• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایک سنہری موقع ضائع کیا جا رہا ہے ۔ یہ الفاظ سینیٹ کی اس خصوصی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے ہیں ، جو پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ پر پیدا ہونے والے تنازع سے متعلق حقائق جاننے کے لیے قائم کی گئی تھی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری کے اس روٹ پر کام نہیں کیا جا رہا ہے ، جس پر 28 مئی 2015ء کی آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں اتفاق کیا گیا تھا ۔ اس طرح بلوچستان ، فاٹا اور خیبرپختونخوا کے بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع ضائع کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے پسماندہ اور ترقی پذیر علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کا موقع ضائع کیا جا رہا ہے ۔ متبادل داخلی راستوں کی تعمیر سے قومی دفاع کو مضبوط کرنے کا موقع ضائع کیا جا رہا ہے ۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کا موقع ضائع کیا جا رہا ہے اور مشترکہ کوششوں سے قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کا موقع ضائع کیا جا رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر ایک ایسا موقع ہے ، جو پاکستان کے جغرافیائی محل و قوع ، مستقبل کی ابھرتی ہوئی عالمی معیشت میں بڑی طاقتوں کی مسابقت اور بدلتی ہوئی دنیا میں نئی صف بندیوں کے باعث پاکستان کو میسر آ رہا ہے لیکن پاکستان کے ایوان وفاق (سینیٹ ) میں بیٹھے ہوئے وفاقی اکائیوں کے نمائندے انتہائی افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ موقع ضائع کیا جا رہا ہے ۔
28 مئی 2015ء کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں جس متفقہ روٹ پر اتفاق کیا تھا ، سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ روٹ گوادر سے براستہ تربت ، ہوشاب ، پنجگور ، بسیما ، قلات ، کوئٹہ ، قلع سیف اللہ ، ژوب ، ڈیرہ اسماعیل خان ، میاں والی ، اٹک ، حسن ابدال اور اس سے آگے تک ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ صرف سیاسی جماعتوں کے ہی نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان موجود تھے ، جنہوں نے اپنی اجتماعی دانش سے مذکورہ روٹ پر اتفاق کیا ۔ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اس لئےہوا تھا کہ اقتصادی راہداری کے روٹ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے ۔ شکوک و شبہات پیدا ہونے کے دو اسباب تھے ۔ پہلا سبب یہ تھا کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں اقتصادی راہداری کے جن منصوبوں کے لیے رقم مختص کی گئی تھی ، وہ منصوبے متفقہ روٹ پر نہیں تھے ۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سیاست دان مسلسل چیخ رہے تھے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ واضح نہیں ہے اور موجودہ حکومت کچھ مخصوص علاقوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنی مرضی کا روٹ بنا رہی ہے ۔ شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی اور قومی سیاسی قیادت کو یقین دلایا گیا کہ اسی روٹ پر کام کیا جائے گا ، جس پر اتفاق ہوا ہے ۔ قومی سیاسی قیادت کے اجتماعی فیصلے اور حکومت کی اس یقین دہانی کے باوجود شکوک و شبہات ختم نہیں ہوئے ۔ سینیٹ میں اس مسئلے پر زبردست بحث ہوئی اور سینیٹ کے چیئرمین کو ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینا پڑی ۔ اسی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجٹ دستاویزات کے مطابق متفقہ روٹ پر کوئی منصوبہ بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ سارے منصوبے نام نہاد مشرقی روٹ پر ہیں ، جو کراچی سے سکھر ، لاہور ، اسلام آباد اور آگے تک جاتا ہے ۔ ساری تجارت کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ سے ہو گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں گوادر سے کاشغر تک شاہراہ کو منصوبہ سازوں نے نظرانداز کر دیا ہے ۔سینیٹ کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے باوجود بھی حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔ حکومت اب وضاحت کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے کیونکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سینیٹ کی کمیٹی کے اجلاس میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ متفقہ روٹ پر اس وقت کام نہیں ہو رہا ہے ۔ اس پر تیسرے اور آخری مرحلے میں کام شروع کیا جائے گا اور یہ مرحلہ 2030ء کے بعد آئے گا ۔
