• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ ڈاکٹر صاحب انتہائی بے بس نظر آ رہے تھے اور اپنی کتھا بیان کرتے ہوئے غصے سے ان کی آواز کپکپا رہی تھی۔وہ گزشتہ پندرہ سال سے محکمہ صحت سے وابستہ ہیں۔ تین بچوں کے باپ ہیں جن سے ان کی ملاقات کئی مہینوں سے شاذو نادر ہی ہوتی ہے،اہلیہ سرکاری ملازم ہیں ، گاڑی ڈرائیو کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر کے امور کسی طور چل رہے ہیں لیکن جس عذاب سے وہ دوچار ہیں اس کے باعث ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں رہی۔ ان کی صبح اور شام لوگوں کے گھروں کی سرویلنس ،متعلقہ ٹیموں کی مانیٹرنگ کرتے اور رات میٹنگز میں شرکت کرتے گزر رہی ہے۔ مہینوں گزر چکے انہیں اتوار کی سرکاری تعطیل بھی میسر نہیں۔ ان کی ذہنی اذیت کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جس مقصد کے لئےانہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال رکھی ہے وہ ساری کاوش انہیں بے سود اور مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ اسی لئے پنجاب حکومت کو صلواتیں سناتے ہوئے ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اتنی بد انتظامی اور خراب طرز حکمرانی کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے وہ ڈاکٹر صاحب خادم اعلی کی ڈینگی مہم کے ساتھ پنجاب حکومت کی اس گورننس کا پوسٹ مارٹم کررہے تھے جس نے محض نمائشی اقدامات کے باعث سرکاری ملازمین کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے۔ ان کی باتیں سن کر پہلے تو مجھے یہی لگا کہ موصوف چونکہ سرکاری ملازم ہیں اور انہیں اب کام کرنا پڑ رہا ہے اس لئے وہ اپنا غصہ پنجاب حکومت پر نکال کر دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں لیکن نظام حکومت سے متعلق ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی روشنی میں خود تحقیقات کیں تو جو کچھ سامنے آیا اس کی تفصیلات جان کر آپ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ چینی سفیر نے لاہور میں منعقدہ تقریب میں بلاشبہ درست فرمایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو چین میں مین آف ایکشن کہا جاتا ہے۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے متحرک اور انتہائی محنتی وزیر اعلیٰ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں جان لیوا بیماری ڈینگی پیدا کرنے والے مچھروں کے پیچھے اگر کوئی لٹھ لے کر پڑ اہوا ہے تو وہ صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی ہیں۔ باقی تین صوبوں میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن شو مئی قسمت کہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے کام کیا ، ڈینگی کے سب سے زیادہ کیسز بھی پنجاب ہی میں سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں راولپنڈی میں ڈینگی کے 900 سے زائد کیسز سامنے آئے پنجاب کے دیگر اضلاع میں تقریبا 150 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ سال2011 کے بعد اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ڈینگی سے متاثر ہونے نے خادم اعلیٰ کو اس قدر برہم کر دیا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری سمیت چار سے پانچ صوبائی سیکرٹریز کئی دنوں سے راولپنڈی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ای ڈی او ہیلتھ کو تبدیل کر دیا گیا ہے ،پورے محکمہ صحت کی جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور اب لوگوں کے خلاف مقدمے بھی درج کرانا شروع کر دئیے گئے ہیں مگر ڈینگی کم ہونے کی بجائے مزید پھیل رہا ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اسپیشل برانچ نے پنجاب حکومت کو رپورٹ بھجوائی ہے کہ راولپنڈی میں ڈینگی کی وبا پھیلنے کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق ڈینگی کے خاتمے کے لئے راولپنڈی شہر کو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے،ایک ڈاکٹر کو تین سے چار یونین کونسل تفویض کی گئی ہیں۔ اس کے ماتحت گریڈ سترہ کا ایک اسکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزر، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سینیٹری پٹرول ورکرز کام کرتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ان سینیٹری پٹرول ورکرز کو ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی 13 سے 15 ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے عوض کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سینیٹری پٹرول ورکرز کی ٹیمیں بنا کر انہیں مختلف یونین کونسلوں میں بھیج دیا جاتا ہے جو ڈینگی پید اکرنے والے لاروا یا مچھر کی موجودگی کی چیکنگ کرتے ہیں۔ ورکرز لڑکے آئوٹ ڈورجبکہ لڑکیاں ان ڈور سرویلنس کرتی ہیں، ان ٹیموں کے پاس سترہ کالم پر مشتمل ایک پرفارما ہوتا ہے جو چیکنگ کے دوران پر کرتی ہیں۔اس دوران اسکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزر اور ڈاکٹر ان ٹیموں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔سرویلینس ٹیمیں چیکنگ کی رپورٹس بنا کر سپروائزر کو بھیج دیتی ہیںجو ڈاکٹر،ای ڈی او ہیلتھ اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کو بھی ارسال کر دی جاتی ہیں۔ صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک یہ مشق کرنے کے بعد ان ٹیموں کو میٹنگ کے لئے کبھی محکمہ صحت اور کبھی ضلعی انتظامیہ کے دفاتر طلب کر لیا جاتا ہے جہاں انہیں رات کے آٹھ ،نو بج جاتے ہیں۔اس کے بعد چند ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے سینیٹری پٹرول روات اور مری کے دور دراز علاقوں میں واقع اپنے گھروں تک کیسے پہنچتے ہیں،ارباب اختیار کی بلاسے۔ اسی طرح سرویلنس کے دوران اگر کسی گھر میں ڈینگی سے متاثرہ کوئی مریض پایا جائے تو اس گھر کے ارد گرد واقع 48 گھروں میں انسداد ڈینگی کا اسپرے کیا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسپرے کے دوران ڈاکٹرز،سپروائزرزاور متعلقہ یونین کونسلوں کے سیکرٹریز ان موبائل فون کے ذریعے گھروں یا آئوٹ ڈور یونٹس میں اسپرے مہم کی تصاویر بناتے ہیں جو پنجاب حکومت نے انہیں خصوصا اسی مقصد کے لئے دئیے ہیں۔ یہ تصاویر محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کو اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں۔اب روزانہ کی بنیاد پر پرفارماز اور تصاویر پر مشتمل بھیجا جانے والا اتنا زیادہ ڈیٹا کون چیک کرتا ہے اللہ ہی جانے کیوں کہ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ اگر کسی گھر سے پازیٹو رزلٹ ہو یعنی ڈینگی کا لاروا یا مچھر نکل آئے تو اس ڈیٹا کی بنیاد پر ارباب اختیار کی طرف سے آج تک نہ کبھی کوئی اقدام کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی۔ اس ساری مہم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سینیٹری پٹرول لڑکیاں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز لوگوں کے گھروں کے اندر جا تی ہیں جہاں ان کے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے جس کی ذمہ داری کیا پنجاب حکومت لے گی۔ اسی طرح ان سرویلنس ٹیموں کے بھیس میں جرائم پیشہ خواتین کے بھی کسی گھر میں داخل ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ انسداد ڈینگی مہم کے اس طریقہ کار سے لوگوں کی پرائیویسی بھی متاثر ہو رہی ہے جن کے گھروں کی تمام تفصیلات کے ساتھ تصاویر تک لی جا رہی ہیں۔ اس لئے بعض شہری ان ٹیموں کو گھروں میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ جب سرویلنس ٹیموں نے گھروں میں جا کر اہلخانہ سے کہا کہ وہ برتنوں یا حوض میں جمع کیا گیا پانی ضائع کر دیں تو انہیں تلخ باتیں سننا پڑی ہیں کیوں کہ پانی کی سخت کمی کے باعث لوگ کسی طور پانی ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔اسی طرح سرویلنس ٹیموں کو نہ کسی تہوار کی سرکاری تعطیل دی جارہی ہے اور نہ ہی اتوار کی جو بذات خود بنیادی انسانی حقوق اور حتیٰ کہ اسٹا کوڈ کی بھی خلاف ورزی ہے۔اس قربانی کے عوض انہیں اضافی پیسے ملنا تو درکنار ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر نہیں جبکہ ڈینگی مہم کو سپروائز کرنے والے کنٹریکٹ پر بھرتی کئےگئے نیوٹریشن سپر وائزرز کو 9 سال گزر گئے تاحال ریگولر نہیں کیا گیا۔ مزید ظلم یہ کہ ہر سال کنٹریکٹ کی توسیع کے دوران پانچ سے چھ ماہ ان کی تنخواہ بھی بند ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں انسداد ڈینگی مہم سے یہی نتائج نکلیں گے چنانچہ ضروری ہے کہ انسداد ڈینگی کی خامیوں سے بھرپور اس مہم پر توانائیاں اور وسائل ضائع کرنے کی بجائے ترجیحات کا درست تعین کیا جائے۔ نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنایا جائے،عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جائیں۔ کوڑا کرکٹ جمع کرنے اوراٹھانے کا مناسب انتظام کیا جائے،لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے ان کے رویوں میں تبدیلی لانے کے اقدامات کئے جائیں اور سب سے بڑھ کر محکمہ صحت کے ملازمین کی عزت نفس اور بنیادی حقوق کا بھی خیال رکھا جائے تاکہ اپنی اور اہلخانہ کی ذاتی زندگی کو قربان کرنے والا کوئی ڈاکٹر یہ نہ کہے کہ اس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اتنی بد انتظامی اور خراب طرز حکمرانی کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا۔
تازہ ترین