• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حادثہ ہر روز ہونے لگے تو حادثہ نہیں رہتا۔ سانحے مسلسل ہونے لگیں تو انہیں سانحہ نہیں کہا جاتا۔ روز ہی لوگ مرنے لگیں تو خبر نہیں بنتی۔ دھماکے تسلسل سے ہونے لگیں تو احساس زیاں جاتا رہتا ہے۔ خون روز بہنے لگے تو دیکھنے والوں کا خون سفید ہو جاتا ہے۔ آہ بکا، چیخ و پکا ر اور لاشیں روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائیں تو دل پتھر اور ذہن مائوف ہو جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ تاسف ، غم اور الم کا اظہارکرتے کرتے لوگ تھک جاتے ہیں۔بے حسی ذہنوں سے آنکھوں تک در آتی ہے ۔ ایسے میں چشم نمناک ہمیشہ ایک نئے حادثے اور سانحے کی منتظر رہتی ہے کہ یہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے اور یہی ہے جو ہمارے خون رائیگاں کے ساتھ ہونا ہے۔
ایک مدت سے خود کش دھماکے ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن گئے ۔ ہر دوسرے ،تیسرے دن پہلے سے زیادہ اندوہناک خبر آہی جاتی ۔ بے گناہ لوگ ایک مدت سے ان سانحوں میں مرتے رہے ۔مرنے والوں کی تعداد کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہی ۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز کے ٹکر، ایمبولینس کے سائرن، خون میں لپٹی بے کفن لاشیں،چیختے چلاتے زخمی، بچوں کو تلاش کرتی مائیں، معصوموں کے لاشے گود میں اٹھائے بلکتے لوگ، مرنے والوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد ، مذمتی بیانات،مرنے والوں کے لئے نقد انعامات، زخمیوں کی عیادت اور پھر دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا عزم ۔ غرض کچھ بھی تو نیا نہیں ہوتا ۔یہ قصہ تو روزمرہ کا ہو گیا تھا۔
حادثوں کی اس روانی میں پھر ایک آرمی پبلک ا سکول جیسا سانحہ عظیم ہوتا ہے۔ یکدم سب کچھ تھم جاتا ہے۔ آنسو بھی۔ سانسیں بھی۔ امیدیں بھی۔اس ایک سانحے نے پوری قوم کو جیسے جھنجھوڑ دیا۔ اچانک ہی سب کو یہ احساس ہوا کہ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ہم اسکے مستحق نہیں۔ ظلم اب حد سے گزر گیا ہے۔ غم کی بساط اب ختم ہو گئی ہے۔ اب مرحلہ سزا واروں کو سزا دینے کا ہے۔ اب بے گناہوں کے خون کا حساب لینا ہے ۔ جواب لینا ہے۔
ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک لمحے میں پوری قوم متحد ہو گئی ۔ سیاستدان ، فوج ، بیوروکریسی اور عوام ایک دن میں ہی ایک سا سوچنے لگے۔ پھر ملک بھر میںحفاظتی اقدامات سخت ہو گئے، آپریشن ضرب عضب نے رفتار پکڑ لی۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے ہر روز پکڑے جانے لگے۔ ڈھیروں غیر قانونی اسلحہ برآمد ہونے لگا۔درجنوں مشکوک افراد روز گرفتار ہونے لگے۔آپریشن علاقہ غیر سے نکل کر شہروں کی حفاظت تک جا پہنچا۔ لوگ مدتوں کے بعد خود کو محفوظ سمجھنے لگے۔ دھماکوں کی خبریں کم ہوتے ہوتے معدوم ہو گئیں۔ شہروں کی رونقیں آباد اور سرحدیں محفوظ ہو نے لگیں۔ عوام سکھ کا سانس لینے ہی پائےتھے کہ بڈھ بیر جیسا سانحہ پھر ہو گیاجس میں انتیس بے گناہ شہید اور چودہ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
