قومی ایکشن پلان کے تحت جہاں دہشت گردوں، بھتہ خوروں،ٹارگٹ کلرز اور مختلف مافیاز کیخلاف کارروائی میں بتدریج تیزی آ رہی ہے وہیں قومی احتساب بیورو نے بھی آہنی اشیرباد کیساتھ بد عنوانی میں ملوث ان عناصر کے خلاف بھی شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے جن کی طرف بڑھتے ہوئے اسکے پر جلتے تھے۔ نیب نے سندھ میں طاقت ور شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کے بعد بلا امتیاز احتساب کی راہ ہموار کرنے کیلئے پنجاب،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا بھی رخ کر لیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے تو گزشتہ دنوں دو قدم آگے بڑھ کر رینجرز کو دعوت دے ڈالی کہ احتساب کا کام بھی وہ اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہر درد دل رکھنے والا محب وطن قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب چاہتا ہے لیکن یہ بھی تاریخ ہی ہے کہ ملک میںاحتساب کے نام پر انتقامی کارروائیاں کی گئیں،سیاست دانوں کو بدنام کیا گیا،ان کی کردار کشی کی گئی ،انہیں عدالتوں میں بھی گھسیٹا گیا لیکن بعد میں ان کیخلاف کچھ ثابت نہ ہوسکا اور وہ باعزت بری ہو گئے۔ آج کے کالم میں قارئین کو اس انتہائی اہم ادارے اور پارلیمانی نگرانی کے نظام سے متعلق کچھ حقائق سے آگاہ کرتا ہوں جس ادارے کو حکومت سے بجٹ اور مراعات لینے والے تمام اداروں کے احتساب کا اختیار رکھنے کی وجہ سے سپریم آڈٹ انسٹیٹیوشن کہا جا تا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے نام سے قائم یہی وہ ادارہ ہے جس کی طرف سے سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں میں فنڈز کے استعمال اور ان میں کی جانیوالی بے قاعدگیوں اور خرد برد سے متعلق سالانہ آڈٹ رپورٹوں کو زیادہ تر بنیاد بنا کر نیب متعلقہ عناصرکیخلاف کارروائی کرتا ہے۔انہی آڈٹ رپورٹوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جاتا ہے جن پر متعلقہ پبلک اکائونٹس کمیٹیوں میں بحث کے ذریعے ذمہ داران کو جواب دہ بنایا جاتا ہے۔اس طرح پارلیمانی نگرانی کے نظام کے تحت پارلیمنٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ محنت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ کرتا ہے لیکن کریڈٹ کبھی نیب لیتا ہے تو کبھی ایف آئی اے۔ یہاں قارئین کو سادہ زبان میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آڈٹ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ کرتا ہوں۔ نیا مالی سال شروع ہونےسے قبل آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ماتحت ڈائریکٹر جنرل انہیں متعلقہ وزارتوں،ڈویژنوں اور اداروں کا آڈٹ پلان بھجوا دیتے ہیں جسکے جائزے کے بعد اس کی منظوری دیدی جاتی ہے۔اس کے بعد ڈی جیز آڈٹ متعلقہ اداروں کے پرنسپل اکائونٹنگ افسران کو اینٹیٹی کمیونیکیشن لیٹر بھیجتے ہیں کہ اس سال انکے ادارے کا آڈٹ کیا جائے گا لہٰذا وہ متعلقہ تمام ریکارڈ اور دستاویزات تیار رکھیں۔ پھر اسی سال آڈٹ ٹیم متعلقہ ادارے میں جا کر تمام حسابات کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔اسکی روشنی میں آبزرویشن اسٹیٹمنٹ تیار کر کے متعلقہ ادارے کو دی جاتی ہے اور ان سے متعلقہ آڈٹ اعتراضات پر جواب طلب کیا جاتا ہے ،جواب سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں آڈٹ ٹیم آڈٹ اینڈ انسپکشن رپورٹ تیار کرتی ہے جسے متعلقہ ادارے کے سربراہ اور پرنسپل اکائونٹنگ افسر کو بھیج کر چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے میں دوبارہ جواب دینے کی مہلت دی جاتی ہے،اس جواب سے بھی مطمئن نہ ہونے پر ان آڈٹ پیراز کوڈرافٹ آڈٹ رپورٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔اس کے بعد آخری مہلت کے طور پر ڈپارٹمنٹل اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں متعلقہ آڈٹ پیراز کو نمٹانے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن تسلی بخش وضاحت نہ ملنے کی صورت میں ان آڈٹ پیراز کو شائع کرنے کیلئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو بھیج دیا جاتا ہے۔اب آتے ہیں اس اصل بات کی طرف جس کیلئے اتنی لمبی تمہید باندھنا پڑی۔