• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعادت حسن منٹو نے بہت اچھا کیا کہ وہ اٹھارہ جنوری انیس سو پچپن کو صرف بیالیس سال کی عمر میں مرگئے۔ اس معیار کا زود رنج اور عظیم تخلیق کار اگرآج کے دور میں زندہ ہوتا تو روز پاگل خانے جاتا اور روز ہی مرتااور اپنے قلم سے وہ وہ خون بہاتا کہ پڑھنے والی ہر آنکھ لہو، لہو ہو جاتی،ہر دل، ہر لمحہ اشکبار رہتا ۔تقسیم اور طوائف کے دکھ منٹو صاحب کوکھا گئے۔ ایک طرف ان سے دوست ،راتوں رات دشمن بنتے نہ دیکھے گئے اور دوسری طرف جسموں کے سودے اسکو کچکوکے لگاتے رہے۔ کسی کی کالی شلوار کی قیمت کا سوال ہو یا ذکر ہو سوگندھی جیسی طوائف کی ہتک کا، پندرہ سالہ مومن کی نظر سے کپڑوںکا ذکر ہو یا منگو ٹانگے والے کے حوالے سے نئے قانون کا تذکرہ ، سراج الدین مہاجر کی زبانی کھول دو کا حوالہ ہو یاٹوبہ ٹیک سنگھ میں بشن سنگھ کی داستان منٹوصاحب اپنے ہردو موضوعات سے باہر نہیں نکلتے۔ اتنے حساس فنکا ر کیلئے یہی دو دکھ کافی تھے۔ انہی کا ماتم کرتے کرتے منٹو صاحب نے وہ ادب تخلیق کیا جو زمانوں کیلئے شاہکار ہے۔
خدانخواستہ منٹو صاحب آج زندہ ہوتے تو اس دور جدید کے الم دیکھ کر، وہ حساس فنکار تقسیم اور طوائف کے دکھ بھول جاتے۔آج کے دور میں اسکے موضوعات اور ماتم بے شمار ہو جاتے۔ تیزاب میں جلی عورتیں، بھٹوں پر کام کرنے والے نسلوں کے غلام خاندان، کوڑا چنتے بچے، کھربوں کی کرپشن کرتے سیاستدان، لوڈ شیدنگ میں بلکتے عوام، ایمبولینس میں ناکوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے، دھوپ میں جلتا اور ہر ایک کی گالی سنتا سپاہی، دہشت گردی کے واقعات، بموں کے دھماکوں میں مرتے بے گناہ افراد، حج کے موقع پر ہجوم کے قدموں تلے روندے گئے سینکڑوں لوگ، مذہب کے نام پر جہالت کا پرچار کرنے والے جعلی پیشوا، گھروں میں مالکوں سے پٹنے والی نوعمر ملازمائیں، تھانوں میں تشدد سے مرجانے والے قیدی، سیاسی جماعتوں کے نامراد کارکن، مزارعوں پر کتے چھوڑ دینے والے زمیندار ، کاروکاری اور ونی کی جانی والی عورتیں، جہیز کی لعنت کی وجہ سے بوڑھی ہونے والی لڑکیاں، دور جدید کی موسیقی ، عصر حاضر کی شاعری اور فنکار کی سرعام بے حرمتی وہ چند موضوع ہیں کہ جو اگر منٹو صاحب کو میسر آجاتے تو ان کا قلم کئی نسلوں کو غم و اندوہ کی کیفیت میں مبتلا کر جاتا۔ قیامت بپا کر جاتا۔ جس سفاک طریقے سے منٹو کو سچ کہنے کا ہنر آتا تھا صد شکر کہ وہ اسلوب اب اس دور کے کسی قلم کار کو میسر نہیں ورنہ اس دور کا ادب سب سے سنگین اور خونچکاں تحریروں پر مبنی ہوتا۔ہم نے بحیثیت قوم اچھا کیا کہ منٹوصاحب کو بھول گئے اور شاید اسی میں عافیت تھی ۔ قصور سارا سرمد کھوسٹ کا ہے۔ جب ہم سب ماضی کے دکھ بھول کر آج میں مگن اور مبتلا ہو گئے۔ بے حس ، بے مروت اور بے ضمیر ہو گئے تو سرمد نے منٹو پر ایک فلم بنا دی۔ گھنٹوں میں دہائیوں کا بھولا ہو سبق دہرا دیا۔ ہمارے مربی ،محترم شاہد محمود ندیم نے منٹو صاحب کے کردار کے اظہار کیلئے وہ لفظ چنے کہ منٹو پھر سے زندہ ہو گیا۔ وہی منٹو جسے ہم نے اٹھارہ جنوری انیس سو پچپن میں دفنایا تھا ،کفنایا تھا۔