پشاور سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر بڈھ بیر تربیتی کیمپ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ ایک حصہ ڈومیسٹک کیمپ کہلاتا ہے اور دوسرا رہائشی علاقہ جس میں تربیت لینے والے افسران عارضی طور پر اور کچھ افسران مستقل رہائش پذیر ہوتے ہیں۔صبح پانچ بجکر تیرہ منٹ پر دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا ۔ سب سے پہلے راکٹ لانچر سے حفاظتی گیٹ اڑا دیا گیا۔ پانچ دہشت گرد ڈومیسٹک کیمپ کی طرف چلے گئے اور نو نے رہائشی علاقے کا رخ کیا۔دہشت گردوں کے پاس اسلحے کا انبار اتنا بڑا تھا کہ یہ سانحہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ بن سکتا تھا۔ ڈومیسٹک کیمپ کی طرف جانے والوں میں سے ایک نے مسجد کی راہ لی اور خدا کی راہ میں سجدہ ریز نمازیوںپر گولیوں کی بارش کر دی۔نمازیوں کوشہید کر کے تین دہشت گردوں نے جوانوں کی بیرکوں کی راہ لی۔یہ سفاک لوگ بیرکوں میں گھس کر ہینڈ گرنیڈ پھینکتے رہے۔ دوسری طرف نو دہشت گرد رہائشی علاقے کی طرف بڑھے اور ان میں سے چند کو سیکورٹی پر تعینات جوانوں نے موقع پر ہی ہلاک کیا باقی ماندہ فائرنگ کرتے رہائشی علاقے کی طرف بڑھے۔
جونیئرٹیکنیشن شان ایک شیر کی طرح اپنے مورچے سے نکل کر انکے تعاقب میں بھا گا اور وہیں کچھ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا اور اسی دوران اس کے بدن میں بے شمار گولیاں لگیں اور قوم کے اس بیٹے نے موقع پر بے جگری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا۔
دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج کا کوئیک رسپانس یونٹ حرکت میں آگیا ۔ میجر حسیب اور کیپٹن اسفندیار صرف پانچ منٹ میں موقع پر پہنچ گئے۔ میجر حسیب صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے کہ کیپٹن اسفند یار نے مسکراتے ہو کہا کہ چھوڑیں سر انکے لئے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں اور یہ کہتے ہوئے ان بیرکوں میں جا گھسے جن میں چھپ کر دہشت گرد ہینڈ گرنیڈ پھینک رہے تھے۔ شیر کی طرح کیپٹن اسفند یار ان بیرکوں میں گئے اور دودہشت گردوں کوہلاک کیا۔ اس دوران چار گولیاںآپ کے جسم پر لگیں۔ ایک گولی ٹانگ پر اور تین شیر جوان کے سینے میں پیوست ہو گئیں۔ کیپٹن اسفند یار نے فائرنگ نہ روکی کہ اسی اثنا ء میں تیسرے دہشت گرد نے اس بہادر جوان پر ہینڈ گرنیڈ پھینک دیا جسکے بارود نے اسفند یار شہید کے جسم کو چھلنی کر دیا۔ اس موقع پر بھی قوم کے شہید بیٹے نے فائرنگ کا سلسلہ نہ روکا تاوقت یہ کہ تیسرا دہشت گرد بھی اپنے انجام کوپہنچ گیا۔ بہادری کے ان لازوال کارناموںسے لمحوں میں کیمپ دہشت گردوں سے پاک ہو گیا۔ کیپٹن اسفند یارشہید کو فوری طور پر کیمپ میں موجود ایمرجنسی روم میں لایا گیا۔ وہاں میجر حسیب خود زخمی حالت میں موجود تھے ایک گولی انکی ٹانگ پر لگی تھی۔لہو لہو بدن کے ساتھ کیپٹن اسفند یار ابھی ہوش میں تھے انہوں نے میجر حسیب کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔ سر، میں نے کہا تھا نا کہ ان کے لئے میں اکیلا ہی کافی ہوں۔اس جملے کے کہنے کے ساتھ ہی نبض ڈوب گئی۔دل کی دھڑکنیں بتانے والا مانیٹر خاموش ہو گیا۔اسی لمحے کیپٹن اسفند یار شہید کی جیب میں رکھا موبائل بجنے لگا۔ ایک ساتھی نے جب شہید کی جیب سے موبائل نکالا تو شہید بیٹے کی ماں کا فون مسلسل آرہا تھا۔اسفند یار شہید اس لمحے رفعتوں کی نئی منزلوں کی طرف عازم سفر ہو چکے تھے، جس دھرتی ماں کی حفاظت کی قسم کھائی تھی اس عہد کو پورا کر چکے تھے۔ ۔ شہید بیٹے کی ماں کے دل کوجانے کیسے اس سفر کی خبر ہو چکی تھی ۔ شایداس لئے کہ مائیں بچوں کے ہر زخم کواپنے دل پر سہتی ہیں۔
تو یہ جو اس ملک میں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔ روز صبح خیریت سے اٹھتے ہیں ، دن بھر کے کام زندہ رہ کر کرتے ہیں تو در اصل یہ صلہ ہے ان شہیدوں کی وطن سے محبت کے جنون کا، ان پاک جسموں کے خون کا ، دھڑکتے دلوں والی مائوں کے فون کا۔
تازہ ترین