیابی ان کی پہلی منزل مقصود ہے۔ ظاہر ہے یہ منزل بامعنی، بامقصد اور سیاسی لحاظ سے انتہائی پیداواری ہے،الیکشن کمیشن کے مطلوبہ ارکان کے استعفے ایسا آئینی خلاء پیدا کر سکتے ہیں جس سے پاکستان میں آئینی مسافرت کا سفر ہی ملتوی یا ختم ہو جائے، معلوم نہیں اسلام آباد میں بیٹھے ایک آئینی ایکٹوسٹ حشمت حبیب ایڈووکیٹ کو ایسے دور ازکار اندیشوں کی سرسراہٹ کس طرح فوراً ہی محسوس ہو جاتی ہے کہ، عمران نے اسی لئے الیکشن کمیشن کے مطلوبہ ارکان کے استعفوں کی مہم جوئی کا نقارہ بجایا۔ منصوبہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔
اتفاقات زندگی کا فیصلہ کن محور ہیں، ان ایڈووکیٹ کو امکانی خطرات کا ناتوس بجائے ابھی بمشکل ڈیڑھ دو ہفتے ہی گزرے ہیں، 16؍ ستمبر کے اخبارات میں ملک کے وزیراعظم کا انکشاف قومی پریس کی شہ سرخی بنا دیا گیا، انہوں نے پاکستانیوں کو اطلاع دی ’’کچھ لوگ مجھے ہٹا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘‘، جیسا عرض کیا گیا، اتفاقات زندگی کا فیصلہ کن محور ہیں، جس 16؍ ستمبر 2015 کو ملک کے منتخب وزیراعظم نے قوم کو یہ اطلاع بہم پہنچائی، اسی 16ستمبر 2015ء کو ’’جمہوریت کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا تھا، چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے اس یوم کی مناسبت سے اہل وطن کو اپنے مخصوص وژنری انداز میں خبردار کرنے کا راستہ اپنایا، ان کا کہنا تھا:’’جمہوریت دشمن اپنے طریقے بدل رہے ہیں، شدت پسندی اور کرپشن کے خلاف جنگ قابل تعریف ہے مگر کسی کو آئینی حدود پار نہیں کرنی چاہئیں، قانون کی حکمرانی، آئین کی حدود کا احترام، شفاف و مساویانہ احتساب، برداشت اور سیاسی مخالفین کی رائے کا احترام کرنے کا نام جمہوریت ہے، ماضی میں نام نہاد ایل ایف او اور پی سی او جاری کئے گئے، دوسرے اداروں میں مداخلت اور آئینی حدود پار کرنے والے طاقتور اداروں کا تصور جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔ جمہوریت کے دشمن مختلف لبادے اوڑھ کے سامنے آتے ہیں، ہم نے دیکھا، نظریۂ ضرورت کو استعمال کر کے جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔‘‘
ملک کے وزیراعظم کا انکشاف، پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت کے شریک چیئرپرسن کا انتباہ، دونوں اتفاقات کی عین اس وقت رونمائی جب عمران خان الیکشن کمیشن کے استعفوں کی آرزوئے ناتمام کی تکمیل سے پیدا شدہ آئینی خلاء میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہوں، اس نظریئے کی تصدیق ہی تسلیم کی جانی چاہئے جس کی رو سے ’’اتفاقات زندگی کا محور ہیں۔‘‘
یہ بھی تو عقل و دانش کی اتفاقی موت ہی کا ایک پہلو ہے جسے ایک سے زیادہ تعداد میں موجود دانشور اور اہل قلم اپنے اس اظہاریئے میں مقید کرتے ہیں ’’میاں صاحب! ان عناصر کی نشاندہی کریں، ان کا نام لیں جو انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘‘ جبکہ ان دانشوروں اور اہل قلم کی فائل حیات میں وہ نشاندہی، وہ نام موجود ہی رہتے ہیں بلکہ انہیں تو سب سے زیادہ وہ نام ہی یاد رہتے ہیں۔ شاید ان محترم حضرات کے لئے ہماری یہ عجیب سی بات بھی ایک سنسنی خیز اتفاق ہی ہو جس کے مطابق میاں نواز شریف کا برج جدی ہے، اس برج کے لوگ خاموش اور تحمل کا سمندر ہوتے ہیں جس کی گہرائی میں ایسی دانشورانہ اور قلمی مچھلیاں ڈوب ہی جایا کرتی ہیں! یاد کریں وہ وقت جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے 126دنوں والے دھرنوں کے متعلق جناب نواز شریف نے کہا تھا ’’یہ خود اپنی زبان سے دھرنوں کے اختتام کا اعلان کریں گے۔‘‘ کیا سو فیصد ایسا ہی نہیں ہوا؟ سبب کوئی بھی ہو، دونوں حضرات نے اپنی اپنی زبان سے اپنے اپنے دھرنے کا ملبہ کندھوں پہ اٹھا کے واپس جانے کا اعلان کیا۔ میاں نواز شریف کے حامی ترجمان شاید مجھ سے بھی زیادہ یادداشت کے ضعف کا شکار ہیں بصورت دیگر اس ایک وقوعہ پر انہیں میاں نواز شریف کے ’’تاریخی سیاسی ٹریڈ مارک‘‘ اور ان دونوں واجب الاحترام شخصیات کی ’’تاریخی ناکامی کے ٹریڈ مارک‘‘ کی دو دھنوں پر مشتمل ایک گیت کی کیسٹ مارکیٹ میں ریلیز کرنی چاہئے تھی!
