• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے امکانات سے دونوںملکوں کے عوام اور کاروباری و تجارتی حلقوں میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے تجارتی و اقتصادی ماہرین کے مطابق اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 24کروڑ ڈالر ہے اور جیسا کہ ہمیں دوطرفہ 12نکات کی بحالی کے بعد کچھ امید پیدا ہوچلی تھی کہ اگر دونوںملکوں کے مابین ان 12نکات پر عملدرآمد شروع ہوجائے تو یہ تجارتی حجم آئندہ دو تین برسوںمیں بڑھ کر 4ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر مختلف پابندیاں عائد ہیں جس کے باعث دونوںملکوں کے کاروباری حلقوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سالوں کے دوران پاکستان کے ساتھ اس کا تجارتی حجم 24 کروڑ ڈالر تھا تاہم غیرسرکاری ذرائع کے مطابق یہ تجارت ایک ارب سے 6ارب ڈالر کے درمیان تھی۔ بھارت کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدر اے سی تھایا نے پچھلے دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جتنے بھی تعلقات قائم ہیں ان تعلقات میں بہتری کا آغاز تجارت کو فروغ دیکر کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت لاہور سے دہلی تک براہ راست پرواز ڈیڑھ دو گھنٹے کی ہے اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والا تقریباً70ہزار روپے خرچ کرکے بھارت کا چکر لگاسکتا ہے لیکن دبئی کے راستے لاہور آنے میں پورا دن صرف ہوجاتا ہے اور اس سفر میں 97ہزار روپے سے زائد کا خرچ آتا ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں لگنے والی ایک کاٹن مل کی تمام ضروری مشینری جنوبی بھارت سے دبئی کے راستے کراچی پہنچائی گئی۔اس طرح بھارت کے ایک خاص قسم ٹائر پاکستان میںبہت مقبول ہیں جو دبئی کے راستے اسمگل ہوکر پاکستان پہنچتے ہیں کیونکہ اس پر درآمد ٹیکس 46 فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان سے سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے بھارت جانے والی سیمنٹ کی بوریاں ایک ہی دن میں پہنچ جاتی تھیں لیکن اس سلسلے میں دستاویزی کارروائی میں 3ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے جس کے دوران تمام سیمنٹ خراب ہوجاتی ہے۔ اس طرح پاکستان نے ’’جال ایجی ٹیشن‘‘ کے تحت 1954سے بھارتی فلموں اور میوزک کی درآمد پر پابندی عائد کررکھی ہے، جس میں اب ویڈیو بھی شامل ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی فلموں اور میوزک کیلئے پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ اس سلسلے میں ایک ’’ماہر فلم‘‘ کے اندازے کے مطابق اسمگل ہوکر آنے والی فلموں کی پاکستان میں مارکیٹ کم از کم ایک ہزار کروڑ روپے ہے۔ پاکستان ہر سال 110فلین کلوگرام چائے خریدتا ہے۔ پاکستان سال بھر میں بیس ہزار ٹائر بناتا ہے جبکہ یہاں 10 لاکھ سالانہ ٹائروں کی ضرورت اور کھپت ہے۔ بھارتی تاجر یہ سب چیزیں سنگاپور، ملائیشیا اور دبئی وغیرہ کو فروخت کرتے ہیں جو بہت زیادہ منافعسے، یہ چیزیں پھر پاکستان کو ایکسپورٹ کردیتےہیں۔ یعنی محض دلالی میں کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ پاکستانی دکانداروں کی منافع خوری کا یہ عالم ہے کہ ایک معمولی دوائی جو کہ پیٹ اور سینے میں پیدا ہونے والی جلن اور گیس وغیرہ کو رفع کرتی ہے اس دوا کی دس گولیوں کا پتہ بھارت میں صرف 7روپے میں عام دستیاب ہے جبکہ یہی دوائی اور یہی پتہ پاکستان میں 80تا100 روپے میں فروخت ہوتا ہے اور اگر اس کی ذرا بھی قلت ہو یا مصنوعی قلت پیدا کردی جائے تو یہی پتہ 150تا 175 روپے میں بھی نہیںملتا (یاد رہے کہ بھارت میں لائسنس یافتہ دواساز کمپنیوں کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ ہے)
یہ سارا نفع یا منافع بھارت کی تجوریوں میں نہیں جاتا بلکہ ہمارے دوست ممالک جو کہ بھارت سے خرید کر ہمارے ’’متھے‘‘ ماردیتے ہیں اور کھڑے کھڑے کروڑوں روپے جیب میں ڈال کر یہ جا اور وہ جا۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت اور پاکستان کم از کم 10 ارب ڈالر (روپے نہیں) سالانہ کی تجارت باآسانی کرسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں کریں؟ جہاں غریب عوام کا بھلا ہو وہاں بیچ کی دیوار اور بھی بلند ہوجاتی ہے اور ’’پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔آخر میں اپنا یہ مضمون عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ پر ختم کرتا ہوں، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر ترقی پذیر ممالک اپنی آپس کی تجارت پر عائد محصولات اور پابندیاں نرم کردیںتو اس سے خام مال کی قیمت میں مفید کمی ہوگی اور یہ ممالک عالمی تجارت کی مسابقتی دوڑ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔
تازہ ترین