• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دفعہ عیدالاضحی اور حج کے موقع پر مسلمان اجتماعی خوشی کے جذبات سے سرشار تھے کہ سانحہ منیٰ نے عالم اسلام کو غم اور کرب میں مبتلا کر دیا۔ اس اندوہناک سانحے کے شہدا اور زخمیوں کا دکھ مشرق سے مغرب تک محسوس کیا گیا۔ ہم اس روز علی الصبح رمی جمراء اولیٰ سے فارغ ہو کر پیدل ہی سوئے حرم چل پڑے تھے۔ آدھے راستے میں گاڑی بھی پہنچ گئی اور جلد حرم شریف پہنچ کر طواف زیارت میں مصروف تھے کہ منیٰ سے اس المناک سانحے کی خبر بجلی بن کر گری۔ ہم تو مثالی حج آپریشن کی کامیابی پر نوافل ادا کرنے اور آخری مناسک کی ادائیگی کے بعد احرام کھولنے جا رہے تھے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا فرمان ذہن میں آیا کہ ’’میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا ہے‘‘ یعنی انسان سوچتا کچھ ہے اور ہو کچھ جاتا ہے۔پاکستان کے حجاج کرام کے معاملات کی ذمہ داری کا بوجھ راقم کے ناتواں کندھوں پر تھا میں سوچوں میں گم تھا کہ لاکھوں حجاج کے کروڑوں عزیز و اقارب اور دوست احباب پر یہ خبر کیسے قیامت بن کر گری ہو گی؟ عید کی خوشیوں میں مصروف مسلمان اس وقت کس کربناک صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ یہ صورت حال میرے لئے بہت پریشان کن تھی۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر انتظامی اُمور میں مصروف ہو گئے۔ ڈی جی حج سے رابطہ کر کے تمام ذمہ داران کی پاکستان ہائوس میں میٹنگ بلائی اور اسی وقت کمیٹیاں بنا کر کام تقسیم کر لیا گیا۔سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر جناب منظور الحق صاحب بھی مکہ مکرمہ میں تھے وہ بھی اپنے کاموں میں مستعدی کے ساتھ مگن ہو گئے۔
منیٰ حادثے کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی پاکستان سے صحافی مسلسل رابطہ کر رہے تھے مگراس وقت فوری طور پر حقیقی صورتحال ہمارے سامنے نہیں تھی اس لئے ہم نے مصدقہ معلومات کے بغیر میڈیا کے سامنے انداز ےسے اعداد و شمار پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ خدا کا شکر ہے کہ انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ ہم نے پاکستان کے عوام کو بھی بروقت آگاہ رکھنے میں کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔پاکستان ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں سفیر پاکستان جناب منظور الحق ڈی جی حج ، سیکرٹری مذہبی اُمور، ایڈیشنل سیکرٹری سمیت تمام ذمہ داران نے شرکت کی۔اجلاس میں طے ہوا کہ اس نازک صورتحال سے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ احسن انداز میں نبرد آزما ہونا ہے۔ فوری طور پر کئی نمبروں پر مشتمل ہیلپ لائن قائم کی گئی۔ اور لواحقین کو بروقت معلومات فراہم کی گئیں۔ اب تک ان لائنوں پر ان گنت کالز موصول ہو چکی ہیں۔ اسپتالوں کے لئے ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کی ذمہ داری لگائی گئی کہ ڈیڈ باڈیز اور زخمیوں کو شناخت کریں اور مکمل معلومات حاصل کر کے الگ الگ فہرستیں مرتب کریں۔ سفارت خانے اور حج مشن نے فوری طور پر کام کا آغاز کر کے خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ حج کے لئے 190 سے زائد ممالک کے حجاج تشریف لاتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اور مختلف قومیتوں کے لوگوں میں اپنے لوگوں کی تلاش مشکل ترین کام تھا۔راقم نے ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے ساری صورتحال سے قوم کو آگاہ کیا۔ شہداء اور زخمیوں کے لواحقین سے براہ راست رابطہ کیا گیا اور ان کو آگاہی دی گئی۔ ہماری انتظامی کمیٹیوں نے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا تھا اور سب سے بڑا مسئلہ ڈیڈ باڈیز اور شدید زخمیوں کی شناخت کا تھا۔ پاکستان حج مشن ہر سال تمام حجاج کرام کو تین طرح کی شناختی علامات آویزاں کرنے کا پابند بناتا ہے۔ پہلی شناخت کلائی پر ربن باندھی جاتی ہے، دوسری شناخت گلے میں تعارف پر مشتمل کارڈ لٹکایا جاتا ہے اور تیسری یہ کہ ہر حاجی کے سامان پر مکمل معلومات کا اسٹیکر لگایا جاتا ہے، ان سب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ کسی بھی حادثے کی صورت میں شناخت میں آسانی ہو مگر بد قسمتی ہے کہ ہمارے اکثر حجاج پہلی دونوں شناختوں کے آویزاں کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور بعض حجاج تو گلے میں کارڈ لٹکانے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، یہ ہمارا خالص پاکستانی مزاج ہے۔ وگرنہ تمام ممالک کے حجاج اس ضابطے پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ابتداء میں شہداء اور شدید ترین زخمیوں کی شناخت میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔دوسرا بڑا مسئلہ لاپتا حجاج کا تھا۔ ’’لاپتا‘‘ کا لفظ تو عجیب سا لگ رہا ہے تاہم فوری طور پر جن حجاج سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا ان کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ اس موقع پر رابطہ نہ ہونے یا لاپتا ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حجاج کرام جب مناسک حج کے سلسلے میں پانچ دن سے اپنی رہائش گاہوں سے باہر کھلے میدان میں ہوتے ہیں تو موبائل فونز کی چارجنگ ختم ہو جاتی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا جب حادثے کی خبر سن کر پاکستان سے عزیز و اقارب نے حجاج کو فون کئے تو موبائل بند ملنے کی وجہ سے ان حجاج کو بھی گم شدہ تصور کر لیا حالانکہ ایسا نہیں تھا جوں جوں حجاج اپنی رہائش گاہوں پر واپس پہنچے تو رابطے بحال ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لاتعداد فون کالز کی وجہ سے نیٹ ورک کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بھگدڑ کے دوران بہت سے حجاج کے موبائل فون سیٹ ہی گر گئے تھے جو رابطے کا واحد ذریعہ تھے۔ چوتھی اور تکلیف دہ وجہ یہ ہے کہ ہر سال دو سو سے چار سو کے لگ بھگ پاکستانی حجاج کرام عارضی طور پر از خود لاپتا ہو جاتے ہیں وہ یوں کہ مناسک حج کی ادائیگی کے بعد وہ خاموشی سے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ اپنے موبائل فون بند کر لیتے ہیں، معلم سے رابطہ منقطع کر لیتے ہیں اور غیر قانونی طور پر سیر و تفریح کے لئے یا سعودیہ میں اپنے عزیز و اقارب سے ملنے نکل جاتے ہیں چونکہ انہیں اپنے شیڈول کا علم ہوتا ہے خوب گھوم پھر کر وطن واپسی سے ایک دو روز قبل اپنے قافلے میں خاموشی سے شامل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حجاج کا یہ معمول ہر سال انتظامیہ کو پریشان کئےرکھتا ہے۔تاہم ایسے لاپتا حجاج کی تعداد بہت کم ہے جن کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ وہ اس حادثے کا شکار ہوگئے ہوں گے، اللہ تعالیٰ تمام لا پتا حجاج کو خیرو عافیت سے اپنوں سے ملا دے۔
وزارت مذہبی اُمور نے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی اللہ کے فضل و کرم سے حج کے عمدہ انتظامات کیے اور کسی جگہ سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی جس کی گواہی ہر حاجی دے گا۔ ذرائع ابلاغ میں ویزوں کے معاملے میں کچھ خبریں سامنے آئی ہیں جن کی ہم فوری طور پر تحقیقات کرائیں گے۔ سانحہ منیٰ کے بعد تمام ممالک سے بڑھ کر ہمارا حج مشن فعال رہا ہے، ہمارے ذمہ داران اور کارکنوں نے نہ صرف پاکستانیوں بلکہ جہاں بھی خدمت کا موقع ملا اس کارِ خیر میں حصہ ڈالا ہے جس کا سعودی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے۔ راقم نے اپنے عملے اور پاکستانی سفیر کے ہمراہ یہاں کے حکام سے متعدد ملاقاتیں کر کے معاملات کو جلد حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسپتالوں کا دورہ کر کے زخمیوں کے مسائل فوری حل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ معلومات کے حصول میں کچھ مشکلات درپیش تھیں جس کے لئے ہم نے فوری طور پر سعودی عرب کے وزیر حج شیخ بندر بن الحجار سے ملاقات کی جنہوں نے ہمارے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا، جس کا ہم نے اپنی جانب سے اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے شکریہ اداکیا۔ سعودی وزیرحج نے پاکستانیوں کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