ایک مدت کے بعد پاکستان میں ایک ایسی فلم بنی ہے جس کا کوئی ایجنڈا نہیں ، جس کے پیچھے کوئی اصلاحی مقصد نہیں ہے ،کوئی پیغام بھی بین السطور چھپا ہوا نہیں ۔ فلم میں نہ کوئی آئٹم نمبر ہے نہ محبت کی کسی کہانی کا دو رویہ ٹریک ہے ، نہ ہیرو کے دوست کا بدمزہ مذاق ہے نہ کھیتوںمیں رقص کرنے والی پریوں کے ہجوم ہیں نہ ہی یہ ایکشن سے بھرپور ہے ۔ فلم منٹوتو بس ایک کہانیاں لکھنے والے عظیم فنکار کی داستان ہے۔ اسکے کرب کا اظہار ہے ، اسکی ذات کا بیان ہے۔ فلم میں منٹو صاحب کی کہانی بیان کرتے کئی لازوال افسانوں کے منظر فلم بند کئے گئے ہیں ۔ تخلیق کار اپنے فن کو تخلیق کرنے کی جستجو میں جن مراحل سے گزرتا ہے ان کا بیان ایسا ہے کہ کہانی کے تسلسل پر بار نہیں بنتا بلکہ اسکی روانی میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ذات کو فنکار کے فن سے کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا اور یہی شاید اس فلم کا واحد سبق ہے جو ہمیں فلم دیکھنے کے بعد یاد رہتا ہے۔ پاکستان کے تمام نامور اداکار اور اداکارائیں مختصر دورانئیے کیلئے اس فلم میں کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ نادیہ افگن، سہیل ہاشمی، صبا قمر، فیصل قریشی ، عرفان کھو سٹ سویرا ندیم ،ثانیہ سعید اور خود منٹو صاحب کے روپ میں سرمد کھوسٹ نظر آتے ہیں۔ فیصل قریشی کا کردار مختصر ترین ہے لیکن اس کردار میں اس با صلاحیت فنکار نے وہ رنگ بھرے ہیں کہ دیکھنے والی آنکھ ششدر رہ جاتی ہے۔
منٹو صاحب کی اہلیہ صفیہ کا کردار ثانیہ سعید کے حصے میں آیا اور حق بات تو یہ ہے کہ ثانیہ سعید نے حق ادا کر دیا۔یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جب کبھی برصغیر کی سب سے باصلاحیت اداکارئوں کی فہرست بنے گی تو اس میں ثانیہ سعید کا نام بہت اوپر ہو گا۔ منٹو جیسے تخلیق کار کی گھریلو زندگی میں کیا کیا کرب صفیہ نے دیکھے ہوں گے ان سب کا اظہار ثانیہ سعید کے چہرے پر نظر آیا۔ ہر لمحہ یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید اب صفیہ بول پڑے گی ، چیخ پڑے گی اور رو پڑے گی مگر صفیہ خاموش رہی ، تابعدار اور فرمانبردار۔ محبتی اور مشقتی۔مشفق اور ممنون۔اسلام آباد میں فلم منٹو کی کاسٹ کے ساتھ ایک شام منائی گئی جس کا اہتمام ہمارے قریبی دوست خاور اظہر اور انیق ظفر نے کیا تھا ۔ نظامت میرے سپرد کی گئی ۔ اس شام ثانیہ سعید نے بتایا کہ صفیہ جیسے کردار ہمارے معاشرے میں بے شمار ہیں۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے شوہر کے فن کے خراج میں سب کچھ تیاگ دیا ۔ خاموشی سے یہ کردار نہ احتجاج کرتے ہیں نہ دہائی دیتے ہیں ۔ خاموشی ہی انکی زبان اور ایک چپ ہی انکا سارااظہار ہوتا ہے۔
منٹو فلم سے پہلے ہم منٹو صاحب کو انکی کہانیوں کے حوالے سے جانتے تھے ، ذات کا پردہ کبھی کھل کر اس طرح وا نہیں ہو اتھا۔ کرداروں کے دکھ تو ہم جانتے تھے کردار تخلیق کرنے والے کی داستان کبھی رقم نہیں ہوئی تھی۔فلم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ جو لازوال کردار لکھتا تھا وہ خو د اپنی زندگی میں کس قدر زوال پزیر تھا۔ بیالیس سال کی عمر میں جو عریاں سچ منٹو نے لکھ دیا اسکو سہارنے کیلئے صدیاں درکار ہیں۔اس دور بے مروت کو دیکھتے ہوئے بڑی بے خوفی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعادت حسن منٹو نے بہت اچھا کیا کہ وہ اٹھارہ جنوری انیس سو پچپن کو صرف بیالیس سال کی عمر میں مر گئے۔
تازہ ترین