• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعادت حسن منٹو نے ’’نیا قانون‘‘ افسانہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے پس منظر میں تخلیق کیا منگو کوچوان مرکزی کردار کے طور پر تراشا جو پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود کوچوان برادری میں بہت عقلمند تصور ہوتا تھا اور اس عقلمندی کی دھاک اس وقت تو بہت ہی بیٹھ گئی جب اس نے اپنی سواریوں میں سُنا کہ اسپین میں جنگ چھڑ گئی اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ دیکھنا اسپین میں جنگ چھڑ جائیگی ایک نے سوال کیا کہ یہ اسپین کہاں ہے جواب ملا ولایت میں اور کہاں اور جب مہینے بعد کوچوانوں کو علم ہوا کہ اسپین میں جنگ چھڑ گئی ہے تو وہ سب دل ہی دل میں اسکے مزید معترف ہو گئے ۔
وہ سواریوں سے نیا قانون آنے کے حوالے سے گفتگو سنتا رہتا تھا اور اس کا یہ خیال تھا کہ ’’روس کے بادشاہ‘‘ کےاثر اور خوف کی وجہ سے انگریز یہ قانون لانے پر مجبور ہوگئے ورنہ روس کے بادشاہ کے اقتدار کو روکنا انگریزوں کیلئے ممکن نہیں رہیگا وہ انگریزوں کے رویے کی وجہ سے انکا بدترین دشمن تھا نئے قانون کے حوالے سے اس نے جو سُنا اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ نیا قانون لوگوں کی زندگیاں بدل دیگا انصاف فراہم کریگا، اسکا یہ تصور راسخ ہو گیا مگر ایک دن اسکے تانگے میں دو وکلا ء سوار ہوئے جو تکنیکی بنیادوں پر نئے قانون کی مخالفت کر رہے تھے منگو کو ان پر شدید غصہ آیا کہ یہ ایک اچھی چیز کی مخالفت کر رہے ہیں ایک دن دو طالب علم سوار ہوئے جو اس لئے حمایت کر رہے تھے کہ فلاںاسمبلی کا رکن بن جائیگا تو اس کو کسی دفتر میں سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ بہرحال منگو شدت سے نئے قانون کا انتظار کرنے لگا نیا قانون یکم اپریل سے نافذ ہونا تھا اور منگو کی تڑپ دن بدن بڑھتی جارہی تھی اور یکم اپریل کو نیا قانون نافذ ہو گیا ۔ منگو اپنا تانگہ لئے جارہا تھا کہ ایک انگریز کو تانگے کے انتظار میں کھڑا پایا ۔ منگو طنزیہ لہجے میں بولا صاحب بہادر کہاں جانا ہے منگو پہچان گیا کہ یہ وہی انگریز ہے جس نےگزشتہ برس ’’پرانے قانون‘‘ کے زمانے میں اس کی بہت بے عزتی کی تھی۔ مگر اب تو نیا قانون آگیا ہے منگو نے انگریز کےاستفسار پر کرایہ بتایا انگریز کے مطابق کرایہ زیادہ تھا ، انگریز نیچے اترا اور چھڑی کی نوک منگو کو چبھاتے ہوئے تضحیک آمیز انداز میں اسے نیچے اترنے کا کہا منگو جھٹ سے نیچے اترا اور تابڑ توڑ انداز میں انگریز کو پیٹنے لگا کہ نیا قانون آنے کے بعد یکم اپریل کو بھی اکڑ فوں اب ہمارا راج ہے بچہ اتنے میں پولیس آگئی اور منگو کو پکڑ کر تھانے لے گئی وہ چلاتا رہا نیا قانون ، نیاقانون مگر اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا کہ نیا قانون نیاقانون لگایا ہوا ہے قانون وہی پرانا ہے ، جو لوگ آج جمہوریت پر سو سو لعنتیں بھیج رہے ہیں ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تمام مسائل جمہوریت کی وجہ سے ہیں اور قوم کو منگو جیسی اُمیدیں دلارہے ہیں ، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ صاحبان جو فوج کے سابق سپہ سالار جنرل کیانی پر آج کل تنقید کے نشتر چلارہے ہیں، جنرل کیانی کے سابق ہونے سے پہلے کے زمانے کے ذرا ان صاحبان کے مضامین پڑھیں مختلف ٹی وی پروگراموں میں کئے گئے تجزیے سنئے ! آپ ایک لفظ بھی تلاش نہیں کر پائیں گے کہ جنرل کیانی کی براہ راست مخالفت میں تو کجا بلکہ ان کی طبیعت پر بھی گراں کوئی جملہ کہا ہو مگر اب حقیقت بیان کرنے کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں حال والوں کیلئے اس میں بڑا سبق موجود ہے بات یہ نہیں ہے کہ وردی والے زیادہ اچھے ہیں یا سول کپڑے والوں میں شخصی خوبیاں اور پیشہ ورانہ مہارت نہیں۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت بہتر ہے کہ آمریت کیونکہ افراد نے تو بہرحال ماضی بننا ہی ہوتا ہے آمریت بلکہ صاف بات کروں تو فوجی حکومت کوخود فوجی آمر بھی اچھا نہ کہہ سکے ۔