• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کے حلقہ 122کا ضمنی انتخاب دونوں کیلئے سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے بقول ، مقابلہ سردار ایاز صادق اور عبدالعلیم خاں میں نہیں،نوازشریف اور عمران خاں کے درمیان ہے، جو 2002ءاور2013ءمیں یہاں سے سردار ایاز صادق کے مقابل شکست کھا چکے ۔2002ءمیں تو ڈکٹیٹر کی ہمدردیاں بھی عمران خان کے ساتھ تھیں۔ اگرچہ الیکشن سے قبل، دونوں کے تعلقات میں دراڑ پڑچکی تھی کہ ڈکٹیٹر ، عمران خاں کو وزیراعظم بنانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا تھا۔ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق الیکشن میں کپتان(اور اس کی تحریک ِ انصاف تمام تر سرکاری سرپرستی کے باوجود ڈکٹیٹر کی حسبِ منشااورحسبِ ضرورت ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکی تھی، چنانچہ اس نے مسلم لیگ پر کاری وار کر کے اس میں سے ’’قاف لیگ‘‘ نکال لی۔میاں اظہر ، خورشید محمود قصوری، کرنل(ر) سرورچیمہ اور عابدہ حسین وغیرہ پر مشتمل ’’ہم خیال گروپ‘‘ تو12اکتوبر سے اگلے روز ہی وجود میں آچکا تھا۔ یہ سب بھی قاف لیگ میں شامل ہوگئے اور یوں electablesکی خاطر خواہ تعداد ڈکٹیٹر کی چھتری تلے جمع ہوگئی۔ ایجنسیوں کی رپورٹیں ایسی غلط بھی نہ تھیں، کپتان پورے ملک سے ایک ہی سیٹ نکال پایا تھا اور وہ بھی اپنے آبائی علاقے میانوالی سے۔لاہور کے حلقہ 122میں ڈکٹیٹر کا معاملہ ’’بغضِ معاویہ‘‘ والا تھا کہ اِسے لاہور میں نوازشریف کے کسی اُمیدوار کی کامیابی ناقابلِ قبول تھی۔ چنانچہ عمران خان سے پہلے جیسے پُرجوش تعلقات نہ ہونے کے باوجود اس کی ہمدردیاں، ایازصادق کے مقابلے میں عمران خاں کے ساتھ تھیں۔ (اور ظاہر ہے ، یہ ہمدردیاں خالی خولی نہیں، بلکہ تمام تر سرکاری اثرو رسوخ کے ساتھ تھیں) اس کے باوجود ایازصادق اس شان سے جیتا کہ اس کے ووٹ، عمران خاں سے دوگنا تھے۔ (ایاز، 37531، عمران 18636) 2008 ءکے الیکشن کا عمران نے بائیکاٹ کیا، 2013ء میں ایازصادق کی لیڈ 9ہزار کے قریب تھی(ایاز 93389، عمران84517)۔ الیکشن سے تین روز پہلے عمران خاں کے زخمی ہوجانے کے باعث ، اس میں ہمدردی کا ووٹ بھی شامل ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کے ووٹر کیلئے بھی، مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں تحریک ِ انصاف کم تر برائی تھی، چنانچہ جیالوں کی بڑی تعداد نے بھی ’’بلّے ‘‘ کا انتخاب کیا کہ ان کے خیال میں ’’تیر‘‘ کو ووٹ دینا ، ووٹ ضائع کرنے کے مترادف تھا جس کا فائدہ ایازصادق کو پہنچتا۔
قارئین سے معذرت کہ بات ماضی میں دور تک چلی گئی۔ اب عمران خاں کی پٹیشن پر الیکشن ٹریبونل نے ’’دھاندلیوں ‘‘ کی بنیاد پر نہیں، ’’بے ضابطگیوں ‘‘ کی بنیاد پر 11مئی کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا ہے۔ ’’تھیلے‘‘ کھولے جائیں تو ایسی بے ضابطگیاں کم وبیش ہر حلقے میں سامنے آئیں گی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کے حلقہ 56میں بھی ایسی 58بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں حنیف عباسی کے مقابلے میں عمران خاں صرف13ہزار ووٹوں سے جیتے(یہاں صوبائی اسمبلی کے حلقہ14میں مسلم لیگی اُمیدوار 4ہزار ووٹوں کی سبقت سے جیتااور صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقے میں مسلم لیگ صرف تین ہزار ووٹوں سے ہاری)۔ حلقہ 122کا الیکشن عمران خاں کی پٹیشن پر کالعدم ہوا تو یہ توقع بے جا نہ تھی کہ ضمنی انتخاب میں عمران دوبارہ بھی خود میدان میں آتے، لیکن ظاہر ہے ، اس کیلئے وہ پہلے پنڈی والی نشست سے استعفیٰ دیتے لیکن اس کی ضمانت کون دیتا کہ ضمنی انتخاب میں تحریکِ انصاف وہاں سے جیت جائے گی اور لاہور میں بھی اگرچہ معرکہ کہیں زیادہ زور دار ہوجاتا لیکن سوفیصد فتح کا یقین تو یہاں بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اب علیم خاں ، ایازصادق کے مقابل ہیں اور براہِ راست مدمقابل نہ ہوتے ہوئے بھی، عمران خاں نے خود کو اصل مدمقابل بنادیا اور اس کیلئے سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ یہاں تک کہ ریحام خاں بھی دوبارہ سیاست میں آگئی ہیں ، تحریک ِ انصاف کی سیاست سے جن کی لاتعلقی کا اعلان خود عمران نے ساری دُنیا کے سامنے کیا تھا۔ ان ہی دِنوں ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند ہونے کی خبریں بھی آئیں(کہ وہ سیاسی ٹوئٹ نہ کرسکیں)۔انہی دِنوں ایک باخبرصحافی نے دونوں کے مابین کشیدگی کے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جانے کی خبر بھی دی(دونوں کی شادی کی بریکنگ نیوز بھی ان ہی نے دی تھی)۔ کپتان سے بیس بائیس سالہ گہری دوستی کے دعویدار بزرگ کالم نگار/تجزیہ کار کے بقول(سیاست سے ریحام خاں کی علیحدگی پر)’’ میاں بیوی میں مباحثہ جاری رہتا ہے۔ خان اب ضرورت سے زیادہ محتاط ہے کہ اخبار نویس بال کی کھال اُتارتے اور اعتراض اُٹھانے والے زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اس کی ترجیح چنانچہ یہ ہے کہ بیگم پارٹی اور سیاست سے الگ تھلگ رہیں۔ گمان یہ بھی ہے کہ جو بحث برپارہتی ہے، ان میں سے کوئی ایک اپنے کسی ذاتی دوست سے اس پر تبادلۂ خیال کرتا ہے، ظاہر ہے مشورہ کرنے کی غرض سے۔ اس’’ذریعے‘‘ تک بعض اخبار نویسوں کی رسائی ہے چنانچہ وہ دُم سے ہاتھی بنا لیتے ہیں‘‘۔ وہ جو کہتے ہیں، بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا، چنانچہ حلقہ 122کے فیصلہ کن معرکے میں، کپتان کو ریحام خاں کی سیاست سے علیحدگی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی جسے میڈیا کے ایک حصے نے’’کپتان کا ایک اور یوٹرن‘‘کا عنوان دے دیا۔
اتوار کی شام سمن آباد کے ڈونگی گراؤنڈ میں یہ علیم خاں کی انتخابی مہم کا نقطہ عروج تھاجس پر پرویز رشید کا دلچسپ تبصرہ تھا، 2سال میں عمران خاں کی سیاست مینارِ پاکستان سے اتر کر ڈونگی گراؤنڈ میں آگئی۔ یہ ڈونگی گرائونڈ رقبے کے لحاظ سے اچھی خاصا ہے لیکن یہ کوئی جلسہ گاہ نہیں۔ ہمیں یاد ہے، 9مئی2013 ءکی شب، انتخابی مہم کا آخری جلسہ میاں صاحب نے یہیں کیا تھا۔ (عمران کے زخمی ہونے کے بعدان سے اظہار ِ ہمدردی کیلئے میاں صاحب کے حکم پر ایک روز تک سارے ملک میں مسلم لیگ(ن) نے انتخابی مہم بند رکھی تھی)۔
