• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیتابھ بچن نے بتایا ’’میری والدہ تیجی بچن فیصل آباد کی رہنے والی تھیں ،ان کا بچپن کراچی میں گزرا جبکہ اُنہوں نے پڑھائی لاہور میں کی اور میں دوسال کی عمر میں اپنی ماں کے ساتھ کراچی اور فیصل آباد آیا تھا‘‘۔ نامور کرکٹر حنیف محمد اپنے بیٹے شعیب محمد کی بیٹنگ دیکھ رہے تھے کہ اچانک شعیب نے ایک اونچا شاٹ کھیلا ، حنیف محمد بولے ’’ دیکھ کر کھیل بیٹا ایسا کرے گا تو بھوکا مرے گا‘‘۔ جن دنوں منو بھائی کا ڈرامہ ’’پ سے پہاڑ ‘‘پی ٹی وی پر چل رہا تھا ،انہی دنوں ایک خاتون نے انہیں ٹیلی فون کر کے کہا’’ کیا آپ وہی منو بھائی ہیں جنہوں نے پ سے پہاڑ لکھا ہے‘‘ منو بھائی نے جواب دیا ’’ جی ‘‘ تو پھر د سے دور ہٹ، یہ کہہ کر خاتون نے فون بند کر دیا‘‘ ۔ افتخار عارف نے جوش ملیح آبادی سے کہا ’’مشاعرے والے دن ہم آپ کو گھر چھوڑ یںگے‘‘ جوش صاحب قہقہہ مار کر بولے’’ چھوڑ ے تو کتے جاتے ہیں‘‘۔جنرل ضیاء کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے عبیداللہ جذبات کی رو میں یہ بھی کہہ گئے ’’آج جنرل ضیاء الحق زندہ ہوتے تو خود دیکھتے کہ انہیں الوداع کہنے کیلئے کتنے لوگ جمع ہیں ‘‘۔ صد ر غلام اسحق خان کی وہ تقریر جس میں اُنہوں نے نواز حکومت برطرف کی تھی ، اس تقریر کی کیسٹ چھپا کر مبینہ طور پر شاہد رفیع خود غائب ہوگئے۔ ضیاء الحق کا مارشل لا لگا تو پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر پرجس کپتان کی ڈیوٹی لگی، بہت جلد ہی ٹی وی کے لوگ اس کی سادگی اور خوش اخلاقی کے گرویدہ ہوگئے ۔ یہاں سے جانے کے بعد بھی یہ کپتان ایک عرصے تک ٹی وی کے لوگوں کو عید کارڈ بھیجتا رہا ۔ اس کا نام تھا کیپٹن اشفاق پرویز کیانی۔مصلح الدین نے جنرل مجیب الرحمان سے کہا ’’کیمرے کیلئے لائٹ چاہئے اور یہ کام صرف ایمان کی روشنی سے تو ہو نہیںسکتا ‘‘۔ جب فیض احمد فیض اور احمد فراز ملنے کیلئے ٹی وی سینٹر آئے تو مجھے شوکاز نوٹس ملا کہ ’’پابندی کے باوجود یہ دونوں ٹی وی سینٹر کیوں آئے‘‘،میں نے جواب دیا ’’ فیض اور فراز کا آنا جرم نہیں، اعزاز کی بات ہے ‘‘۔ یہ کھٹی میٹھی باتیں اختر وقار عظیم کی کتاب ’’ ہم بھی وہیں موجود تھے ‘‘ سے لی گئی ہیں۔جہاں خوشی کی بات یہ کہ پروڈیوسر سے منیجنگ ڈائریکٹر تک پہنچنے والے پی ٹی وی کے عروج کے چشم دید گواہ اختر بھائی نے کتاب لکھ دی ، وہاں افسوس یہ بھی کہ ایک تو یہ کتاب مزید بہتر لکھی جا سکتی تھی اوردوسرا اُنہوں نے وہی سچ لکھا جو سب کیلئے قابل قبول تھا ورنہ یحییٰ خان سے جنرل مشرف تک ملک کے اکلوتے ٹیلی وژن پر کیمروں کے آگے اور پردہ اسکرین کے پیچھے کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا ، کاش ’’پُولی پُولی ‘‘گیندیں کروانے کے ساتھ ساتھ اختربھائی ایک آدھ’’ یار کر‘‘ بھی مار دیتے یا دو چار باؤنسرہی پھینک دیتے مگر شاید ان کا بھی قصور نہیں کیونکہ ایک تو خاندانی تربیت اور اوپرسے یہ خود نرم مزاج اور صلح جو اور پھر پی ٹی وی کی ملازمت ، بندہ بھلے پی ٹی وی سے نکل جائے مگر پی ٹی وی اس سے نہیں نکلتا۔ البتہ یہ کریڈٹ انہی کو جاتا ہے کہ اپنی 35سالہ ملازمت میںوہ ہر عہدے پر رہے مگر اُنہوں نے کبھی کوئی عہدہ خود پر حاوی نہیںہونے دیا ۔