وفاقی حکومت مشرقی روٹ پر فوری کام کرنے کا یہ جواز پیش کرتی ہے کہ اس روٹ پر انفراا سٹرکچر پہلے سے موجود ہے ۔ صرف اس میں بہتری لانا ہو گی اور اس سے فوری اقتصادی فائدہ ( Early Economic Harvest ) حاصل ہو گا ۔ اس صورت حال کے پیش نظر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ’’ پالیسی ریفارم یونٹ ‘‘ نے راہداری کے روٹ پر پیدا ہونے والے تنازع سے متعلق اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔ یہ رپورٹ اقتصادیات اور منصوبہ بندی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے تیار کی ہے ۔ اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر قیصر بنگالی تھے ، جو معروف ماہر اقتصادیات و منصوبہ بندی ہیں اور اس وقت حکومت بلوچستان کے اقتصادی امور کے مشیر اور مذکورہ یونٹ کے سربراہ ہیں ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ راہداری کی دو بنیادی چیزیں ہیں ، ایک گوادر پورٹ اور دوسری گوادر سے کاشغر تک شاہراہ ۔ باقی سب ’’ Icing on the cake ‘‘ ہے ۔ ‘‘ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’ 2006ء میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے ایک نقشہ میں روٹ کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ یہ روٹ گوادر سے براستہ تربت ، پنجگور ، خضدار ، رتو ڈیرو ، کشمور ، راجن پور ، ڈیرہ غازی خان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں ، کوہاٹ ، پشاور ، حسن ابدال اور آگے تک تھا ۔ یہ مرکزی روٹ تھا لیکن اس کے بعد دوسرے روٹ بھی سامنے آ گئے ۔ ‘‘ پلاننگ کمیشن والا روٹ بھی متفقہ روٹ سے ملتا جلتا ہے ۔ حکومت بلوچستان کی رپورٹ میں اعدادو شمار کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ متفقہ روٹ کے مقابلے میں مشرقی روٹ زیادہ طویل اور زیادہ مہنگا ہے ۔ پہلے سے موجود انفراا سٹرکچر راہداری کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے اور اس کے ماحولیات پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ۔ پاکستان کی سیاسی معیشت کے تناظر میں نہ صرف پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جا سکے گی بلکہ بہت بڑی غریب آبادی کو ترقی کے عمل میں شامل کر لیا جائے گا ۔ اس رپورٹ میں ہر اس دلیل کو رد کیا گیا ہے ، جو حکومت مشرقی روٹ کے حق میں دیتی ہے ۔
اصل کہانی کیا ہے ؟ کیا ہم فوری فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کسی دانستہ یا نادانستہ تاریخی غلطی کا ارتکاب کرنے جا رہے ہیں ؟ یہ بہت حساس اور پیچیدہ سوالات ہیں ، جن کا حتمی جواب بوجوہ نہیں دیا جا سکتا لیکن جواب حاصل کرنے کے لیے کچھ حقائق کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ قومی سیاسی قیادت نے جس روٹ پر اتفاق کیا ہے ، اس کے حوالے سے بہت سی باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔ مثلاً بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور شمالی قبائلی علاقہ جات میں عالمی طاقتوں نے بدامنی کی جو آگ جلا رکھی ہے ، اسے بجھایا جائے ۔ یہ تمام علاقے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال ہیں اور تزویراتی ( اسٹریٹجک ) اہمیت کے حامل ہیں ۔ امریکا اور مغرب کی نظریں اس خطے پر ہیں ۔ پاکستان کے ان مغربی علاقوں میںدیگر معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں ۔ ان ذخائر پر نظر رکھنے والی عالمی طاقتیں یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ یہ علاقے ترقی کریں اور پاکستان سے الگ نہ ہو سکیں ۔ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کی اجتماعی دانش بین الاقوامی سازشوں کا بھرپور ادراک رکھتی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے اور بدامنی کی آگ کو بجھانے کیلئے ان علاقوں کو ترجیحی بنیاد پر ترقی دی جائے ۔ اقتصادی راہداری سے ان علاقوں کو ترقی دینے کا سنہری موقع حاصل ہو رہا ہے ، جو ایوان وفاق کے نمائندوں کے مطابق ضائع کیا جا رہا ہے ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی پر بھی بعض عالمی طاقتوں کی نظر ہے ، یہ بھی تزویراتی اہمیت کی حامل ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور کئی دیگر رہنما بارہا ان سازشوں کا تذکرہ کر چکے ہیں ، جن کے تحت کراچی سے گوادر تک کے ساحلی علاقے کو ایک الگ ملک بنانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں گوادر پورٹ کو ترقی دینے کے منصوبے تو شامل ہیں لیکن گوادر سے کاشغر تک متفقہ روٹ پر شاہراہ ، ریلوے لائن ، فائبر آپٹک ، انڈسٹریل اور ایکسپورٹ زونز جیسے منصوبے غائب ہیں ۔ گوادر پورٹ کو پھر ترقی کیوں دی جا رہی ہے ؟ بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں گوادر پورٹ اور گوادر سے کاشغر تک شاہراہ لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر ایک نہیں ہے تو پھر دوسری چیز کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سینیٹ کی رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اگر متفقہ روٹ پر کام نہیں کیا گیا تو گوادر پورٹ ایک اضافی اور بے کار چیز بن کر رہ جائے گا ۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی نظم ’’ بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ‘‘ کا مقطع یاد آ رہا ہے
تقدیر امم کیا ہے ، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
تازہ ترین