• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنیادی حقوق پرپابندیوں، آزادی ِ اظہار، معلومات کا حصول، نظریات اور افکارکی آزادی اور ہر کسی کے اپنے ضمیر کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنی منشا کے مطابق کاروبار کرنے کے مواقع پر پر قدغن لگانے کی پالیسی پاکستا ن اور اس کی آنے والی نسلوں کی ترقی کے امکانات کو سلب کردے گی۔ بدترین بات یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کی پاسدار ی اور تحفظ کرنے میں ناکامی سے ایک ایسی ریاست ابھر کر سامنے آتی ہے جو خود بھی تنگ نظر ہوتی ہے اور اس میں پنپنے والا سماج بھی متحرک اور جاندار معاشروں کے حقوق کی تفہیم کے قابل نہیں ہوتا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی لگائی۔ پاکستان کے کچھ وکلاچاہتے ہیں کہ پاکستان بار کونسل عاصمہ جہانگیر اور خالد رانجھا پر پابندی لگادے کیونکہ وہ الطاف حسین کے آزادی اظہار ، جو اُنہیں آئین کا آرٹیکل 10-A دیتا ہے، کا دفاع کررہے ہیں۔ اس سے پہلے، 2007ء میں کچھ وکلا نے مطالبہ کیا تھا کہ نعیم بخاری کو قانون کی پریکٹس سے روک دیا جائے کیونکہ اُنھوں نے سابق چیف جسٹس کے خلاف تنقیدی نوٹ لکھا ۔ راولپنڈی ڈسٹرکٹ کورٹ میں وکلا کے ایک جتھے نے اُن پر حملہ بھی کیا ۔ اس طرح اُنھوں نے نعیم بخاری کو آزادی اظہار کی سزا دینے کی کوشش کی۔
عدلیہ کے سابق دور میں ہم نے بنچ کو ’’داغدار سائلین‘‘ کی نمائندگی کرنے پر وکلا کی سرزنش کرتے دیکھا۔ اُسی دور میں میڈیا ٹرائل کے ذریعے خود پارسائی کے ترازو پر ’’فوری انصاف‘‘ کے تقاضے بھی پورے ہوتے نظر آئے۔ اس طریق ِ کار نے اُس اصول کا خون کردیا کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو، انسان بے گناہ ہوتا ہے۔ ان دنوں میں مزدور رہنمائوں کے اصولوں کو اپناکر اپنی بات منوانے والے بعض وکلا کی ایک کھیپ میدان میں آئی جو قانونی نکات سے زیادہ مارشل آرٹس اور جسمانی دائو پیچ کے ذریعے انصاف کے من پسند نتائج حاصل کرنے کے ماہر تھے۔ اُس دوران ہم نے وکلا کیلئے بنائے گئے کسی ضابطہ اخلاق کی باز گشت نہیں سنی۔
وکلا کے بعض منتخب شدہ نمائندوں کو طاقت کے بل پر ہڑتالیں کرانے کا اس قدر نشہ ہوتا ہے کہ عام حالات میں کچھ بہت عمدہ اور ماہروکلا بھی منتخب ہونے کے بعد بے احتیاط ہو جاتے ہیں۔ جسٹس خواجہ کی الوداعی تقریر کے موقع پر مناسب اور مدلل انداز میں ان کی بطور جج فعالیت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر تنقید کرنے اور بار اور بنچ کے درمیان تعلق پر بات کرنے کی بجائے کچھ وکلا رہنمائوں نے اُن کی الوداعی تقریر کا ہی بائیکاٹ کردیا۔ بائیکاٹ کرنے کی پختہ ہوتی ہوئی رسم ، خود کو درست سمجھ کر دوسروں کو دھمکانے کی عادت اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر خود سے ہی فیصلہ کرلینے کے رواج نے معاملہ اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ وہ وکلا جو الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی کی درخواست لے کر گئے تھے، وہ اب عاصمہ جہانگیر پر بھی پابندی لگوانا چاہتے ہیں کہ اُنھوں نے اُس ’’سائل ‘‘ کی وکالت کرنے کی جسارت کیوںکی جس پرمئی 2007 میں مبینہ طور پر کچھ وکلا کو قتل کرانے کا الزام لگاتھا۔ دوسری طرف عاصمہ جہانگیر ایک نڈر اور سچی بات کو بے باکی سے کہنے کی عادت رکھتی ہیں اور شاید وکلا حلقوں میں سب سے توانا آواز ہیں جو ہر مسئلے پر اپنی رائے کا برملا اظہار کرسکتی ہیں۔ چنانچہ چند ایک وکلا رہنما اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
