• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی شہر میں تقریباً تین عشروں کے بعد رونقیں بحال ہو رہی ہیں ۔ 1960 ءاور 1970 ء کی دہائیوں والا کراچی اپنی سماجی ، ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو دوبارہ اجاگر کررہا ہے۔ یہ شہر ایک بار پھر اپنی اقتصادی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ یہاں امن لوٹ آیا ہے اور سرمایہ واپس آرہا ہے ۔ کراچی میں پیدا ہونیوالے جن لوگوں کی عمر 30 سال سے کم ہے ، وہ پہلی دفعہ ایسا ماحول دیکھ رہے ہیں اور ان کیلئے یہ ایک خوشگوار حیرت ہے۔ ان نوجوانوں نے جس ماحول میں اپنی زندگی گزاری ہے ، اس کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ ’’ ایک خوف زدہ جیون لے کر میں موت کے گھر میں رہتا ہوں ۔ جس شہر کا نام کراچی ہے ، میں اسی شہر میں رہتا ہوں ۔ ‘‘ لیکن اب ماحول بہت تبدیل ہو چکا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کامیاب ہو رہا ہے ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 14 اگست اور 6 ستمبر سمیت ہر قومی تہوار جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ۔ عیدین اور دیگر مذہبی تہواروں کو بھرپور انداز میں منانے کا پرامن ماحول بھی لوگوں کو طویل عرصے بعد میسر آیا ۔ عیدالفطر کی طرح اس عیدالاضحیٰ پر بھی لوگوں نے اپنی مرضی سے خوشیاں منائیں اور قربانی کا مذہبی فریضہ ادا کیا ۔ شاپنگ سینٹرز اور بازاروں میں لوگوں کا ہجوم رہا اور ایک مہینے تک مویشی منڈیوں میں میلے کا سماں رہا ۔ بہت مدت کے بعد کراچی راتوں کو جاگنے لگا ہے ۔ نوجوان بلا خوف و خطر دیر تک گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔ گلیوں ، محلوں اور ہوٹلوں پر رات گئے تک محفلیں جاری رہتی ہیں ۔ بعض علاقوں میں کھانے اور چائے کے ہوٹل رات بھر کھلے رہتے ہیں ۔ سینما تھیٹرز میں بڑی مشکل سے ٹکٹ ملتے ہیں۔ آرٹس کونسل سمیت شہر کے مختلف کلچرل سینٹرز میں صبح سے رات تک مختلف ثقافتی پروگرام جاری رہتے ہیں ۔ ثقافتی سرگرمیوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا ہے ۔ ثقافت صرف ناچ گانے کا نام نہیں ہے ۔ اگرچہ ناچ گانا بھی ثقافت ہے لیکن دیگر ثقافتی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں ۔ مشاعروں کی محفلیں ہونے لگی ہیں ۔ نئی کتابوں کی تقاریب رونمائی منعقد ہو رہی ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک بار پھر کراچی میں تخلیقی کام ہونے لگا ہے ۔ پبلشنگ ہاؤسز میں ویرانی ختم ہو گئی ہے ۔ تنقیدی نشستیں منعقد ہورہی ہیں ۔ اس شہر میں رہنے والے دانشوروں ، لکھاریوں ، نقاد ، فلسفیوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک طویل عرصے کے بعد یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ اس معاشرے کے کارآمد اور محترم لوگ ہیں ۔ نئے میوزک ہاؤسز اور پروڈکشن ہاؤسز قائم ہو رہے ہیں اور تخلیق کار نوجوان تخلیقی پیشوں کو اپنا رہے ہیں ۔ مصوروں کے فن پاروں کی نمائشیں ہو رہی ہیں ۔ گلیوں اور محلوں میں شامیانے لگا کر لوگ راتوں کو موسیقی کی محفلیں سجا رہے ہیں اور نوجوان فنکار انتہائی مصروف ہوگئے ہیں ۔تمام بڑے تھیٹرز میں ڈرامےہوتے ہیں ۔ علمی مباحث ہو رہے ہیں ۔ بڑے بڑے ہوٹل میں سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ صنعتی علاقوں میں بھی رات میں دن کا سماں ہوتا ہے کیونکہ صنعتوں میں دوبارہ تین شفٹوں میں کام ہونے لگا ہے ۔ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں ۔ کراچی کی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ میں بہت حد تک کمی ہو گئی ہے ۔ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کسی حد تک ختم ہو گئی ہیں ۔ اس سال عیدالاضحی کے موقع پر کھالوں کی چھینا جھپٹی کی وارداتیں بھی نہیں ہوئی ہیں ۔ کھالوں کے حصول کیلئے پبلسٹی اور اشتہاری مہم کا بھی سہارا نہیں لیا گیا ۔ کراچی خوف اور بے یقینی کے ماحول سے نکل رہا ہے اور لوگوں کیلئے اعصاب شکن صورت حال ختم ہو رہی ہے ۔