سانحہ منیٰ اچانک رونما ہونے والا حادثہ تھا۔ ایسے واقعات کسی بھی وقت کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے سانحات کے بعد تبصروں اور تجزیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور حیران کن نظریات سامنے آتے ہیں۔ سانحہ منیٰ کے بعد بھی ہر طبقہ اپنی ذہنی سطح اور نظریاتی تناظر میں اس پر بحث کر رہا ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس انسانی حادثے کو سعودی حکومت کی انتظامی ناکامی قرار دے کر اس کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیںکہ یہ سوچ درست نہیں ہے سعودی حکومت کو اللہ رب العزت نے حجاج کی خدمت کا جو منصب عطا کیا ہے وہ اس کا حق ادا کر رہی ہے۔ سعودی حکومت ہر سال پہلے سے بڑھ کر حج انتظامات بہتر بناتی ہے اور ہر سال معتدبہ رقم خرچ کر کے حجاج کرام کے لئے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتی ہے جس کا جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہر خاص و عام مشاہدہ کر رہا ہے۔ تیس لاکھ سے زائد حجاج کرام کے لئے اتنے اعلیٰ انتظامات شاید دنیا کی کوئی اور حکومت اس کا تصور بھی نہ کر سکے۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار پر مشتمل افراد کا مجمع سنبھالنا بھی مشکل ہوتاہے جبکہ حج پر لاکھوں کے مجمع میں ہر قوم، نسل، رنگ اور مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جن میں بوڑھے، جوان، مرد و خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں ان سب کے لئے عمدہ انتظامات کرنا سعودی حکومت کا ہی خاصہ ہے۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد باقی حج آپریشن مکمل کرنا اور متاثرین کے لئے فوری انتظامات کرنا بہت بڑا امتحان تھا جس سے سعودی حکومت سرخرو ہو کر نکلی ہے۔ ہم بھی اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں بھی اس حادثے کے بعد وہ ہمت عطا فرمائی کہ دن رات کام کر کے ہمارے رضا کاروں نے اللہ تعالیٰ اور قوم کے سامنے سرخروئی حاصل کی۔ سانحہ منیٰ کی سعودی حکومت تحقیقات کر رہی ہے۔ حادثے کی صحیح وجوہات تو تحقیقات کے بعد سامنے آئیں گی مگر اس حادثے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا درست نہیں۔ ہمیں سعودی حکومت پر مکمل اعتماد ہے، اس کی دیانت و امانت پر کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ بھی ایک سیاسی ایجنڈا ہے جس کی ضرورت نہیں سعودی عرب پر پورے عالم اسلام کو مکمل اعتماد ہے، اس موقع پر سعودی حکومت سے حیران کن مطالبات عالم اسلام میں انارکی کا باعث بن سکتے ہیں اور کسی تیسری قوت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے سعودی عرب اور ایران عالم اسلام کے دو عظیم برادر ملک ہیں انہیں عالم اسلام کے وسیع تر مفاد میں باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنا ہو گی اور غلط فہمیوں کاازالہ کرنا ہو گا تاکہ مخدوش صورتحال سے کوئی تیسرا فریق غلط فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جو تصفیہ طلب اُمور ہیں وہ آپس میں مل بیٹھ کر باہمی رضامندی سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ سانحہ منیٰ کے بعد سے اب تک کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اب تک اس اندوہناک حادثے ہیں۔ 57 پاکستانی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 26 حجاج مکہ مکرمہ میں دفن کر دئیے گئے ہیں۔49 پاکستانی زخمی ہوئے جن میں سے 37 افراد ڈسچارج ہو چکے ہیں جبکہ 101 ابھی تک لا پتا ہیں۔ حج مشن کے رضاکار اور سفارتخانہ ہمہ وقت مصروف خدمت ہے۔ کچھ حجاج وطن پہنچ چکے ہیں، کچھ کی واپسی جاری ہے اور کچھ مدینہ منورہ جارہے ہیں۔ ہمارے لئے بڑا امتحان لاپتا حجاج کا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت لاپتا حجاج کو بھی خیروعافیت سے اپنوں سے ملا دے۔
تازہ ترین