• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’سی پیک گیم چینجر ہے، اس سے ہماری تقدیر بدل جائے گی، دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔‘‘ گزشتہ تین برس سے اس بیانیہ کا چرچا اس شدومد سے ہوا ہے کہ اب کانوں کو بھلا لگنے کی بجائے گراں گزرنے لگا ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں بین الریاستی تعاون کی اہمیت سے انکار نہیں۔ مگر جس بھونڈے طریقے سے CPECکی تان ہم نے اٹھائی ہے اور معاملات کو کنفیوز کیا ہے، اس پر چین کو بھی تشویش لاحق ہو رہی ہے۔ بے شک چین نے 46بلین ڈالر کے خرچہ کا بلیو پرنٹ دیا ہے جو پاکستان جیسے ملک کیلئے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔
بعض اسٹیک ہولڈرز کو شکایت ہے کہ منصوبہ شفافیت سے عاری ہے۔ بعض چیزوں کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے اور کہہ مکرنیوں والی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ چینی سفیر کے ساتھ ایک ملاقات کے حوالے سے پرویز خٹک صاحب نے 7اکتوبر کو KP اسمبلی کو بتایا کہ ’’جب میں نے سفیر محترم سے پوچھا کہ مغربی روٹ CPECکا حصّہ ہے، تو موصوف کا جواب نفی میں تھا۔ ہمیں تو تمام سہولتوں سے آراستہ اقتصادی راہ داری چاہئے۔ پرویز خٹک کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے متعلقہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے گلہ کیا کہ چینی سفیر کے حوالے سے موصوف کا بیان سفارتی آداب کے منافی ہے مگر یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ جو کچھ خٹک صاحب نے کہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ راقم نے معاملہ کی ٹوہ میں kpکے علاوہ دیگر صوبوں کے بعض لوگوں سے بھی تبصرہ چاہا تو انہیں اس معاملہ میں خٹک صاحب سے بھی زیادہ جذباتی اور آزردہ پایا، جنہوں نے برملا کہا کہ CPECچین اور پاکستان کے درمیان نہیں بلکہ چین اور پنجاب کے مابین ہونے والا کوئی پروجیکٹ لگتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جس تواتر اور سہولت کے ساتھ چینی راہ نمائوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو میسّر نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے جولائی 2016کے چین وزٹ کا خاص طور پر ذکر ہوا جس کے دوران 45کے لگ بھگ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔
یہ بھی کہا گیا کہ یوں لگتا ہے کہ CPECکے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے دیگر چھوٹے موٹے مسائل بھی چین کے سپرد کر دیئے ہیں۔ انڈیا نے پاکستانی دریائوں کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی تو فکرمندی کی بجائے چین سے آنے والی اس خبر پر اظہار مسرت کیا گیا کہ چین نے تبت سے نکلنے والے بھارتی دریا برہم پترا کا پانی ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین بننے والی سڑکوں اور ریلوے لائن کا خرچہ بہ شمول گوادر پورٹ محض گیارہ بلین ڈالر ہے جس میں سے ساڑھے تین بلین کراچی، پشاور ریلوے ٹریک کی اپ گریڈنگ کیلئے مختص ہے جسے فی الحال CPECکا حصّہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تا وقت یہ کہ اسے چین کے ساتھ جوڑ نہ دیا جائے فی الوقت گوادر پورٹ اور سڑکوں کی تعمیر کیلئے محض ساڑھے سات بلین ڈالر مختص ہیں اور چینی سرمایہ کاری کا بڑا حصّہ (35بلین ڈالر) توانائی کے شعبے میں خرچ ہونے جا رہا ہے۔ کل 24پروجیکٹس ہیں جن میں سے بعض پر تیزی سے کام ہو رہا ہے جس کے پیچھے سیاسی مفادات ہیں۔ 2018کے انتخابات سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر کے ن لیگ ایک بار پھر میدان مارنا چاہتی ہے ۔
تسلیم کہ چین ہمارا جانا مانا اور آزمودہ دوست ہے اور یہ بھی تسلیم کہ پاک چین دوستی سمندروں سے گہری، ہمالیہ سے بلند اور شہد سے شیریں ہے مگر ایک حقیقت دھیان میں رہنا چاہئے کہ ریاستوں کیلئے افضل ترین ان کے قومی مفادات ہوتے ہیں۔ چین کے ساتھ دوستی ضرب المثل سہی مگر اس کی بھی حدود و قیود ہیں جسے Taken for grantedنہیں لیا جا سکتا۔ جس جہت میں اور جس حد تک چاہیں تعلقات کو فروغ دیں مگر کسی بھی معاملہ میں لاپروائی نہیں ہونا چاہئے۔ دوستی کو برقرار اور توانا رکھنے کی ذمہ داری صرف چین پر نہیں آتی، پاکستان بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ جذباتی اور رکھ رکھائو والے ہیں۔ دوٹوک بات کو رواداری کے منافی خیال کرتے ہیں۔ دوست داری کا یہ رویّہ انفرادی تعلقات میں تو شاید چل جائے بین الریاستی تعلقات میں ہرگز نہیں چلتا۔ لہٰذا معاملات کھرے اور دوٹوک ہونا چاہئیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ CPECپاکستان کیلئے محض تحفہ نہیں، یہ چین کا ایک کاروباری منصوبہ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ فوائد کشید کرنا اس کا حق ہے۔ جسے حسب ضرورت ٖخواہش علاقائی ریاستوں کیلئے کھولا جا سکتا ہے۔ بھارت، ایران اور افغانستان فوری کلائنٹ ہیں اور کچھ عرصہ بعد شاید وسط ایشیا کی ریاستوں اور روس کے تجارتی قافلے بھی ادھر سے گزر رہے ہوں گے جس کے لئے پاکستان کو تیار رہنا ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں مال تجارت میں سے تو حصّہ ملنے سے رہا، راہ داری فیس ہی ملے گی۔ اس کا ریٹ کیا ہو گا؟ کیا تعین ہو گیا یا ابھی ہونا ہے؟ کیا واقعی وہ اتنا ہو گا کہ پاکستان کی تقدیر بدل سکے؟ یاد رہے راہ داری چینی سرمایہ سے بن رہی ہے جس میں قرضہ بھی شامل ہے۔ کہیں راہ داری فیس قرض کی قسطوں میں تو نہیں کٹتی رہے گی؟
یقیناً سرکار نے اس کا اور اس سے آگے کا بھی سوچا ہو گا۔ خنجر اب گوادر تک کے سب ہی روٹس پر صنعتی و اقتصادی زونز کی منصوبہ بندی بھی کی ہو گی مگر ایسی منصوبہ بندی تو ہم نے لاہور، اسلام آباد موٹر وے بناتے وقت بھی کی تھی۔ ربع صدی بیت گئی، M-2مجوزہ اقتصادی اور صنعتی زونز سے ہنوز محروم ہے۔ مقامی سرمایہ کار جی ٹی روڈ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اقتصادی راہ داری کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ مقامی سرمایہ کار کو ان دیکھی منزلوں تک لے جانا مشکل ہو گا۔ ایسے میں پاکستان کے مفاد میں ہو گا کہ CPECکے مجوزہ صنعتی؍اقتصادی زونز میں چین بہ ذات خود سرمایہ کاری کرے۔ اس کی عالمی تجارت کھربوں ڈالرز کی ہے، کچھ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ انڈسٹری ان زونز میں بھی لگا دے تو یہ نہ صرف پاکستان کی صنعتی ترقی میں ایک سنگ میل ہو گا، مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔


.
تازہ ترین