• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستمبر کا مہینہ بظاہر ایک عام مہینہ معلوم ہوتا ہے، مگر مالیاتی اور ٹیکسوں کے ذیل میں اس کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے چونکہ گزشتہ مالی سال کے حسابات کیلئے اختتامی اعداد سال رواںکی پہلی سہ ماہی میں حاصل کئے جاتے ہیں اور آئندہ یا رواں سال کے متوقع ریونیو، ٹیکسوں کے حجم اور مجموعی آمدنی کا اندازہ ہوتا ہے اسلئے وزیر خزانہ نے ایف بی آر کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ پہلی سہ ماہی کا ہدف حاصل کرنیکی پوری کوشش کریں۔ ٹیکسوں کے متعلق ایک اور ابہام یہ ہے کہ بجٹ کی تقریر میں کہا گیا تھا کہ قومی شناختی کارڈ کا نمبر ہی قومی ٹیکس کا نمبر سمجھا جائے گا، لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پہلے ایف بی آر میں رجسٹر کرانا ہو گا۔ ایک اورمسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد شاہانہ زندگی گزار رہی ہے مگر وہ ایک پیسے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، ایسے افراد کی پہلی فہرست میںیہ تعداد 7لاکھ تھی، لیکن ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین نے اس تعداد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ان کی فہرست میں صرف43ہزار خاندان ہیں۔ چلئے ان کا نمبر ہی درست ہے مگر بات تو جب ہے کہ ان سے ان کے اثاثوں کے مطابق ٹیکس وصول کر لیا جائے۔
ایف بی آر نے ہدایت کی تھی کہ بنیادی اسکیل 16سے22تک کے تمام افسر جون 2015کے بعد منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں کے ڈیکلریشن جمع کرائیں اور ان کی تصدیق شدہ نقول ایف بی آر کو فراہم کریں اور جن افراد نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا ان کے پرفارمنس الائونس روک لئے جائیں۔ اس کی آخری تاریخ30ستمبر تک تھی۔ اب عید کے بعد 17اور اس سے اوپر کے اسکیل والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اور اس تاثر کی نفی کی جائے گی کہ ایف بی آر اپنے اعلیٰ افسروں کے خلاف کارروائی سے گریز کرتا ہے۔ واضح ہو کہ ایف بی آر کے مطابق اب وطن عزیز نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔اب اونچ نیچ کا کوئی سوال نہیں ہو گا۔ کاش اس اصول کو صرف گفتار تک محدود نہ کیا جائےبلکہ صدق دل سے عمل کیا جائے۔تاجروں کا اپنے بنک کے اثاثوں پر 0.06کی شرح سے ٹیکس پر اعتراض ہے، وزارت خزانہ نے ان تاجروں کیلئے 0.03فی صد کی رعایت کی تھی جو 30ستمبر تک اپنے گوشوارے جمع کرا دیں۔ تاجروں کو یہ شرح منظور نہیں اور وہ اس ٹیکس کو سرے سے ختم کرانے کے منتظر ہیں ۔وزارت خزانہ فی الحال یہ ٹیکس واپس لینے کے لئے تیار نہیں۔ تاجروں نے دھمکی دی ہے کہ وہ بنکوں سے اپنے اثاثے نکال لیں گے اور یوں بنک دیوالیہ ہو جائیں گے۔ مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اثاثے کہاں رکھیں گے؟ جبکہ بنک ہی ان کے اثاثوں کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہیں۔دوسرا بڑا مسئلہ دودھ والوں کا ہے ان کو کمشنر کے مقرر کردہ نرخ منظور نہیں۔ ان کا بہت سا آمیزش شدہ دودھ ضائع کیا گیا اور ان انجکشنوں پر پابندی لگا دی گئی ہے جو مزید دودھ حاصل کرنے کے لئے مویشیوں کو لگائے جاتے تھے۔ حالانکہ وقتی فائدے کی خاطر مویشی جلد کمزور اور گائے یا مادہ بانجھ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ڈیری فارمرز کا مطالبہ ہے کہ ان کو اپنے نرخوں پر دودھ ،دہی فروخت کرنے اور انجکشن لگانے کی اجازت دی جائے ورنہ وہ دودھ فروشی سے کنارہ کشی کریں گے (جس پر عمل بہت مشکل ہے)
