• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حلقہ 122این اے کے ضمنی انتخاب نے صوبائی دارالحکومت ہی نہیں پورے ملک کی مجموعی سیاسی فضا میں ذہنی تشنج کی سی کیفیت پیدا کررکھی ہے۔ پاکستان کے حالات، نواز شریف حکومت کے مستقبل ا ور شہباز شریف کے طرز حکومت جیسے حوالوں سے ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات کے صفحات پرخیالات و آراء کا ایک سیلاب بہہ رہا ہے ۔11اکتوبر 2015ء کا دن مسلم لیگ’’ن‘‘ اور تحریک انصاف، دونوں میں سے کس کو سرفراز اور کس کو خوار کرتا ہے اس کے سلسلے میں انسانی اندازوں سے باہر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، علیم و خبیر ذات ہی حتمی نتیجے کا علم رکھتی ہے۔ ماحول البتہ بے حد تشویشناک ، لوگ اس ضمنی انتخاب کے خیر خیریت سے گزرنے کی دعائیں کررہے ہیں چاہے قرعہ فال کسی کے نام بھی پڑے۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی حکومتوں کےمثبت اقدامات کے تذکرے یا اعتراف کا باب تقریباً بند ہوچکا ہے۔ ہم ہر وقت ا پنے مخالف حکمران کو زیر و ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں، رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا کا اجتماعی طرز عمل پوری کردیتا ہے۔ شب و روز ہمارے ملک میں اس رویے کا راج ہے، ایسا لگتا ہے۔اس دنیا کےپیدا شدہ’’ گناہگاروں‘‘ میں ’’پاکستانی سیاستدان‘‘ سے بڑا گنہگار اور’’پاکستانی سیاسی حکومتوں‘‘ سے’’بڑی خطا کار حکومتیں‘‘ وجود میں نہیں آئیں اور نہ تا قیامت ایسا کوئی وقوعہ ہونے کا امکان ہے۔
ہفتہ دس دن کی بات ہے بے حد محترم و عزیز ترین ہستی کے دولت کدے پر دوست ا حباب کا ایک دل نشیں اجتماع تھا، ایک مرحلے پر خاکسار نے عرض کیا’’سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے تاریخی کارنامے 1122اور صوبہ پنجاب کے اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کا نظام بدلنے میں ان کی خدمات سے کوئی ہوش مند شخص انکار کرسکتا ہے؟ یہ محض دو مثالیں ہیں دسیوں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔ ہم سب کو سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے احتساب کے نام پر’’ملت اسلامیہ کی تیرہ چودہ سو برس کی خامیوں اور زوال کا بار‘‘ صرف پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں پر ڈالنے کے اس ناقابل تلافی مریضانہ رویے سے خود بھی رک جانا چاہئے، جن لوگوں کا دال دلیہ یا دنیاوی منصوبے سازوں کی چکر بازیوں کو ان حیلوں سے غذا اور زندگی ملتی ہے انہیں بھی باز رکھنے کی اپنی سی ہر کوشش کر دیکھنی ہوگی، پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کے معاملے میں جس انتہا پسندی کا کھلواڑکیا جارہا ہے وہ اس بچے کھچے ملک کی سلامتی کی پیشانی پر بدقسمتی کے سرخ نشان کا روپ اختیار کرتا جارہا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب نواز شریف نے موٹر وے منصوبے کا آغاز کیا ، ابھی نامکمل ہی تھا، مکمل ہونے سے پہلے ہی اقتدار سے فارغ کردئیے گئے، دوسری بار حکومت ملنے پر ادھوری موٹر وے کی تکمیل کا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں پر ادھورا رہ گیا تھا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جناب حسین حقانی نواز شریف صاحب سے علیحدگی اختیار کرکے بی بی شہید کی قیادت قبول کرچکے تھے۔ آپ سب غالباً اس امر سے آگاہ ہوں گے، وطن سے ’’ہجرت‘‘ پر مجبور کردئیے جانے والے حسین حقانی کی جن قلمکاروں نے فیصلہ کن حمایت کی اور آج بھی ان کے پاکستانی حق کی جنگ لڑنے پر ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں ، عاجز غالباً ان میں سرفہرست ہے۔ موٹر وے کے پس منظر میں ان کا ریکارڈ مجھے نہ صرف کبھی بھولتا نہیں الٹا جب بھی یاد آئے انتہائی ڈپریشن میں بھی بے ساختہ مسکراہٹ روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان دنوں جناب حقانی کا ایک ہی کام تھا، پیمانہ ہاتھ میں لئے رکھنا، کسی نہ کسی طرح روز صبح موٹر وے کی پیمائش کرکےقوم کو یہ بتا بتا کر ہلکان کرنا کہ ’’چھ لینوں‘‘ کے یہ نقصانات ہیں،’’چار لینوں‘‘ کے یہ’’فائدے ہیں‘‘ ، یہ نواز حکومت مملکت پاکستان کی دھرتی پر جس طرح کی موٹر وے بنا رہی ہے وہ ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کردے گی، پاکستانی عوام پہلے ہی اپنے احوال کے بوجھ تلے پسے ہوئے ہیں۔ وہ تو بالکل ہی کچلے جائینگے وغیرہ وغیرہ اور مزید بھی وغیرہ ہی!لیکن حضرات موٹر وے مکمل ہوگئی، آج جنوبی ایشیا کی خط سازی کے تمام نشیب و فراز کے متشکل کرنے یا ہونے میں، اس موٹر وے کے صدقے پاکستان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجلس میں خاکسار کی گفتگو کچھ طویل ہوگئی مگر اپنی بات ختم کرتے کرتے عاجز موجودہ پنجاب حکومت کے موضوع پر بھی چند جملے کہے بغیر نہ رہ سکا، میں نے شرکائے مجلس سے سوال کیا ’’بلا کسی ذاتی تعصب یامخالفانہ کیفیت کے ، یہ بتائیں لاہور شہر کا آبادی کے بڑھائو اور ٹریفک کے دبائو کے باعث جو حال ہوگیا تھا، کیا اس میں بندے کا بندے پر پائوں رکھ کر چلنے کا اندیشہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے، میٹرو بس آخر کون سا جرم ہے جس کے باعث پاکستانی عوام کے’’جہنموں‘‘کی تعداد گننا بھی مشکل ہوجائے گا، کیا یہ میٹرو بس نہ ہونے سے پیپلز پارٹی کی حکومت یا ن لیگ کی حکومت دہشت گردوں کا نام و نشان مٹادیتی یا پاکستان میں عدل و انصاف اور تھانوں میں انسانیت کے دریا بہنے لگتے؟ ایسا کچھ نہیں ہونا تھا البتہ لاہور میں اس کے چل جانے ، سڑکوں ا ور بائی پاسز کا جال بچھ جانے سے بندے پہ بندے کا پائوں رکھ کر چلنے کی قیامت ٹل چکی ہے۔ ہمیں اپنی تنقید اور احتساب کے خطوط متوازی رکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی، تنقید اور احتساب کوسوئیوںکا گچھا بنانے کی ضرورت نہیں جس کے بعد مسائل کی ترتیب اور جائزے کے امکانات ہی معدوم ہوجائیں‘‘!
