• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میںمقامی انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ تین مراحل میں ہونے والے ان انتخابات میں کہیں امیدواروں کی فہرستوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور کہیں کا غذات نامزدگی جمع کرائے جا رہے ہیں ۔ اس کے باوجودمقامی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابھی تک غیر یقینی پائی جاتی ہے ۔ اس غیر یقینی کے دو اسباب ہیں ۔ پہلا سبب سندھ ہائی کورٹ کا بلدیاتی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک فیصلہ ہے اور دوسرا سبب کراچی سمیت پورے سندھ میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن ہے ۔ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی تین مراحل میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں 31اکتوبر کو سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز کے8اضلاع میں ، دوسرے مرحلے میں 19 نومبر کو میرپور خاص ، شہید بے نظیر آباد ، حیدر آباد اور بھنبھور ڈویژنز کے 15اضلاع میں اور تیسرے مرحلے میں 7دسمبر کو کراچی ڈویژن کے 6اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہونگے ۔ پہلے مرحلے کیلئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہو چکا ہے ۔ جبکہ دوسرے مرحلے کیلئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہو گیا ہے ۔ تیسرے مرحلے کیلئے کاغذات نامزدگی 3 اکتوبر سے 7 اکتوبر تک جمع کرائے جا سکیں گے ۔ اس کے باوجود بے یقینی برقرار ہے ۔ سندھ میں پہلے بھی بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں ۔ پہلے بھی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہو ئے تھے ۔ ان کی جانچ پڑتال ہوئی تھی اور امیدواروں کی حتمی فہرستیں بھی آویزاں ہو چکی تھیں ۔ اس وقت بھی بلدیاتی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک مقدمے کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوئے تھے ۔ اس وقت حلقہ بندیوں کے کیس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات التواء کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن حلقہ بندیوں کا یہ کیس بظاہر ایک وجہ ہے ۔ اصل اسباب کچھ اور ہیں ، جن کا پتہ چلانا ضروری ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی سیاسی حکومت یا یوں کہئے کہ کوئی غیر فوجی حکومت بلدیاتی انتخابات کرا رہی ہے ۔ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال دیگر تمام صوبوں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے ، اس کے باوجود وہاں بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے منعقد ہوئے ۔ خیبرپختونخوا میں بھی بدامنی کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا اور وہاں بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں ۔ لوگوں کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ پنجاب میں بھی بلدیاتی ادارے انتخابات کے بعد کام شروع کر دیں گے لیکن سندھ کے بارے میں ابھی تک کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ۔ سندھ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سیاسی طور پر انتہائی حساس صوبہ ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہاں سیاسی عدم استحکام رہا ہے ۔ سندھ ان ادوار میں بھی سیاسی طور پر غیر مستحکم رہا ، جب پورے ملک میں استحکام پایا جاتا تھا ۔ سندھ کے سیاسی مسائل دیگر صوبوں سے بالکل مختلف ہیں ۔سندھ کی مخصوص سیاست کی وجہ سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس صوبے کو مخصوص انداز میں چلاتی ہے اور اسی صوبے سے ہی باقی پاکستان کے سیاسی مقدر کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ بعض قوتوں نے سندھ میں پہلے بھی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرائے تھے اور وہ قوتیں اب بھی سرگرم عمل ہیں ۔
ستمبر 2013ء میں کراچی سمیت پورے سندھ میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کے خلاف شروع ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں اور اب یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک بڑھ رہا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ اب تک آپریشن میں جو کارروائیاں کی گئیں ، ان کے سندھ کے مستقبل پر کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج آپریشن کے نتائج پر ضرور اثر انداز ہونگے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) سندھ میں سیاسی طور پر بہت مضبوط ہیں ۔ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے اس وقت کئی سوالات موجود ہیں ۔ مثلاً کیا ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی ؟ انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں کیا ایم کیو ایم بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی اور بھاری اکثریت سے کامیابی کی صورت میں اس کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں اور انکے خلاف مقدمات قائم کرنے والے سیکورٹی اداروں کی کیا اخلاقی پوزیشن ہو گی ؟ کیا ایم کیو ایم پہلے کی طرح کامیابی حاصل کر سکے گی؟ اور اس صورت میں کراچی میں پیدا ہونے والا سیاسی خلاء کون پر کریگا ۔ اسکے ساتھ بعد میں اسٹیبلشمنٹ اور آپریشن کرنے والی فورسز کا رویہ کیا ہو گا ؟ اسی طرح پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی بعض سوالات پیدا ہو رہے ہیں ۔ کیا پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں اپنے زیر اثر اضلاع میں اپنی سیاسی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی اور اس صورت میں بھی آپریشن اور احتساب کرنے والی قوتوں کی اخلاقی پوزیشن کیا ہو گی ، جو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں کر رہی ہیں اور سندھ حکومت کے احتجاج کے باوجود صوبائی محکموں اور اداروں کے دفاتر میں چھاپے مار رہی ہیں ؟ کیا پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں اپنے زیر اثر اضلاع میں شکست سے دوچار ہو گی اور اس صورت میں کیا سندھ حکومت ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت جاری رکھے گی اور خود سندھ حکومت کا مستقبل کیا ہو گا ؟ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ان تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا لیکن پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی بھاری اکثریت سے کامیابی یا ان کو توقع سے کم نشستیں ملنے کی دونوں صورتوں میں ٹارگٹڈ آپریشن پر گہرے اثرات مرتب ہونگے اور ٹارگٹڈ آپریشن کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی سامنے آ جائینگے ، جن کے سامنے آنے کا میرے خیال میں ابھی وقت نہیں ہے۔ سندھ کو سیاسی طور پر آگے لے جانے کی اسکیم میں بلدیاتی انتخابات خلل ڈال سکتے ہیں ۔ بعض قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مقبولیت کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور انہیں بلدیاتی انتخابات کے ٹیسٹ سے نہ گزارا جائے ۔ لہذا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات جاری کردہ شیڈول کے مطابق ہوں گے یا نہیں ۔ سندھ حکومت ہائیکورٹ آف سندھ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے جا رہی ہے ۔ اس اپیل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم ہو گا ۔ حکومت کو پر امن انتخابی ماحول کیلئے بھی بعض اہم اقدامات کرنا ہوں گے ۔
تازہ ترین