اسی کتاب میں یہ بھی موجود کہ پی ٹی وی سینٹر پر تقریریں ریکارڈ کراتے وقت حکمرانوں کے رویئے کیسے ہوا کر تے تھے ۔جیسے اپنے لباس کا خاص خیال رکھنے والے یحییٰ خان ایک بار گھر سے بال بنا کر آئے تو میک اپ مین نے کنگھی پکڑ کرجونہی ہاتھ ان کے سر کی طرف بڑھایاتو یہ غصے سے بولے ’’میرے بالوں کو ہاتھ مت لگانا‘‘ ۔بھٹو صاحب کسی تکلف میں نہیں پڑاکرتے تھے، اِدھر وہ ٹی وی سینٹرپہنچتے اور اُدھر تقریر شروع ہو جاتی ۔ جنرل ضیا ء الحق اپنی شیروانی کے حوالے سے اتنے حساس تھے کہ ایک بار ٹی وی پر اپنی تقریر دیکھتے ہوئے اُنہوں نے اندازہ لگالیا کہ ان کی شیر وانی میںہلکا سا جھول ہے لہٰذا اگلے دن ہی اُنہوں نے درزی کو بلا کر اسے خوب جھاڑا ۔ ضیا ء صاحب ایک بار ایوان صدر سے وہ کرسی بھی ساتھ لے کر آئے کہ جس پر بیٹھ کر اُنہوں نے تقریر ریکارڈ کروائی ۔لیموں پانی کے شوقین وزیراعظم جونیجو بڑی خاموشی سے آتے اور ریکارڈنگ کروا کر اُسی خاموشی سے چلے جاتے ۔بے نظیر بھٹو تقریر کے وقت کسی کی مداخلت پسند نہ کرتیں جبکہ نواز شریف کو سب مشورے دیتے اور وہ سب کی سنتے۔ اختر وقار عظیم کے مطابق آخری دنوں میں ضیاء الحق انتہائی محتاط ہو گئے تھے ،وہ ایوانِ صدر سے کم کم ہی نکلتے اور تو اور اُنہوں نے 14اگست کی تقریب بھی ایوانِ صدر شفٹ کروالی ۔ ’’ہم بھی وہیں موجود تھے ‘‘ میں ضیاء حکومت کے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کا ذکر بھی ۔ پیپلز پارٹی کے کٹر مخالف اور پی پی والوں کو نکما اور نکھٹو سمجھنے والے جنرل مجیب کو اگر کوئی پسند نہ آتا یا اگر وہ سمجھتے کہ فلاں شخص حکومت کے مخالف ہے تو یہ اس کے بارے میں بس اتنا کہتے ’’ معصوم آدمی ہے‘‘ ۔ ایک بار پاک بھارت کرکٹ میچ میںجب وسیم راجہ نے سنچری بنائی تو وسیم راجہ سے ملنے کیلئے جنرل مجیب کھلاڑیوں کے پویلین میں آئے تو وسیم راجہ ایک کونے میں لیٹے ہوئے تھے ،ٹیم منیجر نے تعارف کرایا تو راجہ نے بس وہیں سے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ جنرل مجیب نے جب صدر ضیاء کی طرف سے مبارکباد دی تو وسیم راجہ نے لیٹے لیٹے ہی کہا ’’ ان سے میری بات ہو چکی ہے ‘‘،واپسی پر جنرل مجیب نے اپنے اسٹاف افسر سے کہا ’’ یہ کھلاڑی تو بڑا ہے مگر معصوم آدمی ہے ‘‘۔