پاکستان میں’’بے روزگاری‘‘ کا جنازہ پڑھنے،’’رسم قل‘‘ اور’’رسم چہلم‘‘ ادا کرنے کے معاملے میں کسی دوسرے مسلمان ملک کا مسلمان معاشرہ ہمارے مقابلے میں پاسنگ بھی نہیں، جب سیاستدان اور سیاسی حکومتیں بے روزگاری کے جن کو قابو کرنے میں واقعی کوئی حیرت ا نگیز اقدامات کرتی ہیں ، ہم ان کی نفی کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے بلکہ فوراً ہی ان اقدامات کے ’’جنازے‘‘ اٹھانے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے اسکے ادارے ٹیوٹا(ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی) کا لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر عرفان قیصر شیخ کو چیئرمین لگایا گیا، عرفان قیصر شیخ کی تعیناتی شہباز شریف کی پالیسی، دور جدید میں کارپوریٹ سیکٹر کے ارتقائی اصولوں کی بنیاد پر ہوئی، انہیں اس ادارے کے چیئرمین کا منصب سنبھالے دس ماہ ہونے کو ہیں، باقی چھوڑیں جو کارکردگی سامنے آئی اس کے تین پہلو پیش کئے جاتے ہیں۔اولاً انہوں نے استاد شاگرد پروگرام شروع کیا ، مارکیٹ میں موجود ہنرمندوں کو ان کی صلاحیت اور استعداد کار کے مطابق سرٹیفکیٹ جاری کرکے بے روزگاری کے عفریت پر قابو پانے کی کوشش ہورہی ہے۔ دوسرے گزشتہ دنوں ٹیوٹا اور محکمہ داخلہ کے درمیان صوبہ بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو ہنر مند بنانے کیلئے معاہدہ ہوا جس کے مطابق 6400قیدیوں کو 13مختلف جیلوں میں سالانہ مفت فنی تربیت فراہم کی جائے گی۔ ان دس ماہ کے دوران ہی میں عرفان قیصر شیخ نے اپنے ادارے کی جانب سے ڈاکٹر امجد ثاقب کی فلاحی تنظیم ’’اخوت‘‘ کو 50کروڑ روپے فراہم کئے جن سے بے روزگار ہنر مند اور غیر ہنر افراد اپنے ذاتی کاروبار شروع کرسکیں گے۔
چیئرمین ٹیوٹا عرفان قیصر شیخ کی مثال ہی نہیں، پنجاب حکومت نے عورتوں، علاج معالجے، شہر میں صفائی کے انتظامات، طلبا و طالبات کیلئے وظائف سمیت ایسے متعدد اقدامات کئے جن کے ریاستی عمل کا حصہ بن جانے سے مجموعی طور پر معاشرتی ارتقاء کو موثر ترین مہمیز ملے گی۔
خدمات تو پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی گنوائی جاسکتی ہیں، فی ا لحال کالم کی طوالت اس کی متحمل نہیں، ایک ایٹم بم ہی کافی ہے، آج پوری دنیا میں ہر اکڑ فوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوسکتے ہو، کہنے کا مقصد سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کو کلین چٹ دینا ہرگز نہیں، ہاں! انہیں شیطان کا انگوٹھا ،ثابت کرنے کی انسانیت سوز مہم کے غیر اخلاقی فلسفے اور فکر کی سوفیصد مذمت کرنا ضرور مقصود ہے، ابھی صرف عرفان قیصر شیخ کی مثال دی گئی، میں ان دونوں جماعتوں کی حقیقی قومی خدمات اور قومی مقاصد کیلئے عرفان قیصر شیخ کی طرح کے بیسیوں دیگر اہل ترین محب وطن شخصیات کے کارناموں کی داستانوں پہ داستانیں بیان کرسکتا ہوں، یہ سب سیاسی جماعتوں کی نرسریوں میں پروان چڑھے اور تمام دھوپ چھائوں کے باوجودجہاں تک ممکن ہوسکا ملک کو گل و گلزار بناتے رہے!
تازہ ترین