• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمان کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ وہ عمران خان کے کتنے ممنون ہیں۔ اگر عمران خان نہ ہوتے تو کیا وزیر ِاعظم نواز شریف مولانا کی طرف دیکھتے، یا اُن کا ناز نخرہ برداشت کرتے ؟عملیت پسند مولانا کوپتہ ہونا چاہئے کہ اُن پر بے پایاں نعمتوں کی بارش کا باعث کون سا مون سون ہے ؟ حکومت کی نظر میں اُن کی اہمیت کی وجہ صرف عمران خان ہی تو ہیں۔ ن لیگ کے ممبران ِ قومی وصوبائی اسمبلیوں کو اجتماعی طور پر اپنے مقدر کے ستاروں کا مشکور ہونا چاہئے کہ آج عمران خان میدان میں موجود ہیں، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ حکمرانوں کی نگاہ میں اُن کی کیا حیثیت ہے ؟اُنہیں ہر روز ، علی الصبح بنی گالہ کی طرف منہ کرکے عمران کو سلیوٹ مارنا چاہئے ۔۔۔ چلیں دور سے، غائبانہ طور پر ہی سہی۔ یہ عمران ہیں جنہوں نے اُن کی قیادت کی گردن سے سریا نکالا۔ اگروہ میدان میں نہ ہوتے تو پاکستان ایک ایسے ’’جمہوری‘‘ ملک کی طرح ہوتا جس میں کوئی اپوزیشن نہیں، صرف ایک جماعت حکومت کرتی ہے ۔ دانیال عزیز اورطلال چوہدری بھی اگر معاملے کو ٹھنڈے دل سے دیکھنے پر قادر ہوں تو اُن کی اہمیت بھی عمران خان کی وجہ سے ہی ہے ۔ عمران اور اُن پر روزانہ کی بنیاد پر حملے کرنے کی مصروفیت کے بغیر اُنہیں کون خاطر میں لاتا؟ نج کاری کمیشن کے چیئرمین، محمد زبیر کو سیاسی بیانات نہیں دینے چاہئیں، لیکن وہ ہمہ وقت سیاسی بیان بازی کے سوا اور کچھ نہیں کرتے ۔ یہ تینوں ایک مزاحیہ سیاسی ٹیم تشکیل دیتے ہیں۔ محمد زبیر جب بھی منہ کھولتے ہیں، اداہونے والا لفظ ’عمران ‘ کے سواکوئی نہیں ہوتا۔ خداہی جانتا ہے کہ اگر عمران نہ ہوتے تو پھر اُن کا مقصد ِ حیات یا مصرف کیا تھا؟ذرا سوچیں ، کس طرح ایک ذہین شخص اپنے سیاسی ماسٹرز کا ترجمان بن کرر ہ گیا ہے ۔ اُن کے ساتھ ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد میرے دوست، وزیر ِاطلاعات پرویز رشید عمران خان کے بغیر کیا ہوتے ؟اُن کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں، صرف عمران کی وجہ سے ہی سلسلہ ٔ رشد وہدایت جاری ہے۔ وہ اُن کے بارے میں معمول کی باتیں کرتے ہیں، کوئی مضائقہ نہیں،لیکن جس گھڑی ’’عمرانیات ‘‘سے ہٹتے ہیں، وہ سانپ کو رسی سمجھ لیتے ہیں، جیسا کہ ایک انگریزی اخبار کی کہانی۔ کیا اس مذکورہ کہانی سے نریندر مودی کے بیانیے کو پورے زور و شور سے آگے نہیں بڑھایا گیا کہ پاکستان کے دفاعی اور حساس ادارے جہادی تنظیموں کے ہمدرد ہیں؟اس پر بھی شریف برادران کو سمجھ نہیں آئی کہ اسٹیبلشمنٹ اتنی سیخ پا کیوں ہے۔ ایسی کہانی اور پھر ایسی بچگانہ بیان بازی کے بعد وہ کیا توقع کررہے تھے ؟ اب وہ بے سر کے چوزے کی طرح ادھر اُدھر ٹکراتے اور سازش کی بو سونگھتے ہوئے پریشان و تحیر ماندہ۔ اُنہیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ اس کیتلی میں ہاتھ کیوں ڈالا تھا؟ جمہوریت کی دیوی کے سدا بہار فریفتہ، جن میں ’کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں اور ہشیار بھی ہیں‘، اس عفیفہ کے لئے نوحہ کناں ہیں۔ میری دوست عاصمہ جہانگیربھی پریشان، اپنے تازہ ترین بیان میں سیاسی طبقے کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس شاخ کو کاٹنے سے گریز کریں جس پر بیٹھے ہیں۔ جب مس عاصمہ بھی پریشان ہوں تو پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ شریف برادران حقیقی مشکل سے دوچار ہیں۔ وہ آنے والے واقعات کو بھاپنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ اُنہیں سب کچھ دکھائی دیتا ہے سوائے جمہوری حکومت کی لوٹ مار کے ۔ جمہوریت کے ان عاشقان ِ صادق کی پیشانی پاناما انکشافات پر شکن آلود کیوں نہ ہوئی؟اگر ایسا ہوتا تو آج ہم موجودہ پریشانی سے بچ جاتے ۔