میاں صاحب کاوہ جلسہ خالص اس علاقے کا جلسہ تھا کہ بارہ بجے شب ملک بھر میں انتخابی مہم ختم ہوجانا تھی اور تمام اُمیدوار اور ان کے کارکن اپنے اپنے حلقے میں آخری زور لگارہے تھے لیکن اتوار کی شام ڈونگی گراؤنڈ کے جلسے کا معاملہ مختلف تھا۔ پورے لاہور سے ہی نہیں، بلکہ قرب وجوار کے شہروں سے بھی عمران خاں کے ’’ٹائیگرز‘‘اور ’’ٹائیگریسز‘‘ پورے جوش وخروش کے ساتھ موجود تھے۔ عمران خاں ڈیڑھ ، دوسال تک دھاندلی کے جو الزامات لگاتے رہے تھے(سیٹھی صاحب کے 35پنکچرز سے لے کر اُردو بازار سے جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی تک) چیف جسٹس ناصرالملک کی زیرقیادت جوڈیشل کمیشن میں عبدالحفیظ پیرزادہ (مرحوم) نے ان میں سے کوئی الزام عائد نہ کیا، کہ ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ کمیشن نے منظم دھاندلی اور عوام کا مینڈیٹ چرانے کا الزام بھی مسترد کردیا تھا۔ خود الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں میں بھی دھاندلی کی نہیں، بے ضابطگیوں کی بات کی گئی ہے لیکن ڈونگی گراؤنڈ کے جلسے میں کپتان پھر دھاندلی کا رونارورہا تھا۔ اُنہوں نے مسلم لیگ پر’’اسٹے آرڈرلیگ‘‘ کی پھبتی کسی، اس کا جواب مسلم لیگ کی طرف سے آچکا کہ خود کپتان کے نصف درجن کے لگ بھگ ارکانِ اسمبلی اسٹے آرڈر پر ہیں، اور یہ بھی کہ اسٹے آرڈر حکومت نہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت جاری کرتی ہے۔ لودھراں کے اسٹے آرڈر کا معاملہ تو اس لحاظ سے اور بھی دلچسپ تھا کہ اس کے ذمہ دار خود جہانگیر ترین کے وکیل تھے۔ صدیق بلوچ جعلی ڈگری کے الزام میں عمر بھر کیلئے نااہل قرار پائے تو اپنی صفائی پیش کرنا اُن کا آئینی حق تھا جس کے خلاف وہ 8ستمبر کو سپریم کورٹ میں گئے۔ 20روز بعدبھی(اس دوران یہ تیسری پیشی تھی) ترین صاحب کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں دلائل کیلئے وقت چاہئے۔ سہ رُکنی بنچ کے عزت مآب سربراہ نے اگلے دِن تک التوا کی’’ پیشکش ‘‘کی، فاضل وکیل نے مزیدکیلئے استدعا کی تو اُنہوں نے ایک ہفتے کا وقت دینے کی بات کی تاکہ 11اکتوبر کے الیکشن سے پہلے اس کا فیصلہ ہوسکے لیکن ترین صاحب کے وکیل الیکشن کے بعد کی تاریخ مانگ رہے تھے۔ فاضل جسٹس کا کہنا تھا ،’’ ہم تو آج ہی آپ کے دلائل سن کر فیصلہ کرنا چاہتے تھے لیکن آپ اس کیلئے تیار نہیں، پھر شکایت کی جاتی ہے کہ عدالتیں اسٹے آرڈر کیوں دے دیتی ہیں‘‘؟جج صاحب کی بات مبنی برانصاف تھی۔ کیا الیکشن کوئی گڈی گڈے کا کھیل ہے؟ اس پر لاکھوں (بلکہ کروڑوں)روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ڈھیروں وقت لگتا ہے، بے پناہ وسائل بروئے کار آتے ہیں۔ تو اس کا فیصلہ 11اکتوبرسے پہلے کیوں نہ ہو؟
اور ہاں! یہ خود حامد خاں نے کیا کہہ دیا؟ عمران خاں کے نام ایک ای میل میں ممتاز قانون دان(جو تحریکِ انصاف کے سینئر نائب صدر بھی رہے) کا کہنا تھا، سپریم کورٹ نے این اے 154 کے حوالے سے جو ااسٹے آرڈر دیا اس کے ذمہ دار خود جہانگیر ترین کے وکیل ہیں۔ ججوں کوتو حقائق کے مطابق ہی فیصلہ کرنا تھا۔
تازہ ترین