• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ابھرتی ہوئی منڈی کی معیشتوں کی صف میں شامل ہونے کے اہم معاشی سفر پر گامزن ہوچکا ہے۔ پاکستان کے تین سالہ اصلاحاتی معاشی پروگرام سے، جسے آئی ایم ایف کی حمایت حاصل رہی، نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ معیشت کی لچک میں اضافہ ہوا ہے اور ایک بلند، زیادہ شمولیتی اور نجی شعبے کی مرکزیت والی معاشی نمو کو تقویت دینے کیلئے مزید اقدامات شروع کئےگئے ہیں۔بلاشبہ یہ اصلاحاتی ایجنڈا ایک مسلسل کاوش کا نام ہے۔ تاہم زیادہ مستحکم معیشت اور بتدریج بڑھتی ہوئی نمو کے طفیل اب پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے زیادہ تیزی سے روزگار کی تخلیق کے حالات پیدا کرنے اور اپنے تمام شہریوں کی خوشحالی بڑھانے کا موقع حاصل ہے۔ یہ وہ چند نکات ہیں جن پر میں اس ہفتے پاکستان کے اپنے پہلے دورے میں گفتگو کروں گی۔
عالمی سطح پر معاشی منظر نامہ بدستور کمزور اور نازک ہے۔ کافی طویل عرصے سے شرح نمو بہت کم ہے اور آبادی کا بہت تھوڑا حصہ اس سے مستفید ہوپارہا ہے۔ اس وجہ سے کئی ترقی یافتہ معیشتوں میں جذبات انگیزی اور اندرونی اغراض پر مبنی رویوں کو بڑھاوا ملا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر ابھی تک عالمی مالی بحران سے سنبھل رہی ہیں۔ اسکے نتیجے میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کو عالمی نمو کے بنیادی محرک کے طور پر کردار ادا کرتے رہنا پڑے گا۔لیکن یہاں بھی، ابھرتی ہوئی معیشتوں میں نمو کی بحالی کی رفتار معمولی ہے۔ کئی بڑی ابھرتی ہوئی معیشتیں عبوری دور سے گزر رہی ہیں۔ چین اپنا توازن سرمایہ کاری سے خرچ اور برآمدات سے ملکی طلب کے حق میں بدل رہا ہے۔ اس کا مطلب ہوا ایک سست لیکن زیادہ پائیدار نمو کا ماڈل—جس کے اثرات زیادہ تر عالمی تجارت میں محسوس کئے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور برازیل بھی تیزی سے ہونے والی کساد بازاری سے بتدریج سنبھل رہے ہیں۔اس ملے جلے عالمی ماحول میں پاکستان اپنی نمو کو تقویت دینے کیلئے صرف اپنے تجارتی حلیفوں پر انحصار نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو خود اپنی پالیسیوں کی مضبوطی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں چار ترجیحات بنیادی ہیں۔
اوّل، معیشت کو مزید لچکدار بنایا جائے۔ غیریقینی عالمی امکانات کے پیش نظر معیشت کو ان ممکنہ دھچکوں کیلئے تیار کرنا ہوگا جو آگے چل کر آسکتے ہیں۔ پاکستان کا سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا 65 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے کافی زیادہ وسائل سرکاری سرمایہ کاری، تعلیم اور نمو بڑھانے والے دیگر شعبوں کے بجائے سودی کی ادائیگیوں میں جارہے ہیں. اس وقت ہدف یہ ہونا چاہئے کہ بین الاقوامی ذخائر بڑھاتے رہنے کے ساتھ سرکاری مالیات کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے غریب ترین طبقات کے تحفظ کیلئے سماجی سیفٹی نیٹس کو مزید مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
دوم، نمو میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان موجودہ 4-5 فیصد سالانہ شرح نمو سے زیادہ تیز رفتار سے ترقی کرسکتا ہے۔ اس کیلئے زیادہ سرمایہ کاری اور بلند پیداواری نمو درکار ہوگی۔ انفراسٹرکچر میں سرکاری سرمایہ کاری سے معاشی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس کیلئے چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک بہت اچھا موقع ہے۔ اس کے مالی بندوبست کا انتظام احتیاط سے کیا جائے تو یہ حالات کو یکسر بدل دینے والی کامیابی ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم معاشی امکانات کو قوی تر بنانے میں نجی شعبے کو بھی زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ آج پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری معیشت کا صرف 10 فیصد ہے، جو ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اوسط 18 فیصد سے کافی کم ہے۔ نجی شعبے کی نمو کو تیز کرنے میں مدد کیلئے توانائی کے شعبے کی اصلاحات کو مکمل کرنا اور گورننس اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔سوم، نمو کے معیار کی بہت وقعت ہے۔ معاشی نمو بذات خود کافی نہیں جب تک اس کے ثمرات آبادی کے تمام حصوں تک نہ پہنچیں۔ اس حوالے سے دو موضوعات سے میری دلی قربت ہے:تعلیم اور صنفی مسائل۔ پرائمری اسکول کی عمر کے 6 ملین سے زیادہ بچے بشمول 3.5ملین لڑکیاں اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرکاری تعلیم پر مزید اخراجات کی ضرورت ہے لیکن معیار تعلیم میں بہتری بھی اتنی ہی اہم ہے۔ پاکستان کو معاشرے کے تمام طبقات کیلئے مواقع تک رسائی کو یقینی بنانے اور اپنے عوام کو مستقبل کی روزگار منڈی کیلئے درکار ہنر سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح صرف ایک چوتھائی خواتین محنت کش افرادی قوت میں شامل ہیں۔ پاکستان خواتین کو بہتر انداز میں معیشت کا حصہ بناکر اپنی ترقی کے امکانات میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتا ہے۔ اس طرح معاشی نمو نہ صرف زیادہ شمولیتی ہوجائے گی بلکہ بلندتر بھی۔ آئی ایم ایف کی تحقیق بتاتی ہے کہ صنفی فرق ختم کرنے سے پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً ایک تہائی بڑھ سکتی ہے۔
آخری نکتہ، عالمی نظام پر یقین رکھنا۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے تجربے کو پیش نظر رکھا جائے تو پاکستان کی برآمدات جتنی ہوسکتی تھیں اس کی تقریباً ایک چوتھائی ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت اور عالمی ویلیو چین (value chain) کا حصہ بننے کے بہت امکانات ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا جارہا۔ علاقائی اور بین الاقوامی روابط پر مسلسل توجہ رکھی جائے تو ان امکانات کو حقیقت بنایا جاسکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان اس سازگار موقع سے فائدہ اٹھا کر خود کو ایک متحرک اور مربوط ابھرتی ہوئی منڈی کی معیشت بناسکتا ہے۔ پائیدار روزگار اور ترقی کے ثمرات سب تک پہنچانے والی یہ معیشت آنے والے برسوں میں مجموعی ملکی استحکام کیلئے ایک مضبوط قوت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی بات تجارت اور سرحد پار سرمایہ کاری پر لاگو ہوتی ہے جو لوگوں کو باہمی معاشی فوائد کیلئے ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں اور خطے میں استحکام پیدا کرنے والی ایک قوت بن سکتی ہیں۔
اس وقت جب میں اپنے پاکستان کے دورے کا آغاز کررہی ہوں، گزشتہ تین برسوں میں آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والا معاشی پروگرام مکمل ہوچکا ہے تاہم مجھے بھرپور امید ہے کہ پالیسی مکالمے اور استعداد کاری کی کوششوں کے ذریعے ہماری رفاقت جاری رہے گی۔


.
تازہ ترین