آپ کو اسی کتاب میں یہ بھی ملے گا کہ کیسے زین ضیاء کی وجہ سے اختر وقار عظیم معطل ہوئے ، کیسے مسکراتے ہوئے ضیاء نے جونیجو حکومت گھر بھیج دی اور غلام اسحق خان کے وہ 4منٹ جن میں بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کر دی گئی ، اسی کتاب میں آپ یہ بھی پڑھیں گے کہ راولپنڈی پولنگ اسٹیشن پر روئیداد خان نے کیا دیکھا ،فخر امام کی کرکٹ کمنٹری کیسی تھی ، ڈاکٹر اے کیو خان سے ٹی وی پر معافی منگوانے والے دن اختر وقارعظیم اور شیخ رشید مظفر آباد کیوں گئے ، پڑھائی مکمل کرکے آنے والی بے نظیر بھٹو پی ٹی وی پروگرام "Encounter"کی میزبان کیسے بنیں ،بحیثیت وزیراعظم بی بی نے پی ٹی وی سینٹر پر 9بجے کا خبرنامہ خود کیوں تیار کیااور بی بی نے ویگنوں کے اڈے سے کیا منگوایااور اسی کتاب میں یہ بھی کہ جنرل مشرف کے مارشل لاء والی رات پی ٹی وی سینٹر پر کیا ہوا ، جون ایلیا نے اختر وقار عظیم کو کیوں نہ پہچا نا ، معین اختر اپنے دل کے ٹیسٹ کروانے والے دن کیوں غائب ہو گئے اور جگر مراد آبادی سے صوفی تبسم تک اختر بھائی کے گھر ادیبوں اور شاعروں کی محفلوں میں کیا کیا ہواکرتا ، یہ اور اسی طرح کا اور بہت کچھ اسی کتاب میں ۔لیکن جب سے میں نے اختر وقار عظیم کی کتاب میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے پڑھا تب سے سوچ رہا ہوں کہ بھٹو خاندان کی بدنصیبیاں تو اپنی جگہ مگر بی بی کے ساتھ تو وہ ہاتھ ہو اکہ خدا کی پناہ کیونکہ پاکستان کھپے (جو بعد میں پنجابی والا’’ پاکستان کھپے ‘‘نکلا ) کا نعرہ مارکر اُسی دن اُن کے خاوند زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ بی بی کے قاتلوں کوجانتے ہیں مگر پھر انکی 5سالہ صدارت سمیت گزشتہ 8 سالوں میں اگر کچھ ہوا تو وہ تھی سکون بھری لمبی چُپ ۔ اب اللہ جانے قاتل طاقتور تھے ، زرداری صاحب کمزور نکلے یا پھر ’’معاملہ ہی کوئی اورہے‘‘ اور پھر صورتحال یہاں آن پہنچی کہ بی بی کا وارث اب بلاول بھٹووہی بلاول جنہوں نے پچھلے ماہ فرمایا کہ’’ ہم پنجاب میں (ن لیگ )کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘، اپنی 5سالہ حکومت میں مسلسل اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھ کر بلاشبہ یہ بھی اتنے تجربہ کا ر تو ہو ہی گئے ہوں گے کہ کم ازکم (ن ) لیگ کی پنجاب میں تو اینٹ سے اینٹ بجادیں،باقی عوام کوتویہ پہلے ہی بڑی اچھی طرح بتا اور سمجھاچکے کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘لیکن اختر بھائی کی کتاب میں بی بی سے متعلق پڑھنے کے بعد جو بات میرے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی وہ یہ کہ اپنے خون پسینے سے ایک ایک اینٹ لگا کر پارٹی کی بنیاد رکھنے اور پھر اپنی جانیں دے کر اس بنیاد پر اینٹ سے اینٹ جوڑ کر عمارت کھڑی کرنے والے بلاول کے بڑوں کی اپنی پارٹی اور نام کی یوں اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھ کر کیا حالت ہوتی ہوگی ۔
تازہ ترین