• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا کسی قسم کی انقلابی تبدیلی کے آثار ہویدا ہورہے ہیں؟ عمران خان پنجاب بھر کا دورہ کرتے ہوئے نواز شریف مخالف جذبات کو مہمیز د ے رہے ہیں۔وہ اپنے حامیوں کو دونومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور اسے بند کرنے کے لئے اکسا رہے ہیں۔ کیا معاملہ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ تک پہنچ چکا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کشتیاں جلاتے ہوئے اسے اپنے سیاسی کیرئیر کا فیصلہ کن موڑ بنا چکے ہیں۔ اگر نواز شریف اس جھٹکے کو برداشت کرگئے تو وہ 2018 ء کے انتخابات آسانی سے جیت جائیںگے ، اور عمران خان کی سیاست بے آب و گیا صحرا میں بھٹکتی رہے گی۔تاثر ہے کہ عمران خان کی حکمت عملی اسٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت کی انتظامی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اسے اقتدار سے علیحدہ کرنا اور فوج کو مداخلت پر اکسانا ہے۔اور یہ کوئی نئی یا انوکھی حکمت عملی نہیں ہے۔1967-68میں ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کے خلاف ایک عوامی تحریک چلائی اور جنرل یحییٰ کو مداخلت پر اکسایا۔1977میںحالات نے پلٹا کھایا جب اپوزیشن جماعتیں بھٹو کے خلاف متحد ہوئیں اور جنرل ضیاالحق کو مداخلت کا راستہ فراہم کیا۔1993 میں بینظیر نے بھی یہی حربہ استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور فوج نے اقتدار میں قدم رکھا۔2009میںنواز شریف نے بھی لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ میں یہی کچھ کیا تھا جب انہوں نے فوج کی مدد سے صدر آصف زرداری پردبائو ڈالا کہ وہ افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججز کو بحال کریں جنہوں نےالزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے بدلے پی پی پی کے خلاف کیسز بنائے ، اس کے وزیر اعظم کو معزول کیا اور اسے 2013کے الیکشن میں کمزور کر کے نواز شریف کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا۔پاکستان کی تاریخ کے اس فیصلہ کن لمحے میں ایسے ہی عناصر کی شناخت کی جاسکتی ہے۔پہلا یہ کہ سڑکوں پر احتجاج بڑے پیمانے پر اور طویل ہوتاکہ بے اطمینانی کی فضا قائم رکھی جائے یہاں تک کہ حکومت کا خاتمہ ہو سکے۔دوسرا یہ کہ پرتشدد اور خون ریزی کی ہنگامہ خیز صورت حال پیدا ہو تاکہ ہر مرحلے پر ٹکرائو کے بعد ان کے لئے عوام کی ہمدردیاںبڑھ جائیں اورحکومت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جائے۔تیسری بات یہ ہے کہ حکومت کی رخصتی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی وجہ سے اس میں مداخلت پر آمادہ کرنا ہوگا۔حکومت کے حامیوں کاخیال ہے کہ موجودہ منظر نامے میں یہ تمام عناصر ہی اپنی جگہ موجود دکھائی دیتے ہیں۔عمران خان اسٹریٹ پاور کوتحریک دینے کے لئے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔2014میں چار ماہ کا طویل دھرنا اور گزشتہ ماہ سڑکوں پر ہونے والے بلا ناغہ شوز ان کی اپنی جگہ قائم رہنے کی طاقت کا ثبوت ہیں۔شواہد بتاتے ہیں کہ صورت حال تشدد کی طرف بڑھ رہی ہے۔مسلم لیگ ن نے کے پی حکومت پر مبینہ الزام لگایا ہے کہ اس نے جہادی عناصر کی خدمات حاصل کی ہیں ۔اس سے پہلے تیس کروڑ روپے مولانا سمیع الحق کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں اور تمام جہادی اور طالبان گروہوں میں تقسیم کردئیے گئے تھے تاکہ ان کی تحریک میں خون رواں کیا جائے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ نزدیک ہے؟ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔بعض ایسے عناصر ہیں جو نواز شریف کے حق میں فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت عمران خان کی اسلام آباد کو بند کرنےکی تحریک کو ناکام بنا دیتی ہے جس کے لئے محدود طاقت کا صحیح استعمال ،ہجوم کو منتشر کرنے اور گرفتاریاں کرنے کی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے۔وزیراعظم کے حامی سوچ رہے ہیں کہ اس سے نواز شریف کو وقت ملے گا کہ وہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کے بعد کسی ایسے آرمی چیف کو مقرر کر سکیں جو کہ اپنے ابتدائی دور میں کم جارحانہ مزاج رکھے اور مداخلت نہ کرے۔اس سے نواز شریف کے لئے حالات میں بہتری آئے گی۔یقینی طور پر ہم جلدہی ایسے کسی اعلان کی توقع کر سکتے ہیں ۔ حتی کہ انتظامیہ بھی آنے والے حملے کو روکنے کے لئے تیاری پکڑ رہی ہے۔دو عناصر یہاں اور بھی ہیں۔جب حکومت کو تبدیل کرنے کے لئے سیاست میں جب بیرونی مداخلت ہوتی ہے تو ایک خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ پوری طرح کام سر انجام دینے کے لئے تیار ہے اور اگر اسے ناکام بنایا گیا تو مار شل لاء لگا دیا جائے گا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسٹیبلشمنٹ آخری قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے۔دوسرا مفروضہ یہ قائم کیا جاتا ہے کہ ہدف کو نہایت آسان بنا دیا گیا ہے تاکہ اسے کسی مشکل کے بغیر مناسب طریقے سے باہر نکالا جائے۔لیکن موجودہ صورتحال میں یہ دونوں مفروضے کمزور ہیں؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ سربراہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں؟ کیا موجودہ قیادت سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کو خطہ میں جاری ہنگامہ خیزی ، اندرونی فرقہ بندیوں اور معاشی مسائل کے سمندر میں منظم رکھ سکتی ہے؟ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ کیا نواز شریف بیرونی مداخلت کی علامت دیکھتے ہی ہمت ہار دیں گے یا وہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مارشل لاء لگنے تک فوج کا سامنا کریں گے۔
نومبر میں ہونے والے نواز شریف کے سیاسی خاتمے کا تجزیہ پر مبالغہ آرائی بھی کی جاسکتی ہے ۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم اس پر آنسوبہائیں یا نہ بہائیں۔ لیکن جب بھی ملک میں مارشل لاء لگے گا، چاہے ہماری ہمدردی موجودہ حکومت کے ساتھ ہے یا نہیں، جمہوریت کے حامیوں کو اجتماعی طور پر قومی سانحے ، نقصان اور تکلیف کے سمندر سے گزرنا ہوگا۔



.
تازہ ترین