جہاں تک اثاثوں کے گوشواروں کا تعلق ہے ہر صاحب ان سے گریز کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ انتخابی کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے کی ہدایت کی۔ حالانکہ ضابطے کے لحاظ سے ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنے ،زوج یا زوجہ ،زیر کفالت اولاد ملازمین کے گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے۔30ستمبر جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تعداد1174ہے، کمیشن کو صرف 207ارکان کے گوشوارے وصول ہوئے۔ قومی اسمبلی کے 62(ان میں وزیر اعظم اور بیشتر وزرا اور مشیر شامل ہیں) پنجاب اسمبلی کے 61،سندھ اسمبلی کے 33بلوچستان کے 11،خیبرپختون خوا کے 10ارکان شامل ہیں۔ یہ نادہندگان 30ستمبر کے بعد قانون سازی میں حصہ نہ لے سکیں گے۔ (کیا انتخابی کمیشن اس پر سختی سے عمل کرے گا ؟)
حکومت کی ایک پالیسی خود اس کے اپنے لئے اور ملک کی کم آمدنی والے کمزور طبقوں کے لئے خسارے کا باعث ہو گی۔ وہ نیشنل سیونگز اسکیموں کی شرحوں میں حالیہ مہینوں میں دو بار تخفیف ہے۔ نئی شرحیں یکم جولائی2015سے نافذ ہوئی ہیں۔ ان کے منافعوں کا تعلق اسٹیٹ بنک کی مالیاتی شرح سود سے منسلک ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بنک نے حال ہی میں اپنی شرح سود 0.05فی صد کم کر کے 6فیصد سالانہ کر دی۔ اس طرح 31دسمبر 2014میں منافع کی جو شرحیں تھیں ان میں کافی کمی آ گئی۔ مختلف اسکیموں کی موجودہ سالانہ شرحیں حسب ذیل ہیں۔ مقابلے کے لئے31دسمبر والی شرحیں قوسین میں دی گئی ہیں۔بہبود سیونگز سرٹیفکیٹ/پنشنرز بینیفٹ سرٹیفکیٹ 1104.فی صد سالانہ 14.04فی صد) ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹ 9.15فیصد (12.73فیصد) اسپیشل سیونگز سرٹیفکیٹ 8.5فیصد (12.3فیصد) سیونگز سرٹیفکیٹ 7.83(11.90) سیونگز اکائونٹ 4.75(16.20) پرائز بانڈز پر پہلا انعام 7.5کروڑ ،سینٹرل ڈائریکٹر یٹ آف نیشنل سیونگز نے خوش خبری یہ سنائی کہ اب بہبود اور پنشنرز ،فنڈوں میں سرمایہ کاری تیس لاکھ سے بڑھا کر چالیس لاکھ کر دی گئی ہے ۔عام حالات میں ان دونوں فنڈوں میں دس لاکھ کا اضافہ خاصا مشکل ہو گا۔ ان اسکیموں میں جو رقم جمع ہوتی ہے وہ حکومت اپنے اخراجات کیلئے استعمال کرتی ہے گزشتہ سال بیلنس 336ارب تھا۔ جولائی اور اگست میں45ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی کیا یہ شرح برقرار رہے گی ؟ لوگ اپنے اثاثے کم شرحوں پر طویل مدت کے لئے جمع کرنے سے گریز کرینگے، سرمائے کا رخ سونے کی خریداری یا غیر منقولہ جائیداد کی جانب مڑ سکتا ہے اور یوں حکومت کو کم رقم حاصل ہوگی، اور بھی چند مسائل تھےجو طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیئے ، یا فیصلہ آپ کا کہ مہینے کا نام کیا ہے ،پچھلے کالم میں اردو کی مثنوی کا نام’’ کرم رائو پدم رائو ‘‘ ہے۔
تازہ ترین