• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین الاقوامی تعلقات میں دشمن کے ساتھ بھی ممکنہ مفاہمت کو کسی لمحے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ان ممالک سے تعلقات کو کشادہ کیا جانا جو کہ کبھی صف دشمناں میں خیال کیے جاتے تھے از حد لازم ہے۔ پاکستان اور روس کی فوجی مشقیں اس علامت کے طور پر عالمی برادری اور بالخصوص بھارت میں دیکھی گئیں کہ برف پگھلنے لگی ہے اور اس پگھلتی برف کے اثرات ایشیاء کی سیاست پر کس طرح مئوثر ہیں۔ ۔خیال رہے کہ نئے روابط کو کسی بلاک کی جانب بڑھتے اقدام سے یا کسی پرانے حلیف سے الگ ہوجانا ،سے تعبیر کیا جانا درحقیقت گزشتہ سرد جنگ کے احساسات اور تجزیات کے ساتھ زندگی گزارنا ہو گا۔ حالانکہ یہ سب اب ماضی ہوا اور حال کو بہتر مستقبل کی جانب گامزن کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس تمہید کا سبب گزشتہ مضمون میں روس پاکستان تعلقات میں نئی جہتوں کے حوالے سے اجمالاً اظہار خیال کرنا تھا۔ احباب نے فرمائش کی کہ کچھ شرح و بسط مزید ہو جائیں۔ روس پاکستان تعلقات کی تاریخ پر اگر نظر دہرائیں تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ آزادی کے عشرہ اول میں ہی معاملات کا رخ بگاڑ کی جانب ہوتا چلا گیا۔ روس نے اول اول کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت کو اگست 1948ء اور جنوری 1949ء میں منظور کی گئی قراردادوں کے خلاف استعمال نہیں کیا تھا۔ مگر 1954ء اور 1962ء میں سلامتی کونسل میں سابق سوویت یونین حال روس نے کشمیر پر قرار دادوں کو ویٹو کر دیا۔ روس میں اس کے حوالے سے دو وجوہات پائی جاتی تھیں۔ اول یہ کہ اگر روس بھارت سے لاتعلق ہو جائے تو بھارت مکمل طور پر امریکہ کی جھولی میں آگرے گا۔ اسی سبب سے روس نے امریکہ کی بھارت کو اسلحہ کی فراہمی کے باوجود اپنے اسلحے کی فراہمی بڑے پیمانے پر جاری رکھی۔ دوئم پاکستان میں امریکی فوجی اڈے قائم ہونے کے بعد روس پاکستان کی جانب سے کسی امریکی سرگرمی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کا یہ مسئلہ تھا اور ہنوز ہے کہ بھارت کی جانب سے ہمہ وقت خطرے کا احساس تازہ رہتا ہے۔ اور پاکستان بجا طور پر اس خطرے سے غافل نہیں رہ سکتا۔ پاکستان میں یہ احساس تیزی سے فروغ پا رہا تھا کہ امریکہ کی پاکستان سے تعلقات کی نوعیت چاہے جیسی بھی کیوں نہ ہو امریکہ بھارت کو کلیتاً نظر انداز نہیں کریگا۔ اس وقت تو پاکستانی فیصلہ سازوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب 1962ء میں بھارت نے امریکہ سے چین کے مقابلے میں ایٹمی چھتری کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ کیا جانا ہی اس معاملے کی دلیل تھا کہ بھارت امریکہ سے اپنے معاملات کو کس نوعیت تک دیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں امریکی برتائو کے رد عمل کے طور پر امریکہ کی شدید خواہش کے باوجود ویت نام میں اپنی افواج روانہ نہ کیں۔ بلکہ امریکی ضد کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی ٹیم تک وہاں نہ بھیجی۔ مگر اس سب کے باوجود روس اور پاکستان میں سرد مہری برقرار رہی۔ دو ایک استثنائی واقعات کے علاوہ یہ معاملہ سوویت یونین کے انہدام تک چلا۔ گزشتہ دو عشروں سے بھارت کی اقتصادیات جب مضبوط ہونے لگی اور روس کی بین الاقوامی حیثیت دھندلانا شروع ہو گئی تو بھارت امریکہ تعلقات میں گرم جوشی بڑھتی چلی گئی جبکہ بھارت روس تعلقات میں روایتی دوستی ہی دوستی رہی۔ اس کو روسی حلقوں میں محسوس بھی کیا جانے لگا۔ پاکستان کو اب روس سے کیا پرخاش۔ نئے دروا کرنا وقت کی ضرورت ، لہٰذا گزشتہ برس وزیر اعظم نواز شریف کی ماسکو آمد نے برف پگھلانا شروع کر دی۔ فوج میں بھی ضرورت کا احساس موجود تھا۔ روسی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں ہٹیں دفاعی پابندیاں روس نے اس دورے کے سبب سے ختم کر دیں۔ بھارت ان تبدیلیوں کو دیکھ رہا تھا اور اس کے تجزیے میں مصروف رہا۔ جس دن روسی فوجی مشترکہ دفاعی مشقیں کرنے کی غرض سے پاکستان آ موجود ہوئے اس سے قبل بھارت نے اپنی از سر نو صف بندی کرنے کی غرض سے بھارت کے تھنک ٹینکوں سے وابستہ روسی امور سے منسلک افراد کا وفد ماسکو روانہ کر دیا۔ کیونکہ خطے میں روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے پاکستانی تعلقات اس امر کی غماضی کر رہے ہیں کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنے کی بھارتی خواہش کو پذیرائی نصیب ہونے کا امکان موجود نہیں ہے۔ اسی سبب سے دہلی پالیسی گروپ، ویویکنند انٹر نیشنل فائونڈیشن ، گیٹ وے ہائوس اور یوریشین اسٹڈیز ایٹ آبزرور ریسرچ فائونڈیشن جیسے اداروں سے وابستہ افراد بھارت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ آپ تمام رپورٹیں پڑھ کر دیکھیں۔ ۔سب کی تان صرف اس پر ٹوٹ رہی تھی کہ پاکستان روس دفاعی مشقیں روس بھارت تعلقات میں ابہام لائیگیں۔ اس حوالے سے میڈیا، افراد کے باہمی تعلقات ، کاروباری مفادات کو بڑھانے کی تجاویز دی گئیں۔ یوکرائن اور شام کے تنازع میں بھارتی مئوقف کو دہرایا گیا ۔ دوسرے لفظوں میں روس کو باور کروائے جانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان سے بڑھتے تعلقات کے نتیجے میں بھارت سے تعلقات مشتبہ ہو جائیں گے۔ ضرورت یہ ہے کہ پاکستان بھی اسی حوالے سے انہی سطحوں پر روس سے روابط کو مضبوط کرنے کی کوششیں کرے۔ وزیر اعظم کی ذاتی مساعی سے پاکستان روس معاملات بہتری کی جانب گامزن ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان کی ذاتی دلچسپی اس کے لئے آب حیات ثابت ہو گی۔ لیکن جمہوریت کو بڑھکیں لگا کر ڈرانے کی کوشش کرنے والے ان تمام امور کو سبوتاژ کر کے ہی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ صرف ایک شخص کی ضد پورے نظام کو تلپٹ کر کے رکھنا چاہتی ہے۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت کو کچھ ہوا تو پاکستان کی عالمی تنہائی کا بھارتی خواب ، خدانخواستہ۔


.
تازہ ترین