• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض احمد فیض نے پطرس بخاری کے انتقال پر ایک تقریر میں کہا تھا ’’دوستی باہمی محنت و ریاضت اور مشقّت کا ثمر ہوتی ہے، دوستی کے لئے ایثار، بار بار اظہار اور تکرار و تجدید کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ کام محنت کا ہے اور اس میں وقت صرف ہوتا ہے، عمل کے بغیر یہ ممکن نہیں، عمل کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔‘‘
ہم زندگی میں لاکھوں، کروڑوں چہرے دیکھتے ہیں، قریب سے، دور سے کسی کو محسوس کرتے ہیں، کوئی یوں ہی ایک جھلک دکھا کے گزر جاتا ہے، کوئی ہم کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے، کسی کو ہم اس حد تک متّاثر کرتے ہیں کہ اسکی راتیں، اسکے دن اپنے نہیں رہتے۔ چہرے ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، چہرے جو سپاٹ ہوتے ہیں، جن میں ایک تپاک ہوتا ہے، ایک حال، ایک کیفیت، ایک جذب، ایک گریز رقم ہوتا ہے، جسے پہچاننے والی نظریں پہچان لیتی ہیں، محسوس کرنیوالے محسوس کر لیتے ہیں اور یہیں سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ دوستی اور ربط کس شدّت، کس درجے پر قائم ہے۔ آخر ہمارے اس جنوبی ایشیائی خطے کےساتھ کیا خرابی ہے کہ یہاں الفاظ، چہرہ کیوں نہیں بن پاتے؟ چہرہ جو ہونے کا ثبوت ہے، جس میں ایک فرد، ایک قوم چھپی ہوتی ہے۔ اسکے احساسات، اسکے جذبات، یہ احساسات اور جذبات آخر دوستی کی طرف کیوں ہاتھ نہیں بڑھاتے؟ ہمسائے جو کہ اس دوستی کے بہترین حق دار ہیں وہاں بھی دشمنی اپنا رنگ کیوں جمائے ہوئے ہے؟ اور کیا برصغیر میں امن کا خواب، شانتی کا رنگ ہم کبھی نہ دیکھ سکیں گے؟ کیا یہ خوشبو ایک خواب بن کر رہ جائیگی؟ کیا لفظ ’’تپاک‘‘ جو دوستی کی بنیاد ہے، اب سراب کے معنوں میں استعمال ہوا کرے گا؟ آخر خرابی ہے کہاں؟ یہ پسماندگی، یہ زبوں حالی اور یہ جنگ و جدل کیوں ہے؟ کیا اس خطے میں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟ یہاں کی زمینیں بانجھ ہیں؟ کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نامہربان ہیں؟ گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں، کیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رات ٹھہر گئی ہے؟ آدھی صدی سے زائد بیت گئی، ہم نے بہت کچھ سنا اور دیکھا لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے؟ وہ ہے دشمنی، جنگیں، اسلحہ، میزائل، ایٹم بم، استحصال، ناداری، افلاس، جرائم، جہالت، انتشار، تعصبات، توہمات، مذہبی جنونیت، دہشت گردی، رشوت، چوری، ڈاکے اور قتل و غارت، چند آدمیوں کی ترقی، چند شہروں کی رونق، عمارات کی بلندی، سڑکوں کا پھیلائو، زرمبادلہ کی کثرت کیساتھ غربت میں بھی اضافہ، عام آدمی جہاں پہلے تھا وہاں سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے اور یوں پاک سر زمین شادباد وہاں سے بھی پیچھے ہٹ رہی ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا، دور تک کوئی امید بھی نہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں گی، انتشار اور بڑھے گا، سڑکیں اور کشادہ، شہر اور پر رونق اور نئی طرز تعمیر کی عمارات، نئے ایئرپورٹ اور نئے پلازے اور بڑھ جائیں گے، ساتھ ہی جھونپڑیاں، تاریکیاں، لوٹ کھسوٹ، جرائم، بھوک اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جائیگا اور پھر اس پر سماجی اور معاشی تجزیہ نگار ان مصائب کے سلسلے میں بہت سی سائنسی اور فنی وجوہ پیش کر دینگے، وہ کہیں گے کہ یہ عبوری دور ہے، انتقال اقتدار کا مرحلہ ہے، پرانی زندگی اور نئی زندگی کی سماجیاتی کشمکش کا معاملہ ہے، یہ دور ہمارے ہاں کے سماجی اداروں کے تضاد کا دور ہے، یہ ثقافتی خلا کی بات ہے۔ وہ کہیں گے کہ صنعتی انقلاب کے بعد انگلستان میں بھی یہی ہوا تھا، ترقی پذیر ممالک ان مراحل سے گزرتے رہتے ہیں مگر ایک نئی زندگی ان پیچیدگیوں اور ناہمواریوں کے بیچ طلوع ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ مجھے تو یہاں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خطے میں توہمات، تعصبات اور مذہبی جنون انتہا پسندوںکا راج ہو وہاں خردافروزی کے چراغ جل پائیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں عقل پروری، انسانی فکر، عقل دوستی اور سائنسی نقطۂ نظر رکھنے والے افراد آٹے میں نمک کے برابر نہیں؟ کیا عہد تاریک کے محافظین کے مقابل ڈٹ جانیوالے افراد آپ کو یہاں کہیں نظر آتے ہیں؟ کیا اس خطے میں افہام و تفہیم، سیکولرازم، خیرسگالی، عدم تشدد، بھائی چارہ، رواداری، جیو اور جینے دو، مکالمہ اور خوشحالی نام کی کوئی شے باقی ہے؟ اور کیا یہاں امن پسندی کو دن دیہاڑے قتل نہیں کر دیا گیا؟ اس تناظر میں جب ہم اپنے ملک میں عقل دوستی، سیکولرازم اور سائنسی نقطۂ نظر کو اختیار کرنے کے رویّوں کی تلاش کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری تہذیب آج تک خردافروزی کے اس مرحلے پر نہیں پہنچی جہاں سے عقل پروری نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، آج بھی عقلی رویّوں کا روزمرّہ زندگی میں عمل دخل آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ان حالات میں ترقی پسندی، روشن خیالی اور عقل دوستی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کے لوگ آپس میںحالت جنگ میں رہنے کے بجائے ناداری، افلاس، جہالت، جرائم، استحصال اور مذہبی جنونیت کیخلاف جنگ شروع کریں کہ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ترقی پسندی، روشن خیالی اور عقل دوستی کی اہمیت مزیدبڑھ جاتی ہے۔ ماضی کے احساس کے بغیر کسی حال کی تعمیر نہیں ہو سکتی اور مستقبل کے عناصر کی شمولیت کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہو سکتی مگر کون سا اور کیسا ماضی؟ اس کی طرف سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم جہاں بھی ہوں، جن حالات میں بھی گھرے ہوں خردافروزی کے فروغ کیلئے سخنے درمے قدمے جو کچھ بھی ہم سے بن پڑے اسے کرنا چاہئے کہ باوقار شناخت کا اپنا ایک جغرافیہ ہوتا ہے اور یہ بات طے ہے کہ تعقّل اور تفکر میں ہی ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی نجات ہے۔
یا تو میرے مزاج میں رچ بس گئے ہیں غم...
یا دل کو احتجاج کی عادت نہیں رہی
تازہ ترین