اور یہ بھی تو ایک اتفاق ہی ہے جب عمران کے حوالے سے ایک تازہ ترین تجزیاتی نقشہ سامنے آیا ہے۔ نقشہ گر گو جناب نجم سیٹھی ہیں، دونوں میں شدید اختلاف کا ایک زمانہ گواہ ہے تاہم حضرت علیؓ کا یہ قول یقیناً ایسے مواقع کے لئے ہی ہے ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے‘‘ اور اللہ جانتا ہے، عمران خان کی گزری سیاست کی جھلکیوں کے لحاظ سے دیکھنے پر سیٹھی صاحب کا یہ تجزیاتی نقشہ منطق کے ہر اصول پر پورا اترتا ہے، محض چند سطریں پڑھتے جائیں، ان کے بقول ’’یقینی طور پر ایک سازش ہو رہی ہے اور عمران خان کا اس ساری صورتحال میں مرکزی کردار ہے، نیب وزیراعظم کے کنٹرول میں نہیں اسے کوئی اورچلا رہا ہے۔ کچھ لوگ عمران خان کو ایک بار پھر استعمال کر کے ایسی خطرناک صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں پاکستان تحریک انصاف اور انتظامیہ میں جھڑپ ہو جائے مجھے لگتا ہے کوئی گڑبڑ ہونے جا رہی ہے۔‘‘
اخلاقی نقطہ نظر سے عمران خان کی پوزیشن جناب نجم سیٹھی کے مقابلے میں کمزور ہے، خان صاحب نے سیٹھی صاحب کے خلاف 2013ء کے قومی انتخابات میں بطور نگران وزیر اعلیٰ ’’35پنکچروں‘‘ کے الزام سے پاکستانیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، جب وقت آیا، آپ نے فرمایا دیا ’’35پنکچروں والی بات تو ایک مذاق تھا اور وغیرہ وغیرہ‘‘ اس وقوعہ نے ہمیشہ کے لئے ہر معاملے میں خان صاحب کی ساکھ متاثر کردی ہے۔ ثانیاً گزشتہ دھرنے کے پس منظر میں مشاہد اللہ سے لے کر پیپلز پارٹی کے زعماء تک، پاکستان پیپلز پارٹی کے زعماء سے لے کر ملک کی بڑی معتبر اکثریت کے فکری تجزیہ کاروں تک عمران بھی ’’پردے کے پیچھے‘‘ کھڑا تھا چاہے خان صاحب چپ چاپ کھڑے سوکھ ہی گئے ہوں۔ مگر کھڑے ضرور تھے سو جناب سیٹھی اور عمران خان کا جھگڑا اپنی جگہ مگر ماضی کے تمام شواہد کی روشنی میں عمران خان ایک بار پھر بلاواسطہ عوامی جدوجہد کے بجائے ’’بالواسطہ عوامی جدوجہد‘‘ کے ذریعہ اپنا مقدر آزما رہے ہیں، آپ میری یہ خاکسارانہ اور تکلیف دہ بات یاد رکھیں، بالآخر عمران کو اپنی سیاسی زندگی کا ناقابل تلافی سیاسی دھکا کھانا پڑے گا، باقی وہ جانتا ہے جو سب کو اور سب جانتا ہے! نواز شریف، آصف علی زرداری اور اسفند یار ولی خان کے خیالات و خدشات اپنی جگہ، پاکستان میں جو طاقتور تھا چاہے سول یا خاکی اس نے کبھی کسی کی نہیں سنی، اب کے بھی ہمارا ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کا کوئی جواز نہیں، معجزے کی بات الگ ہے، برادر وجاہت مسعود ایسے مواقع پر کس طرح یاد نہ آئیں، انہوں نے یاد دلایا ’’ابھی دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کا اعلان باقی ہے آپ کے سر کی قسم، آپ نے دیکھا کیا ہے‘‘، تو عرض گزاری کرتے چلیں، بھائی! آپ کے بھی سر کی قسم! ہم نے کیا نہیں دیکھا، ہم نے تو 4؍ اپریل 1979کی شب ان ’’نیکوں‘‘کو بھی دیکھا جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے سے اتارنے کے بعد بھی ان کے مسلمان ہونے کو شکوک و شبہات کی دھند کا شکار بنانے پر تلے ہوئے تھے۔
تازہ ترین