• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے تمام صوبوں کے گورنر ’’ڈمی اور بے اختیار ہیں‘‘ حالانکہ گورنرشپ اور پاکستان کے صدر کا عہدہ آئینی ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور کی گورنرشپ سے استعفیٰ دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھا گیا اور یہ بات بھی کہی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام صوبوں اور اداروں کے اختیارات موجودہ حکومت یعنی میاں برادران نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں، چوہدری سرور کے پاس کسی پولیس کانسٹیبل کو تبدیل کرانے یا اُسے پولیس لائن سے تھانے میں تعینات کرانے تک کے اختیارات نہیں تھے۔ہر صوبے کا گورنر وہاں کی یونیورسٹیز کا چانسلر ہوتا ہے لیکن وہ وائس چانسلر سے بھی کم اختیارات کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔ایک بار کسی نجی محفل میں ازراہ مزاح سابق گورنر چوہدری سرور نے ایک واقعہ سنایا،انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد سے میرا ایک عزیز کام کے سلسلہ میںآیا، میں نے اس کام کے لئے متعلقہ افسر کو فون کیا اور کہا کہ یہ میرا عزیز ہے لیکن وہ کام نہ ہو سکا، کچھ دنوں بعد میرا عزیز مجھے دوبارہ ملا میں نے اُسے کہا کہ معذرت خواہ ہوں تمہارا کام نہ ہو سکا،میرا عزیز تمسخرانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے بولا۔ کوئی بات نہیں گورنر صاحب میں نے وہ کام ’’ ایک خاص سسٹم‘‘ کے تحت کرا لیا تھا، آپ نے میری سفارش کی تھی میں توا ُس کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں، چوہدری سرور نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنے عزیز کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ایسے بہت سے واقعات اور افواہیں صوبہ پنجاب کی فضاؤں میں گردش کر رہی ہیں،ہم نے فیصلہ کیا کہ ان باتوں یا افواہوں کی صداقت کا پتہ لگانے کے لئے گورنر پنجاب سے ملاقات کی جائے۔ہم نے گورنر پنجاب ملک محمد رفیق احمد رجوانہ کے حضور ملاقات کی عرضی ارسال کی دو دن بعدہمیں دوپہر 2بجے گورنر ہاؤس لاہورسے ملاقات کا’’ بلاوا‘‘ آگیا۔ہم اپنے دوست محمد لقمان اور ذیشان قریشی کے ساتھ مقررہ وقت پر گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔گورنر پنجاب پہلے سے ایک میٹنگ میں مصروف تھے اس لئے ہمیں انتظارگاہ میں بیٹھنا پڑا۔گورنر پنجاب وقت کے پابند ہیں یہ ہم جانتے تھے اس لئے ہمیں دیر سے ملنے کی وجہ یقیناً وہ لوگ بنے ہوں گے جو ہم سے پہلے میٹنگ میں تھے۔کچھ ہی دیر بعدہماری باری بھی آگئی ہم سرکاری فوٹو گرافر اور ویڈیو کیمرہ مین کے ساتھ گورنر پنجاب کے کمرے میں داخل ہوئے تو دروازے پر گورنر پنجاب خود موجود تھے۔سلام دُعا کے بعد نشستوں پر براجمان ہوتے ہی گورنر پنجاب نے ہم سے ملاقات میں تاخیر پر معذرت کی اور بتایا کہ ہم سے پہلے جو لوگ بیٹھے تھے انہوں نے میٹنگ لمبی کر دی۔گورنر پنجاب کے منہ سے یہ بات سن کر ہمیں اپنے اندازے پرفخر ہوا اور ہم نے بڑے فاتحانہ انداز سے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا کہ جیسے ان کو بتانا چاہ رہے ہوں کہ ’’ ہم نہ کہتے تھے گورنر صاحب وقت کے بہت پابند ہیں‘‘ باتوں باتوں میں ہم اپنے مدُعا کی طرف آئے اور گورنر پنجاب سے پوچھ ہی لیا، جناب عالی یہ جو کہا جاتا ہے کہ گورنر پنجاب ڈمی ہیں ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور چوہدری سرور نے استعفیٰ اسی وجہ سے دیا کہ وہ بے اختیار تھے ؟ ہمارے سوالوں کی بوچھارختم ہوئی تو گورنر پنجاب اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بولے کہ ایسا قطعاً نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ جب بس کے سفر کے دوران ٹکٹ خریدا جائے تو اس کے پیچھے بھی سفر کے قواعد و ضوابط لکھے ہوتے ہیں وہ پڑھ کر آپ ٹکٹ خریدتے ہیں،اسی طرح جب گورنر شپ ملتی ہے تو کچھ قواعد و ضوابط پڑھ کر ہی گورنر بنا جاتا ہے اب ان قواعد و ضوابط میں جو لکھا ہو اُسے ماننا ہوتا ہے، کوئی یہ کہے کہ میں بے اختیار ہوں یا مجھے اختیارات نہیں دئیے گئے یہ تو بعد میں ’’ رولا‘‘ ڈالنے والی بات ہے۔سابق گورنر نے شاید وہ قواعد و ضوابط نہیں پڑھے تھے اسی لئے ان کو شکایت ہو سکتی ہے۔گورنر پنجاب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں قانون کا طالب علم ہوں، سیشن جج رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ قانون کیا ہے،انہوں نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہ گورنر کسی پولیس کانسٹیبل کو تبدیل یا تعینات نہیں کرا سکتا، بلکہ گورنر کو اپنا رُتبہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے عہدے کے مطابق پولیس کانسٹیبل کے تبادلے یا تقرری کی بات کرتا اچھا لگے گا۔دوسری بات ہے قاعدے اور قانون کی یعنی جب مجھے کوئی یہ کہے کہ ہمیں فلاں ضلع کے ڈی پی او سے کام ہے تو مجھے چاہئے کہ میں وزیر اعلیٰ آفس میں اُس افسر سے رابطہ کروںجو پنجاب پولیس کے معاملات دیکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب تعلیمی میدان، امن و امان اور عوام الناس کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے میرے ساتھ مشورہ کرتے ہیں اور میں کئی معاملات میںان سے مشورہ لیتا ہوں مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے پاس یا صوبہ پنجاب کے گورنر کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔گورنر پنجاب نے کہا کہ پہلے بہت سے کام سفارش سے ہو جایا کرتے تھے لیکن اب وہی کام قاعدے اور قانون سے ہوتے ہیں۔گورنر پنجاب نے بتایا کہ ہم نے ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعلیم کے فروغ کے لئے بہت کام کیا ہے جو اس سے پہلے پاکستان میںنہیں ہوا۔ہمیں اپنے مخصوص سوالوں کے جوابات تفصیل سے مل گئے تھے،گورنر پنجاب جوابات ٹھیک دے رہے تھے یا غلط یہ تو اُوپر والا ہی جانتا ہے لیکن ہم بہر حال مطمئن ہو گئے اب ہمیں سمجھ آگئی تھی کہ گورنر پنجاب بے اختیار نہیں ہیں بلکہ اختیارات کا استعمال قاعدے اور قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔ہم نے گورنر پنجاب کو یورپی ممالک میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں سے شناختی کارڈ کی فیس 110یوروکو کم کرانے کی اپیل کی تو انہوں نے کہا کہ میں وفاقی وزیر داخلہ سے اس معاملے پر بات ضرور کرونگا اور امید ہے کہ وہ فیس کم کریں گے۔ہم گورنر پنجاب سے اجازت لے کر گورنر ہاوس سے باہر آگئےاوربارسلونا جانے کیلئےلاہور ائیر پورٹ روانہ ہوگئے۔





.
تازہ ترین