• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2نومبر کے D-Day (فیصلہ کن مرحلے) سے پانچ دن پہلے ہی سیاسی درجہ حرارت ابلنے کے مقام تک آ پہنچا ہے، اگر یہ آخری معرکہ نہ ہو تب بھی آخری معرکہ عین اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ آج کے سیاسی منظرنامے پر دو ہی فریق ہیں، ایک تحریک انصاف، دوسرے میاں نواز شریف اور ان کی حکومت، باقی سیاسی جماعتیں غیرمتعلق ہو گئی ہیں یا ’’شامل باجا‘‘۔ میاں صاحب کو اپنے تین ادوار حکومت اور 35سالہ سیاسی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان درپیش ہے۔ 2014ء کے دھرنے کو ناکام بنانے والے یہ نہیں جانتے کہ موجودہ مرحلہ اس کی توسیع ہے۔ آج بغیر کسی کی مدد اور بیساکھی کے فیصلہ کن مرحلے کا آخری سالار ہے۔ 35سال میں جو کچھ بویا اب وہی کاٹنے کا وقت ہے۔ کہتے ہیں’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘ (اپنی کرنی آپ ہی بھرنی)، پانامہ کے افشائے راز(Leak) سے نکل نہیں پائے تھے کہ دوسری Leak نے آن دبوچا، پاناما لیکس دراصل چھپائی گئی غیرقانونی دولت کا افشائے راز تھا جو اخبار نویسوں کی عالمی تنظیم نے کیا، جس سے دنیا بھر کے بدعنوان حکمرانوں کے ایوان لرز اٹھے۔ پاکستان میں حکمرانوں کی اس دولت اور باہر لے جانے کے ذریعے کو معلوم کرنے کیلئے قابل اعتماد عدالتی ذریعے سے تفتیش کا مطالبہ ہونے لگا۔ اس مطالبے کا ہراول عمران خان تھے، شروع میں وزیراعظم اس مطالبے پر زیادہ گھبرائے ہوئے تھے، پھر وزیر دفاع نے کہا ’’جناب گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ قوم بڑی زود فراموش ہے‘‘ جلد ہی سب بھول جائے گی۔‘‘ اس پر کچھ ڈھارس بندھی لیکن عمران خان نے یوں شور اٹھایا کہ عوام بھولتے کیا، جو اَن پڑھ اور لاعلم تھے وہ بھی جان گئے، احتجاجی جلسے پُررونق ہوتے گئے۔ اس مصیبت سے نکلنے، میڈیا اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے خود ساختہ ’’لیک‘‘ کر ڈالی، اپنے ہی مقتدر اداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس طرح 1999ء میں عالمی اخبارات میں ’’روگ آرمی‘‘ کے اشتہارات چھپوانے گئے تھے۔ سیّد مودودی فرمایا کرتے تھے ’’ہوشیار کوا دونوں ٹانگوں سے پکڑا جاتا ہے‘‘ وہی ہوا کہ کپتان کے مطالبات سے جان چھوٹ نہیں پائی تھی کہ فوج نے بھی ’’سازش لیک‘‘ کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کر دیا، اب ہوشیار کوا دو ٹانگوں سے پکڑا تو گیا ہے مگر ایک ٹانگ کھلاڑی کے ہاتھ میں ہے تو دوسری شکاری کے ہاتھ۔حکومت کے پاس عمران خان کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے دو طریقے ہو سکتے ہیں، ایک سیاسی دوسرا انتظامی۔ سیاسی ذریعے کو 2014ء میں کامیابی کے ساتھ مگر بے دریغ استعمال کر چکے ہیں، اب یہ ذریعہ پہلے کے مقابلے میں محدود، کمزور اور بے اثر ہو چکا ہے، اب ان کے پاس ایک ہی ذریعہ اور آخری آپشن بچ رہا، وہ ہے حکومت کی انتظامیہ، جس کی طاقت استعمال کر کے پہلے عمران سے جان چھڑائیں، بعد میں دوسرے فریق سے کچھ چالاکی، کچھ معافی کے ذریعے تلافی کی کوشش کی جائے۔ انتظامی ذرائع میں ان کے پاس پنجاب پولیس، اسلام آباد حکومت کے معاون ادارے یا پنجاب کی ضلعی انتظامیہ جس کا بے دریغ استعمال شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کہتی ہے کہ یہ ذریعہ کسی حکومت کو بچا نہیں سکا بلکہ جو حکمرانی سیاسی ذرائع اور مذاکرات سے کچھ عرصہ کیلئے بچائی جا سکتی تھی، وہ بھی انتظامیہ کی بھونڈی کارکردگی کی نذر ہو گئی، فوج جو آڑے وقت حکومت کے کام آ سکتی تھی وہ پہلے ہی جمہوری حکومت کے خفیہ ہتھیار کی زخم خوردہ ہے۔ اب عمران خان کی تحریک انصاف اور نواز شریف کی سرکار ایک دوسرے کے سامنے ہیں، دیکھئے! کون کس پر بھاری پڑتا ہے۔
میاں صاحب کو اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا بحران درپیش ہے، ان کی سیاست اور ساکھ دونوں دائو پر لگی ہیں، آنے والے دنوں میں حکومت کے اقدامات، خان کے ارادے کیا ہوں گے؟ حکومت جو کر سکتی ہے وہ قدم اس نے اٹھا لیا۔ فوج کے سربراہ مفاہمت یا مدد کی درخواست کے علاوہ ان کی ساری کوشش اور منصوبہ بندی کا محور پنجاب پولیس اور مرکزی انتظامیہ کی جابرانہ طاقت کا جارحانہ استعمال ہے، جس کی پہلی جھلک جمعرات کی شام نظر آنے لگی ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کا گھر کی دہلیز پر تعاقب اور ہر ہر قدم پر رکاوٹ کھڑی کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ہر شہر اور قصبے کے مقامی رہنمائوں اور متحرک کارکنوں کی فہرستیں بنا لی گئی ہیں، جمعرات کی رات سے پنجاب بھر میں ان کی گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں، اب کارکن گرفتار ہوں گے یا چھپ جائیں گے، دونوں صورتوں میں وہ اسلام آباد جانے والے کارکنوں سے رابطہ کر سکیں گے نہ ہی ان کیلئے سفر کے انتظام کر پائیں گے، پنجاب بھر میں محکمہ ٹرانسپورٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز، بسوں، ویگنوں کے مالکان کو پابند کریں کہ یکم نومبر سے کوئی ٹرانسپورٹ اسلام آباد کی طرف جانے کیلئے سڑک پر نہیں آئے گی۔ ملز مالکان اور کاروباری لوگوں کو محکمہ ایکسائز کے افسران کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی فیکٹری میں حاضری یقینی بنائیں، اپنی ٹرانسپورٹ اور منی ٹرک فیکٹریوں میں کھڑی رکھیں تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی ٹرانسپورٹ تحریک انصاف کو نہیں دی گئی۔ ٹریفک پولیس کو حکم دیا گیا کہ موٹروے یا دوسری شاہراہیں جو راولپنڈی، اسلام آباد کی طرف جاتی ہیں، کوئی کار جس میں دو سے زیادہ افراد سوار ہوں، انہیں سفر جاری رکھنے کی اجازت نہ دیں۔ ہر ضلع کی حدود میں ناکے لگا دیئے جائیں گے تاکہ چھوٹی سڑکوں اور کچے راستوں سے آنے والوں کو بھی روکا جا سکے۔ چھوٹے بڑے ہوٹل، گیسٹ ہائوسز کو پابند کر دیا گیا ہے کہ غیرملکی مہمانوں کے علاوہ کسی کو کمرے کرایہ پر نہ دیئے جائیں، تحریک انصاف اسلام آباد، راولپنڈی کے کارکنوں کے گھروں کی نگرانی کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ قبل از وقت آنے والے کارکن ان گھروں میں قیام نہ کر سکیں۔ کھانے پینے والی اشیاء کی زیادہ سپلائی ممکن نہ ہوگی، چھوٹے ریسٹورنٹ، تنور اور کیٹرنگ کرنے والوں کو پہلے ہی وارننگ دی جا چکی ہے۔ اسلام آباد شہر میں داخلے کے تمام راستوں کو بھاری کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھ ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہوگی۔ عمران خان اور مرکزی قیادت کو نظربند کر دیا جائے گا، مختصر یہ کہ گھر کی دہلیز سے اسلام آباد تک رکاوٹیں ہوں گی، شہر کو اس طرح سیل کر دیا جائے گا کہ کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ کھانے اور پینے کے ذرائع کی نگرانی کی جائے گی۔ اسلام آباد کو پنجاب اور آزاد کشمیر کی پولیس، ایف سی اور رینجرز کی نفری دستیاب ہوگی، شہر کو عمران خان سے پہلے حکومت خود ہی بند کر دے گی۔ آج ہر کوئی کھلی آنکھوں دیکھ سکتا ہے کہ ’’حکومت کی بوکھلاہٹ آخری حد کو چھو رہی ہے‘‘۔
اسلام آباد تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن میں جو کچھ سب نے دیکھا یہ ملک کی مہذب ترین پولیس کا ردعمل تھا، ابھی تو پنجاب پولیس کو بھگتنا ہے، دس بیس بندے ہلاک کر کے جن کے ماتھے پر پسینہ تک نہیں آتا۔ عمران خان نے کارکنوں کو ہدایت کی تھی کہ جن کیلئے ممکن ہو وہ وقت سے پہلے اسلام آباد آ جائیں، باقی شہروں سے قافلے کی صورت میں نکلیں تاکہ راستے میں پولیس ان کو روک نہ سکے، اب ٹرانسپورٹ دستیاب ہوگی، نہ پٹرول پمپ کھلا ہوگا تو قافلے کس طرح نکل پائیں گے؟
پنجاب حکومت کے یہ اقدامات مؤثر ہو جاتے ہیں، تب بھی خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر سے آنے والے قافلوں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا، موٹر وے اور اٹک پل پر رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے ان کے پاس ’’کرین‘‘ ہوگی، کے پی اور آزاد کشمیر کے قافلوں کے ساتھ پنجاب پولیس کا تصادم بہت خطرناک ہوگا، خصوصاً جب راولپنڈی اور گردونواح کے لوگ بھی ان کے ساتھ آن ملیں گے۔
رکاوٹیں مؤثر ہونے کی صورت میں خان کے پاس پلان ’بی‘‘ تیار ہے، وہ گرفتار کارکنوں اور لیڈروں کی رہائی کے ساتھ ہی نئی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ اب کی بار پنجاب میں ملتان، فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ گلگت اور مظفر آباد بند کرنے کا پروگرام ہو سکتا ہے۔ پہلے حکومت نے پہیہ جام کیا تھا، اب تحریک انصاف کرے گی، ہر زون کے لوگ متعلقہ شہر پہنچ کر احتجاج کریں گے جس سے راستے بند اور پہیہ جام ہو جائے گا، تحریک کا پھیلائو اس قدر ہوگا کہ پنجاب کی پولیس اور حکومت کے ذرائع یہیں پر خرچ ہو جائیں گے، پھر اسلام آباد حکومت کے ساتھ کے پی، آزاد کشمیر، راولپنڈی، اٹک، جہلم، گجرات، میانوالی، سرگودھا کے کارکن نمٹ لیں گے۔ عمران خان بذریعہ ہیلی کاپٹر دورہ کر کے ہر شہر میں احتجاجی کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ کوئی دائو پیچ لڑائے یا پیچ و تاب کھائے، آنے والے دن ڈرائونا خواب ہیں۔


.
تازہ ترین