• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 70 واں اجلاس منعقد ہوا ، جس سے امریکی صدر باراک اوباما ، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن ، چین کے صدر ژی جن پنگ ، فرانس کے صدر فرانکوئس ہولاندے ، پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے علاوہ افریقہ ، ایشیاء ، لاطینی امریکہ اور یورپ کے متعدد عالمی رہنماؤں نے خطابات کئے۔ عالمی رہنماؤں کی تقریروں کاتجزیہ کرنے سے یہ محسوس ہوا کہ جنگ عظیم دوئم سے پہلے دنیا میں جتنے تنازعات تھے ، ان سے زیادہ تنازعات آج کی دنیا میں موجود ہیں ، جو عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں ۔ دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی عظیم تباہی کے بعد دنیا نے ایک سبق سیکھا اور عالمی برادری نے اپنی اجتماعی دانش سے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا راستہ نکالا ۔ دوسری عالمی جنگ کی عظیم تباہی 70 سال پہلے اقوام متحدہ کی تشکیل کا سبب بنی ۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ تنازعات کے پر امن حل کیلئے ایک عالمی ادارہ اپنا بھرپور کردار ادا کرے ۔ 70 سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی تقریروں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ عالمی ادارہ اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا نہیں کر سکا ہے اور جنگ عظیم دوئم سے پہلے کی دنیا کے مقابلے میں آج قوموں ، ملکوں ، علاقوں اور تہذیبوں کے درمیان تنازعات کہیں زیادہ اور کثیر الجہتی ہیں۔ کچھ تھنک ٹینکس یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ دنیا ایک دفعہ پھر سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور بعض تھنک ٹینکس تیسری جنگ عظیم کے امکانات پر بات کر رہے ہیں۔ دنیا یہ توقع کر رہی تھی کہ21ویں صدی تسخیر کائنات کی صدی ہو گی ، انسانی ترقی عروج پر ہو گی اور کرہ ارض کے باسیوں کو پر امن ماحول کی نشاط حاصل ہو گی ۔ مگر یہ توقع پوری نہیں ہو سکی ۔ مشرق وسطیٰ ، جنوبی ایشیاء ، مشرقی یورپ ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بعض خطوں کو بدامنی اور عدم استحکام کی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ شام ، یمن ، یوکرائن اور کشمیر سمیت دنیا کے کئی ’’ فلیش پوائنٹس ‘‘ بنے ہوئے ہیں ، جن کی وجہ سے دنیا سرد یا گرم جنگ کی طرف جا سکتی ہے ۔ جنرل اسمبلی میں امریکہ اور روس کے صدور کی تقریروں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دونوں ملک یوکرائن اور شام کے ایشوز پر سرد جنگ والی پالیسی اختیار کر چکے ہیں ۔ امریکی صدر اوباما نے یہ واضح کیا کہ یوکرائن میں روسی مداخلت ناقابل برداشت ہے جبکہ روسی صدر پیوٹن نے یہ موقف اختیار کیا کہ یوکرائن میں بیرونی طاقتوں نے فوجی بغاوت کرائی ، جس سے وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ اسی طرح شام کے مسئلے پر صدر اوباما نے کہا کہ شام کے صدر بشارالاسد کو ہٹانے سے ہی شام کا مسئلہ حل ہو گا ۔ روسی صدر پیوٹن نے بشار الاسد کی کھل کر حمایت کی اور کہا کہ جس طرح بشارالاسد اور ان کی فوجیں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں ، اس طرح کوئی بھی نہیں لڑ رہا ۔ دونوں رہنماؤں کی تقریروں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یوکرائن اور شام تصادم اور جنگ کے زونز بنے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نے جس طرح کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اصولی موقف کی غیر مدلل اور بے جواز مخالفت کی ، اس کی وجہ سے بھی دنیا کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ دو جوہری طاقتیں تصادم کا راستہ اختیار کر سکتی ہیں ۔
خوف ناک تنازعات دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں ؟ ایک صدی قبل دنیا اسی طرح کے تنازعات میں الجھی ہوئی تھی ۔ ان تنازعات کے نتیجے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں ۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے خطاب میں دوسری جنگ عظیم کو ’’ فسطائیت کے خلاف جنگ ‘‘ ( اینٹی فاشسٹ وار ) قرار دیا اور کہا کہ ’’ بنی نوع انسان کی پہلی نسلوں نے 70 سال پہلے یہ جنگ بہادری سے لڑی اور اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے چین کے ساڑھے تین کروڑ لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں ۔ ‘‘ چین کے صدر نے اپنے خطاب میں بین السطور آج کی دنیا کو بھی فسطائیت کے خطرے سے آگاہ کیا اور کہا کہ دنیا کو پر امن بنانے کیلئے چین اپنا کردار ادا کرے گا ۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے کردار کو مزید موثر بنانے کیلئے چین اور اقوام متحدہ کے ایک ارب کے امن فنڈ کے قیام کا بھی اعلان کیا ۔ چین نے اپنی امن فوج بھی بنانے کا اعلان کیا ۔ چین کے صدر نے اعلیٰ سفارتی زبان میں دنیا کو درپیش خطرات اوران خطرات سے نمٹنے کیلئے چین کے کردار کی وضاحت کی ۔ چین کے صدر نے جس جنگ کو فسطائیت کے خلاف جنگ قرار دیا ، اسی جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا کے کئی ملک آزاد ہوئے اور دنیا اشتراکی اور سرمایہ دارانہ بلاک میں تقسیم ہو گئی تھی ۔ دونوں بلاکس تقریباً چار دہائیوں تک سرد جنگ میں الجھے رہے ۔ اس عرصے میں اقوام متحدہ اپنا موثر کردار ادا نہ کر سکی۔ سرد جنگ ختم ہوئی تو دنیا یک قطبی ( Unipolar ) ہو گئی ۔ یک قطبی دنیا میں صورت حال سرد جنگ سے بھی زیادہ خوف ناک ہو گئی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنا نیا عالمی ضابطہ ( نیو ورلڈ آرڈر ) لاگو کرنے کیلئے دنیا کو بدامنی ، انتشار ، خونریزی ، خانہ جنگی اور مصنوعی جنگوں میں الجھا دیا ۔ اس نئے عالمی ضابطے کو تقریباً ڈھائی عشروں کے بعد پہلی دفعہ چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ چینی صدر نے فسطائیت کے نئے خطرے سے نمٹنے کیلئے چین کے کردار کا عندیہ دیا جبکہ روس کے صدر نے نیٹو افواج کی توسیع اور دہشت گردی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ۔ ویسے ہی حالات پیدا ہو گئے ہیں ، جو ایک صدی قبل جنگ عظیم اول سے پہلے تھے ۔ لیکن آج کی دنیا، ایک صدی قبل کی دنیا سے بہت مختلف ہے ۔ آج ان ایٹم بموں سے زیادہ خطرناک ہتھیار موجود ہیں ، جو ناگاساکی اور ہیروشیما پر گرائے گئے تھے ۔ سرد جنگ کے بعد یونی پولر ورلڈ نے ہر خطے میں دہشت گرد اور دہشت گرد گروہوں اور پرائیویٹ ملیشیاز کو منظم کر دیا ہے ۔ جنگ ایک کاروبار بن گئی ہے ۔ دنیا بھر کے رہنماؤں اور عالمی برادری کو یہ احساس ہے کہ دنیا سرد یا گرم جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ جنرل اسمبلی کے فورم سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اجتماعی عالمی شعور سرد جنگ جیسے حالات کا بھی مخالف ہے اور وہ تیسری عالمی جنگ کا جنون بھی پیدا نہیں ہونے دے گا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا اب ’’ یونی پولر ‘‘ نہیں رہے گی ۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں تقریباً تمام عالمی رہنماؤں نے سرد یا گرم جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے اپنے ملکوں کی طرف سے بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا ۔ اس ضمن میں امریکی صدر اوباما کا خطاب قابل ستائش ہے ۔ باراک اوباما کے پچھلے دو سال انکے پہلے چھ سالوں اور ماضی قریب کے دوسرے صدور سے مختلف ہیں۔ اب دنیا میں امریکہ کے بارے میں تاثر بدل رہا ہے۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ، ایران، افریقہ، کیوبا اور مشرقی جنوبی ایشیا میں حالات کو نارمل کرنے میں پیش رفت کی ہے اور آج بھی وہ امن کے لئے سرگرداں ہیں۔ لیکن ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ میں پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کے حوالے سے امریکہ اور اس کے حواریوں کا موقف الگ تھا جبکہ روس ، چین اور ان کے حامیوں کا موقف مختلف تھا ۔ جنرل اسمبلی کے فورم سے ہی یہ پتہ چلا کہ نئے عالمی ضابطے کو اب کھل کر چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ فرانس کے ایک چانسلر کے چند سال پہلے کہے گئے یہ الفاظ درست ثابت ہو رہے ہیں کہ دنیا اب ’’ یونی پولر ‘‘ نہیں رہے گی ۔ اس مرتبہ دنیا ’’ بائی پولر ‘‘ ( دو قطبی ) نہیں ہو گی بلکہ ’’ ملٹی پولر ‘‘ ( کثیر القطبی ) ہو گی ۔ چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں اور وہ دنیا پر اپنا فلسفہ یا اپنی سیاست مسلط نہیں کرنا چاہتا لیکن اقوام متحدہ کے کردار کو زیادہ موثر بنانے کا چین کے صدر کا اعلان یہ واضح کر رہا ہے کہ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر اب اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کو سرد جنگ کے حالات یا تیسری عالمی جنگ سے بچانا ہے تو اقوام متحدہ کو بھرپور اور موثر کردار ادا کرنا ہو گا ۔ ورنہ وہ ’’ لیگ آف نیشن ‘‘ جیسا غیر ضروری ادارہ بن جائے گا ۔ اقوام متحدہ کے کردار سے ہی تعین ہو گا کہ ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ سے ’’ ملٹی پولر ورلڈ ‘‘ کے وجود میں آنے تک دنیا کو سرد جنگ کے حالات یا کسی نئی عالمی جنگ سے کیسے بچایا جا سکتا ہے ۔
تازہ ترین