آڈیٹر جنرل کی طرف سے ہر سال اپریل میں آڈٹ رپورٹس پر دستخط کر کے انہیں منظوری کیلئے صدر مملکت کو بھیج دیا جاتا ہے۔صدر مملکت کی توثیق کے بعد آڈٹ رپورٹس کی پرنٹنگ کر کے انہیں سالانہ بجٹ کیساتھ ہی جون میں قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعدان آڈٹ رپورٹس کو پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بحث کیلئے پیش کیا جاتا ہے جہاں بے ضابطگی اور خوردبرد ثابت ہونے پر متعلقہ حکام کی سرزنش کرنے کیساتھ ریکوری بھی ممکن بنائی جاتی ہے۔ کرپشن سے پاک اور شفافیت کی دعوے دار موجودہ حکومت کا کمال یہ ہے کہ تقریبا چار ماہ گزر جانے کے باوجود رواں سال آڈٹ رپورٹس ابھی تک قومی اسمبلی میں پیش نہیں کی گئی ہیں۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے کیوں کہ اس سال جو آڈٹ رپورٹس قومی اسمبلی میں پیش کی جانی ہیں وہ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کے پہلے مالی سال یعنی 14-2013 ءکے کچے چٹھے پر مبنی ہوں گی۔ پہلے تو یہ رپورٹس اسلئےتاخیر کا شکار ہوئیں کہ برطرف کئے گئے سابق آڈیٹر جنرل نے آڈٹ رپورٹس کے ساتھ متعلقہ اکائونٹس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ان کا موقف تھا کہ متعلقہ اکائونٹینٹ جنرلز کی تعیناتی کا اختیار ان کا تھا لیکن وزارت خزانہ نے اپنی پسند کی تعیناتیاں کی ہیں اس لئے وہ ان کے اکائونٹس کی تصدیق کی ذمہ داری نہیں لیں گے۔اسکے بعد نئے آڈیٹر جنرل کی طرف سے جنہیں بعض لوگ موجودہ حکومت کاخاص آدمی بھی کہتےہیں،متعلقہ اکائونٹس پر دستخط اور ان کی بھی صدر مملکت سے توثیق کے باوجود تاحال ان اکائونٹس پر مبنی رپورٹس کی اشاعت نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے متعلقہ آڈٹ رپورٹس تاحال وزارت پارلیمانی امور کو نہیں بھجوائی جا سکیں۔ گڈگورننس کا دعویٰ کرنیوالے صدر مملکت کی توثیق کے باوجود چار ماہ سے آڈٹ رپورٹیں کیوں دبائے بیٹھے ہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جب ایک ڈائریکٹر جنرل نے رواں مالی سال میں وزارت خزانہ اور اسکے متعلقہ اداروں کے آڈٹ کیلئے انہیں معمول کے اینٹیٹی کمیونی کیشن لیٹر بھیجے تو اوپر سے احکامات ملنے پر موجودہ آڈیٹر جنرل نے ان کی طلبی کر کے گو شمالی کی تھی کہ ایسا کرنے سے پہلے ان کی اجازت تو حاصل کر لی جاتی۔ اس صورتحال میں اپنی حکومت کے پہلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹیں جاری نہ کرنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔حکومت کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے میثاق جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرکےحقیقی معنوں میں اپنی داڑھی اپوزیشن کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ چوہدری نثار نے بھی اپنے عہدے اور ساکھ کا مکمل پاس رکھتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار دس آڈٹ رپورٹیں قومی اسمبلی میں پیش کیں اور صرف ڈھائی سال کی قلیل مدت میں انہی آڈٹ رپورٹوں کی روشنی میں 115 ارب روپے کی خطیر رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی۔ بعد میں انہوں نے اختر بلند رانا کو پیپلز پارٹی کا آدمی اوراس کے دور اقتدارکو احتساب میں رکاوٹیں ڈالنے کا ذمہ دار قرار دیکر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔آج انہی کی جماعت اپنے دور اقتدار کے پہلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹیں پبلک اکائونٹس کمیٹی تو درکنار قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے گریزاں ہے،کیا وہ اس پر بھی صدائے احتجاج بلند کریں گے۔آخرمیں نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق حکومتی امور میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اس کے پہلے رزلٹ کارڈ یعنی آڈٹ رپورٹوں کو فوری جاری کیا جائے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے انتہائی اہم عہدے کو غیر جانب دار اور خود مختار بنانے کیلئے اس پر تعیناتی بھی چیئرمین نیب اور چیف الیکشن کمیشن کی طرز پر حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے ہونی چاہئیں تاکہ قومی خزانے کولوٹنے والوں کا نام لینے میں کسی کو ہچکچاہٹ نہ ہو۔