• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے میدان عرفات میں خطبۂ حج ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان فتنہ فساد پھیلانے والوں سے دور رہیں، میڈیا صرف حق کی آواز عوام تک پہنچائے نوجوان فتنہ پھیلانے والے گروہوں کے ہاتھوں میں کھلونا نہ بنیں حکمران اپنی رعایا کا خیال رکھیں تاکہ رعایا گمراہ نہ ہو۔ داعش اور یمن میں گمراہ گروہ امہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ گمراہ لوگوں نے دہشت گردی کی اور مساجد کو بھی نہ چھوڑا دہشت، تشدد اور فساد پھیلانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اسکی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں حالانکہ ہمارا مذہب کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں دیتا حضرت محمد ﷺ نے ہر بے انصافی کو حرام قرار دیا ہے۔ انتہاء پسندی کا پرچار کرنے والے گروہ عالم اسلام کو دور جاہلیت میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان شیخ عبدالعزیز کے خطبات حج گزشتہ پینتیس برس سے سنتے چلے آ رہے ہیں اور ہم نے بارہا اپنے پچھلے کئی کالموں میں یہ لکھا کہ خطبہ حج سے رہنمائی حاصل کر کے ہم اپنی صفوں میں موجود کوتاہیوں کی درستی کر سکتے ہیں۔ خطبہ حج کی اہمیت سے کوئی مسلمان بھی انکار نہیں کر سکتا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں پیغمبر اسلام ﷺ کے آخری خطبہ حج کے الفاظ ہمہ وقت گونجتے رہتے ہیں کہ آج کے دن کو اور عرفات کے مقام کو خدا کے حضور جو تقدس حاصل ہے معصوم انسانی جانوں کو بھی وہی تقدس و حرمت حاصل ہے نیز یہ کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہ ہو گی سوائے تقویٰ یعنی نیکی و خدا ترسی کے اسی طرح آنحضرت ﷺ نے سوسائٹی کے کمزور طبقات کے حقوق کا تصور اجاگر کرتے ہوئے خواتین اور غلاموں کے حقوق کی نسبت سے خصوصی توجہ مبذول کروائی تھی اسلام میں خطبہ حجۃ الوداع کی جو حیثیت ہے اس سے کوئی مسلمان بے خبر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مابعد صدیوں کے سفر میں پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے خطبہ حج جاری و ساری ہے۔ اس بار مفتی اعظم نے مسلمانوں کے اپنے اندر موجود جس سب سے بڑی برائی کو اپنے خطبے میں کلیدی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اصل بیماری کی درست تشخیص ہے۔ انہوں نے داعش جیسے بڑے دہشت گرد گروہوں کا نام لیا ہے۔ ہم مسلمانوں میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے بعد دوسری جو بہت بڑی برائی موجود ہے وہ فرقہ پرستی ہے آج ہم بحیثیت امہ موجود نہیں ہیں بلکہ مختلففرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی طرح فقہی طور پر بھی ہم نے خود کو بیشمار گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ان بدترین حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فرقہ پرستانہ خلفشار سے اوپر اٹھ کر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے کی ترجمانی کرتے دکھائی دیں۔ ’’پاکستان جیسے مسلمان ملک میں تو فرقہ واریت کے لحاظ سے اس نوع کی منافرتیں نہیں ہیں یہاں مختلف مکاتب ِفکربھائیوں کی طرح پیار محبت کے ساتھ بس رہے ہیں۔ خدا کرے کہ خلیج میں بھی یہ منافرت دم توڑ دے اور مسلمان جسد واحد کی طرح متحد ہو کر اقوام عالم کے سامنے سیرت و کردار کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔ ہمارے اصل دشمن غربت، جہالت اور بیماری ہیں ،نا انصافی اور بے ایمانی ہیں ہمیں کرپشن اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیت سے بھی لڑنا ہے۔
تازہ ترین