ذرا ایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور مشرف کی اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد کی تقاریر کا مطالعہ کیجئے چاروں نے یہی دعویٰ کیا کہ وہ حقیقی جمہوریت لائینگے ، کوئی ایک بھی یہ نہ کہہ سکا کہ حکومت اب بس میں کروں گا کیونکہ فوج کا سپہ سالار ہوں ۔ ماضی کو ذرا یاد کیجئے ! قیام پاکستان کے بعد عوام سیاسی چپقلشوں سے پریشان تھے جب ایوب خان کا مارشل لاء آیا تو سمجھے نیا قانون آگیا ہے معروف شاعر ساغر صدیقی نے مصرعہ تحریر کیا کہ ! ’’کیا ہے صبر جو ہمیں ایوب ملا ‘‘ یہ مصرعہ ایوب خان کے سامنے پیش کیا گیا تو ساغر صدیقی سے ملاقات کی فرمائش کی گئی ۔
سرکاری افراد ساغر صدیقی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک سگریٹ فروش کی دکان پر جا پہنچے اور صدر ایوب کی فرمائش سے آگاہ کیا ساغر نے چلنے سے صاف انکار کر دیا زبردستی کا حکم نہیں تھا لہٰذا سرکاری افراد درخواستیں کرنے لگے اور ساغر انکار اچھا خاصا تماشہ لگ گیا آخر کار ساغر کو زمین پرپڑیں سگریٹ کی خالی ڈبیانظر آئیں اسے اٹھایا اور ایوب خان کیلئے اس پر لکھ دیا :"ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی ، یہ کھلونوں سے بہل جاتے ہیں " وہ ایوب جس کے آنے پر ساغر خوشی کا اظہار کر رہے تھے کچھ عرصے بعد ہی ان کو سلطان اور کھلونوں سے بہلنے والا قرار دے رہا تھا صدر ایوب کے خلاف ہی ہائے ہائے کے نعرے لگے، یحییٰ کے حوالے سے ہر 16دسمبر پر کیا کچھ نہیں کہا جاتا ، ضیاء خود اعتراف کرتے رہے کہ ان کے دور میں بدعنوانی بہت بڑھ گئی دیگر فساد اپنی جگہ مشرف نے تسلیم کیا کہ ان کے دور میں وفاق پاکستان کمزور ہوا آج ان کی جوحالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ میری تحریرسے یہ نتیجہ ہر گز نہیں اخذ کرلینا چاہئے کہ میں یہ گمان بھی کر رہا ہوں کہ فوج اقتدار میں آنا چاہتی ہے بلکہ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو جنرل راحیل کو حاصل موجودہ احترام کو اقتدار کی جانب پیش قدمی کی جائز وجہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ جنرل راحیل اس وقت غیر معمولی احترام قوم کی نظروں میں حاصل کر چکے ہیں ۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں آئین کے تابع فرماں رہ کر کر رہے ہیں وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس گزشتہ برس دھرنے کے دوران اقتدار پر قبضہ کرنے کا کھلا موقع تھا مگر وہ آئین کے پابند رہے ذرا سوچیئے کہ اگر وہ اقتدارپر قبضہ کر لیتے تو پہاڑ جیسے مسائل ان کا استقبال کرتے جو توانائی کے بحران سے لے کر ریاست کے تمام اداروں کی کارکردگی تک ہے یہ بات بالکل صاف ہے کہ انتہا پسندی سے لڑنے کیلئے سیاسی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف سیاستدان ہی کے پاس ہو سکتی ہے اگر ضرب عضب کو صرف فوجی فتح کے حوالے سے دیکھا گیا تو یہ جنگ ابھی ادھوری ہے اور بدقسمتی سے ادھوری ہی رہ جائے گی اگر سیاسی قیادت کے تحت نہ لڑی گئی ۔ منگو کے خیالات نیا قانون کے حوالے سے صرف ایک واقعہ سے چکنا چور ہو جائینگے ۔
تازہ ترین