دارالحکومت کو بند کرنے کا چیلنج کرنے کے بعد عمران خان کو پریشان دکھائی دینا چاہئے تھا، لیکن وہ روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی اپنی پریس کانفرنسوں میں پرسکون دکھائی دیتے ہیں۔ یہ رویہ ماضی کے عمران سے مختلف ہے جو بات بات پر بھڑک اٹھتا تھا۔ دوسری طرف شہباز شریف کی طرف دیکھیں، وہ جنون میں آپے سے باہر ہیں۔ جب عمران نے اُن پر الزام لگایا کہ جاوید صادق نامی کوئی شخص اُن کا فرنٹ مین ہے جو ایک چینی کمپنی کا نمائندہ ہے جس کے خلاف نائیجریا اور بہت سے دیگر ممالک میں بدعنوانی کے کیسز کی تحقیقات ہورہی ہیں، تو شہباز شریف کے پاس کہنے کے لئے واقعی کچھ نہیں تھا۔ اُنھوں نے مخصوص انداز میں متحرک انگلی کے بے پایاں ارتعاش کے ساتھ اپنے روایتی دفاع کا سہار الیا کہ اگر یہ الزام درست ثابت ہوجاتا ہے تو وہ پتہ نہیں کیا کربیٹھیں گے۔ اس ساتھ ہی ارتعاش میں مزید تیزی دکھائی دی۔ عمران خان نے نہایت پرسکون ٹوئٹ کیا کہ شورمچانے کا مطلب ہے دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ ہمارے ہاں پائے جانے والے جمہوریت کے عشاقان ِ بے بدل جمہوریت کی عجیب وغریب تشریح کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ اور چرائی گئی دولت کا سفر بیرونی ساحلوں کی طرف جاری رہتا ہے ، اور اب یہاں میگا پروجیکٹس کے نام پر بھاری رقوم دن دیہاڑے ادھر سے اُدھر ہورہی ہیں، لیکن آفرین ہے عفیفہ (جمہوریت) کی پاک دامنی پر۔ پاناما انکشافات سامنے آتے ہیں، حکمران خاندان چپ سادھ لیتا ہے ، ساتھ ہی ثناخوان ِ جمہوربھی مہر بلب ہوجاتے ہیں۔ جب ان معاملات کی بابت سوال پوچھا ئے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حساس اداروں کا رچایا ہوا کھیل ہے ۔ کیا جمہوریت میں کوئی احتساب نہیں ہوتا ؟کیا صدر نکسن واٹر گیٹ اسکینڈل سے جمہوریت کے نام پر بچ نکلے تھے ؟ کیاکلنٹن سے مونیکا اسکینڈل کے حوالے سے کوئی باز پرس نہیں ہوئی تھی؟
اگر پاکستانی جمہوریت احتساب کرنے سے عاجز ہے، اگر شریف برادران پاناما پر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیںتو پھر عمران خان یا کسی اور کے پاس کیا متبادل ہے ؟ کتابی سوالات اپنی جگہ پر ، اس وقت ہمارے سامنے ایک حقیقی صورت ِحال بن رہی ہے ۔ جس وقت عمران خان اسلام آبادمیں احتجاجی مظاہرہ کرنے جارہے ہیں، دو مزید عوامل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ایک سپریم کورٹ پاناما لیکس کی سماعت کررہی ہے ، دوسرا ڈان کی کہانی کی وجہ سے فوجی کمان کو تشویش ہے ۔ آپ کو یہ نتیجہ نکالنے کےلئے نجومی ہونے کی ضرورت نہیں کہ حالات کیا رخ اختیار کریںگے۔ پی ٹی آئی لوگوں کو اسلام آباد لانے کے لئے بہت محنت کررہی ہے ۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ دیگر علاقوںسے آنے والے قافلوں کا دبائو اپنی جگہ پر ، لیکن پشاور سے آنے والے پرجوش پشتون اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر خدانخواستہ کہیں تصادم کی نوبت آئی تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اور تیسری طاقت کی مداخلت کا خدشہ حقیقی خطرے کی صورت اختیار کرلے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری طاقت معاملات کو کس انداز میں ڈیل کرے گی اوراُن کا فیصلہ کیا ہوگا؟ایک بات طے ہے کہ سوچنے کا بہت زیادہ وقت نہیں ہوگا، جو بھی کرنا ہے فوری فیصلہ کرنا پڑے گا۔ عدالت میں بھی پاناما پر دی گئی درخواستوں کی سماعت میں التوا نہیں ہوگا، تو کہا جاسکتاہے کہ شاید حتمی فیصلہ عدالت کے ایوانوںسے ہی آئے ۔ اگر ایسا نہ ہواتو پھر معاملات ایک اور سمت بڑھ جائیں گے ۔ فوج کے انتہائی مقبول کمانڈرانتیس نومبر تک بے دست وپا نہیں ہیں۔ اگر حالات بگڑ گئے تو پھر شاید شب خون تو نہ دیکھنے میں آئے لیکن جنرل وحید کاکڑ کا فارمولہ آزمایا جاسکتا ہے ۔ جنرل وحید کاکڑ نے بھی بے نظیر بھٹو سے توسیع نہیں لی تھی اور اپنے وقت پر گھر چلے گئے تھے ۔ کیا پتہ ہم تاریخ کو دہراتے دیکھیں۔


.
تازہ ترین