تاہم عاصمہ جہانگیر اور دیگر سینئر وکلا کیلئے ایک مقام ِ فکر ہونا چاہیے کہ ہمارے پیشے میں اخلاقی توازن کیوں بگڑتا جارہا ہے۔ کیا یہ وقت نہیںآگیا جب ہمارے وکلا رہنما مل کر اس بات کی تفہیم کریں اور اس پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ کسی بھی سائل کا دفاع کرنے سے پہلے وکلا اپنے ضمیر کی عدالت سے اس کی اجازت لیں گے؟یا یہ کہ بار اُن وکلا یا جج حضرات کے خلاف کھڑا ہوجائے گا جو کسی بھی ملزم، چاہے اُس پر کتنا ہی گھنائونا الزام کیوں نہ ہو، کو قانونی حق سے محروم کرنے کی کوشش کرے گا؟وہ وکلا جو اپنے جیسے دیگر وکلا کو ’’نامناسب سائلین‘‘ کا دفاع کرنے سے روک رہے ہیں، وہ بھی پاک بازی کے کسی سیارے میں کام نہیں کرتے ہیں۔ ہم ایک عہدمیں رہتے ہیں جہاں حقوق اور آزادیاں ضم ہورہی ہیں۔ ریاست کا بیانیہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ، جس پر ریاست دشمنی کا الزام ہو، وہ ہر قسم کے حقوق،حتیٰ کہ آزاد ٹرائل، سے محروم ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالت کی اجازت دیتے ہوئے ا س بات کی منظور ی دے دی ہے کہ فوج ہی جج، جیوری اور سزاسنانے والی ہوگی اور یہ کہ اس عمل میں کسی کے بنیادی حقوق مجروح نہیں ہوںگے۔ دراصل وہ ملزم حقوق رکھتا ہی نہیں ہوگا اس لیے پامال ہونے کی بحث عبث ہے۔
درمیانی ا ور طویل مدت کیلئے نقصان یہ ہے کہ بنیادی حقوق کو کچلنے سے ہمارے سیاسی اور سماجی معروضات کو اس قدرنقصان پہنچے گا کہ ہم ابھی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیا ہم منطقی طو رپر ان معاملات پر سوچنے کے قابل نہیں رہے کہ عمل اور اس کے رد ِعمل سے طے کیے جانے والے نتائج کی رسم کو پروان چڑھاتے ہوئے ہم ایسی قوم بننے جارہے ہیں جو آزادی اور جمہوریت کیلئے غیر موزوں ہو۔پی ایم ایل (ن) کی حکومت چاہتی ہے کہ وہ ہر اُس بحث کو سنسر کردے جس میں منیٰ میں پاکستانی حاجیوں کی ہلاکت پر تنقید کی جائے ۔ پیمرا نے میڈیا کو ’’مشورہ‘‘دیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی بحث سے اجتناب کرے ورنہ اُن پر دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی پاداش میںآرٹیکل 19کا اطلاق ہوجائے گا۔
اسی طرح موجودہ حکومت سائبر کرائم کو کچلنے کیلئے قوانین کو بھی متعارف کرانا چاہتی ہے اور اس میں آرٹیکل 19 لاگو ہوگا۔ ریاست کے نچلے درجے کے افسران شہریوں کی انٹر نیٹ پر گفتگو کو سنسر کرسکیں گے۔ یہاں بھی مبہم الفاظ پر پکڑ ہوسکتی ہے ، جس طرح دوست ریاستوں کی تشریح نہیں ہوسکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اُن چند ایک ممالک میں شامل ہونا چاہتا ہے جو اپنی نوجوان نسل کی ’’معصومیت ‘‘ کو انٹر نیٹ کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ریاست کا خیال ہے کہ اس کے پاس اس بات کا حق ہے کہ یہ ہر قسم کے خیالات، جو اس کے نزدیک قابل ِ نفرت ہوں، کو روک سکے۔ تاہم جدید دور میں یہ ممکن نہیں۔ بہتر ہوتا اگر ریاست اپنے شہریوں کو اس قابل بناتی کہ وہ اچھے اور برے خیالات میں خود ہی تمیز کرلیتے۔ اس کیلئے اُن کے اندر تنقیدی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت تھی، لیکن یہاں ایک ایسی ریاست ہے جو چاہتی ہے کہ اس کے شہری بلاچوں چراں ،جو بھی بتایا جائے ، اُسے قبول کرلیں۔ یوٹیوب بند کرنے کے پیچھے جو بھی مقصد ہو، اصل بات یہ ہے کہ ریاست شہریوںکو اپنے نظریات کے رنگ میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ کیا یہ دوسوملین کلون تیار کرکے اُن کے دماغ میں سرکاری موقف راسخ کرکے ریاست چلاناچاہتی ہے؟ایسا کرتے ہوئے ہم غیر وں کی غلامی سے کس طرح نجات پائیں گے؟کیا ہم ایک ذہنی طور پر محکوم قوم تیار کرنے جارہے ہیں؟ کیا اسی کا نام ترقی ہے؟
اس سے پہلے ہم نے ستر کی دہائی میں نجی تعلیمی ادارے تباہ کردئیے، آج چاردہائیوں بعد ریاست پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کنٹرول کررہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم ایک کاروبار ہے اور ریاست کاروبار کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اگر اسکول مالکان ایسا کرنے سے انکار کردیں اورا سکول بند کردیں تو کیا ریاست بچوں کو تعلیم دے سکتی ہے؟
تازہ ترین