ڈھائی کروڑ سے زیادہ آبادی والا عروس البلاد کراچی اپنی حقیقی شناخت اور اپنے حقیقی جوہر کے ساتھ دوبارہ نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کا تہذیبی ، ثقافتی اور اقتصادی مرکز بننے جارہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب کراچی میں فی کس آمدنی جنوبی ایشیا کے دیگر تمام شہروں کی فی کس آمدنی سے زیادہ تھی ۔ اس حوالے سے کراچی جنوبی ایشیا کا امیر ترین شہر تھا ۔ یہ خطے کا تجارتی مرکز بھی تھا اور کراچی کی بندرگاہ خطے کی سب سے زیادہ مصروف بندرگاہ تھی اور اسی طرح ایئرپورٹ بھی خطے کا مصروف ترین ایئرپورٹ تھا ۔ کراچی علم و ثقافت کا مرکز تھا ۔ یہاں کے تعلیمی اداروں میں اس خطے کے مختلف ممالک کے طلبہ زیر تعلیم ہوتے تھے۔ کراچی کی جامعہ ہو، کالج ہو یا پروفیشنل ادارے یہ سب تعلیم کی سندیں دیتے تھے بلکہ تربیت گاہیں جہاں انسان بنائے جاتے تھے علمی اور ادبی مباحث کے لئے بھی یہ شہر اپنی الگ شہرت رکھتا تھا ۔ یہاں کی تہذیب ، رسم و رواج ، رکھ رکھاؤ اور پکوانوں سے بھی نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کے لوگ متاثر ہوتے تھے اور کراچی سے اپنی نسبت جوڑتے ہوئے لوگوں کو فخر محسوس ہوتا تھا ۔ وہی پرانا کراچی دوبارہ بحال ہو رہا ہے اور 30سال سے کم عمر نوجوانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ عظیم تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے امین ہیں اور ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں ، جس میں تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ترقی کی بھرپور صلاحیت موجود ہے ۔ روشنیوں کے شہر کی روشنیاں بحال ہو رہی ہیں ۔ خوف زدہ جیون لے کر آنے والے نوجوانوں کے دلوں میں امنگیں پیدا ہونے لگی ہیں اور ارمان جاگ رہے ہیں ۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے ۔
اس شہر میں یہ جوہر موجود ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بڑی اکنامک پاور بنا سکتا ہے ۔ یہ منی پاکستان ہے ۔ یہ پاکستان کا چہرہ ہے ۔ یہاں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے لیکن اس شہر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بے یقینی ابھی تک پائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خوف کی فضاء ختم ہونے کے باوجود وسوسے اور خدشات موجود ہیں کیونکہ اس شہر کو پہلے بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت تباہی سے دوچار کیا گیا اور یہ منصوبہ بندی کرنے والی قوتیں اب یہ نہیں چاہیں گی کہ اس شہر میں امن بحال ہو اور یہ شہر معاشی طور پر خطے کے دیگر شہروں پر سبقت حاصل کرے ۔ ٹارگٹڈ آپریشن کو نہ صرف منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے بلکہ ایسے حالات بھی پیدا ہونے چاہئیں کہ یہ شہر پرامن طریقے سے قومی سیاسی دھارے میں پہلے کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے ۔ اس موقع پر فیض احمد فیض کی کراچی کے بارے میں نظم ’’ اے روشنیوں کے شہر ! ‘‘ یاد آ رہی ہے ۔ یہ نظم اس زمانے میں لکھی گئی تھی ، جب کراچی اپنے عروج پر تھا اور پرامن ماحول تھا ۔ مگر فیض کو اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس شہر کی روشنیوں کو نظر لگ جائے گی ۔ انہوں نے اپنی اس نظم میں فکر مندی کا اظہار کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا
’’ … شب خوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی ، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں ، اونچی رکھیں لو
اے روشنیوں کے شہر !
کراچی کے امن کو برقرار رکھنے کیلئے ان باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ کراچی کے دشمن خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ وہ ٹارگٹڈ آپریشن کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کرینگے اور سیاسی انتشار کے ذریعے قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ بھی کرینگے ۔ بہت ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ پھر کسی فیض کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’ کون کہے کس سمت ہے تری روشنیوں کی راہ … اے روشنیوں کے شہر ! ‘‘
تازہ ترین