• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں ۔ Early Voting کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،8 نومبر کو فائنل راونڈ ہونے جارہا ہے، امریکی ایسی قوم ہیں جن کوNation of the Nations کہا جاتا ہے، یعنی اقوام کی قوم..... دنیا کا کوئی مذہب، رنگ و نسل اور علاقہ ایسا نہیں جہاں کے ماننے یا رہنے والے امریکہ میں رہتے ہیں، ماہرین معاشرتی و سماجی علوم اس کو Unity in Diversity یہ سلوگن دنیا کے کسی بھی ملک میں بظاہر خوبصورت اور آئیڈیل معاشرے کی عکاسی تو کرتاہے تاہم عملی طور پر یہ مشکل ترین کام تصور کیا جاتا ہے۔
1776 میں آزادی کے بعد محض13برس بعد 1789میں انتخابی عمل کے ذریعے جمہوری راہ پر گامزن ہونے والے امریکہ میں جمہوریت کو مذہب کا درجہ حاصل ہے، اس کی سب سے بڑی مثال امریکی اسکول سسٹم ہے جہاں جمہوریت کی بنیادی اکائی (بیلٹ باکس) سے روشناس کرانے کے لئے طلبہ کی دو جماعتیں بناکر انہیں پولنگ بوتھ جاکر ووٹنگ کے پراسیس سے گزارا جاتاہے تاکہ جمہوریت اور جمہور کے درمیان ربط اور انتخابی عمل جیسا اہم اور لازمی جزو ان کی زندگی کا حصہ بن جائے ،روس کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی واحد سپرپاور قرار دئیے جانے والے امریکہ کے بارے میں عالمی امور کے آزاد تجزیہ نگار خیال کرتے ہیں کہ اس دعوے کی بنیادی وجہ وسائل کی برابری کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ تعلیم، صحت اور سوشل جسٹس سسٹم کا ترجیحی بنیادوں پر رائج ہونا ہے وہیں امریکی جمہوریت کا گراس روٹ تک ہی نہیں گھاس کی جڑوں تک حقیقی طور پر سرائیت ہوکر مضبوط ہونا ہے۔
قارئین، دنیا میں جو مقولے مشہور ترین ہیں ان میں ایک فقرہ امریکہ کی تاریخ کی کتابوں میں بالخصوص ان کےدیباچوں کےطور پر لکھا جاتا ہے، ان میں ایک فقرہ مصنف جون سمتھ کا بھی ہے کہتےہیں،
"Earth and Heaven have never agreed better for the habitation of man than United State of America."
ایک مرتبہ پھر امریکہ میں جاری انتخابی و جمہوری عمل کی طرف آتے ہیں، یہ انتخابات کئی حوالوں سے انفرادیت کا حامل ہے، پہلی بار ہو رہا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے سرکردہ لیڈرز، سابق صدور اور کئی اعلیٰ عہدیدار اپنے ہی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے کترا رہے ہیں، بلکہ بعض کا خیال ہے کہ امریکی جمہوریت کےلئے کیا ہی بہتر ہو کہ ٹرمپ انتخابات نہ جیتیں۔ دوسری طرف امریکی عوام ہے اور ان شہریوں کی بڑی تعداد جو مختلف ممالک سے یہاں آکر آباد ہوچکے ہیں، ان میں90 فی صد سے زائد ایسے ہیں جو کئی برس ہی نہیں صدیوں پہلے خود یا ان کے آبائو اجداد یہاں آکر سکونت پذیر ہوئے، ان میں ایک بڑی تعداد بھارتی اور پاکستانی افراد کی بھی ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ کے بھارت کے حق میں بیان سے بھارتیوں کا جھکائو ٹرمپ کی طرف نظر آرہا ہے اور لامحالہ طور پر پاکستانیوں سمیت زیادہ تر مسلم اکثریتی کمیونٹی والے علاقے بہت واضح طور پر ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں موجودہ امریکی انتخابات کو بین الاقوامی انتخاب کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
قارئین کرام، امریکی اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی نصف سے زائد (51فی صد) آبادی خواتین پر مشتمل ہے، حال ہی میں ٹرمپ کے ’’کارناموں‘‘ کے درجن بھر انکشافات کے بعد خواتین ووٹرز کا جھکائو بھی ہیلری کی طرف ہوسکتا ہے، یہ امر بھی قابل غور ہے کہ1920میں خواتین کو ووٹ کا حق دینے والے ملک میں خواتین کو کبھی بھی صدارت کے امیدوار کے طور پر نامزد کرکے منتخب نہیں کرایا گیا۔ اس مرتبہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون امیدوار کے سامنے آنے اور ان کی فتح کی قیاس آرائیاں نہیں بلکہ 80فی صد کامیابی کی پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں ساتھ ہی عالمی سطح پر امریکی تاثر کو بہتر بنانے میں مدد ملنے کی باتیں کی جارہی ہیں، یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہیلری اگر جیت گئیں تو وہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر اوباما کو ری پلیس کریں گی، اب سیاہ فام کا ووٹ کس کا پلڑا بھاری کرتاہے یہ بھی ایک سوال ہے.....! جبکہ یہ بھی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ ایک مرتبہ پھر اقتدار سیاہ فام سےسفید فام کو منتقل ہونے جارہا ہے لیکن شاید امریکیوں میں یہ کسک باقی رہے گی کہ اب امریکہ میں سیاہ فام خاتون کو کب صدارتی امیدوار نامزد کیا جاتا ہے اور مسندِ اقتدار پر براجمان بھی ہوگی؟
قارئینٖ! امریکی انتخابی عمل سے متعلق بغور مشاہدے کے دوران مجھے پاکستانی سیاست و جمہوری انداز کی جھلک اس وقت نظر آئی جب ایک موقع پر مشعل اوباما نے ٹرمپ کے پے درپے اسکینڈلز اور بالخصوص ان کی اپنی اہلیہ کی تنقید پر بیان داغتے ہوئے کہا کہ’’یہ صاحب اپنا گھر تو سنبھال نہیں سکتے یہ امریکہ کو بطور صدر کیا چلائیں گے‘‘ پاکستان کے معروضی سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پاکستان میں ایک اہم اور کچھ ملتے جلتے مزاج کی شخصیت موجود ہے جن کے بارے میں یہ فقرہ سیاسی تنقید کے طور پر داغا جاتا ہے۔
پاکستانیوں کے ذہن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ کا صدر کے طور پر منتخب ہونے کے بعد ہیلری کی بین الاقوامی یا خاص طور پر پاکستان یا مسلمانوں کے حوالےسے پالیسی میں کچھ تبدیلی آئے گی تو شاید اس کا جواب نفی میں ملے؟ سچ ہےکہ امریکہ میں صدر خواہ کسی بھی جماعت کا ہو امریکہ کی خارجہ پالیسی مخصوص انداز اور حکمت عملی کے تحت مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رہتی ہے، اب ذرا اپنے گھر کی جمہوریت پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جہاں ایک صوبےمیں8 برس اور وفاق میں3 برس سے حکمرانی کرنے والی جماعت کے ’’شفاف اور غیرجانبدار جمہوری عمل‘‘ کے نتیجے میں منتخب ہونے والے صدر وزیراعظم عوام کے سامنے اپنی ’’بے بسی‘‘ کا رونا روتےہیں،ایک ایسا ملک جہاں کےمنتخب نمائندے امیر سے امیر تر اور ووٹرز غریب سے غریب تر ہیں، رونا تو عوام کو چاہئے جہاں حکمران اور اپوزیشن پروٹوکول کی طویل قطاروں میں عوام سے محض مخاطب ہوتے ہیں لیکن سب کچھ ’’ہاتھ‘‘ میں ہونےکے باوجود انہیں مسائل سے آزاد نہیں کرتے، یہ کیسا جمہوری دور ہے جس میں جمہور ’’مسنگ‘‘ ہیں، ان کی کہیں شنوائی ہے اور نہ کہیں رسائی ،بس جگ ہنسائی ہےکہ اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کردہ نمائندوں کو چھو نہیں سکتے محض محسوس کرسکتے ہیں، معصوم ووٹر سوچتا ہےکہ ’’حق حلال‘‘ سے بنائے جانے والے اربوں ڈالرز کے اثاثوں میں شاید اس کا بھی چند روپے حصہ نکل آئے جس سے وہ دو وقت نہیں تو ایک وقت کا کھانا اپنے بچوں کو کھلانے کے قابل ہوسکے، اپوزیشن کا ’’قابل تحسین‘‘کردار بھی کسی ڈھکا چھپا نہیں، ایک صاحب ہیں جو تواتر سے اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی مہم جوئی میں مصروف ہیں، نیا پاکستان کی دھن میں عوام کا رہاسہا پاکستان تباہ کرنے پر ’’اوکھے سوکھے‘‘ گز ارنے والوں پر زندگی تنگ کرنے پر بضد ہیں، خدارا آنکھیں کھول کر دیکھیں ہمسایہ دشمن اور دہشت گرد ایک صفحے پر آچکے ہیں، اگر حکمران اور اپوزیشن، جمہور کے ساتھ جمہوریت کے نام پر اسی سلوک پر مصر رہے جلد یا بدیر ہوش کے ناخن نہ لئے تو کہیں بیلٹ باکس کا تقدس ہی پامال نہ ہوجائے اور جمہور کا جمہوریت پر یقین و ایمان ہی جاتا رہے کوئی شک نہیں کہ ہم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے جمہوری اقدار میں تو مقابلہ نہیں کرسکتے کم ازکم جمہوری انداز کی عقل کرتے ہوئے نقل کرکے عمل ہی کرلیں۔




.
تازہ ترین