• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
این اے ایک سو بائیس کا ضمنی انتخاب اب صرف ایک ضمنی انتخاب نہیں رہا، بلکہ یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین اور رنگین ہو گیاہے۔ اسے ملک کی سب سے بڑی دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان ڈھائی سال سے ہونے والی مسلسل جنگ کا فائنل رائونڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس ایک انتخاب میں دونوں جماعتوں کا ماضی بھی پوشیدہ ہے اور مستقبل بھی اسی انتخاب میں مضمر ہے۔یہ دو جماعتیں اپنی تمام تر قوت کا استعمال اسی حلقے میں کر رہی ہیں۔ دونوں کی اعلیٰ ترین قیادت اس انتخابی مہم میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہے۔ عمران خان کو بہرحال یہ فائدہ ہے کہ کسی حکومتی عہدے پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود اس مہم میں براہ راست حصہ لے سکتے ہیں جب کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس سہولت سے محروم ہیں۔اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ وہ اس مہم میں حصہ نہیں لے رہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں میٹنگز تک محدود ہیں ۔ جلسے ، جلوسوں کا اختیار ان کے پاس نہیں۔ حکومت کی جانب سے خواجہ سعد رفیق، ضعیم قادری، مریم نوازاور حمزہ شہباز پوری طرح لیس ہو کر ایاز صادق کی حمایت میں میدان میں اترے ہیں۔دوسری جانب علیم خان کی حمایت کیلئے خود خان صاحب ، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید جہانگیر ترین ، لاہور کی مقامی قیادت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اس حلقے کے انتخابات فوج اور رینجرز کے زیر نگرانی ہونا قرار پائے ہیں۔ میڈیا ہر پولنگ اسٹیشن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ دونوں جماعتوں کے کارکن ہر ووٹر، پولنگ ا سٹیشن ، ووٹوں کے تھیلے، پریزائیڈنگ افسر، ووٹ شماری اور آخری نتیجے تک ہر ہر مرحلے کی نگرانی کرنے کو تیار ہیں۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب میں دھاندلی کا نہ کوئی امکان ہے نہ دھاندلی کے الزام کی کوئی گنجائش ہے۔ یہی بات اس ضمنی انتخاب کو اور زیادہ دلچسپ بناتی ہے۔
اندرون لاہور کا یہ حلقہ لاہور کے گنجان ترین علاقوں میں آتا ہے۔ گڑی شاہو، اچھرہ اور ریلوے کالونیوں پر مشتمل علاقہ اس حلقے میں شامل ہے۔ ایاز صادق مدتوں سے اس حلقے کے باسی ہیں اور اچھی شہرت کے حامل ہیں اور گزشتہ کئی انتخاب اسی علاقے سے جیت چکے ہیں۔ حلقے میں کئی خیراتی کام بھی انکے نام سے منسوب ہیں۔ ایاز صادق کا شمار میاں نواز شریف کے قریبی مصاحبین اور بااعتماد لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کیلئے بنا کسی تامل کے ایاز صادق کا نام تجویز کیا گیا اور قومی اسمبلی انکے زیر انتظام دے دی گئی۔ ا سپیکر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ایاز صادق اپنے حلقے پر ذاتی توجہ نہ دے سکے، حلقے کے بیشتر لوگ جس پر شاکی ہیں۔ سابق ایم پی اے میاں نعمان جو حافظ نعمان کے نام سے جانے جاتے ہیں انکی ناراضی کا بھی ایاز صادق کو سامنا تھا لیکن آخری اطلاعات کے آنے تک یہ ناراضی دور ہو گئی ہے اور اب میاں نعمان بھی اس انتخابی مہم میں شیر وشکر ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب علیم خان اس حلقے کے رہائشی نہیں ہیں۔ انہوں نے زیادہ کام گلبرگ اور ڈیفنس کے علاقے میں کیا ہے۔ علیم خان کی شخصیت پر زمین کی خریدوفرخت کے معاملات میں کئی سوال اٹھائے جا چکے ہیں۔ پارٹی کے معاملات میں بھی انکا کردار کچھ اتنا قابل ستائش نہیں رہا ۔ حتی کہ جسٹس وجیہہ الدین کمیشن رپورٹ میں پارٹی انتخابات میں بد معاملگی پر جن افراد کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی گئی تھی ان میں سے ایک نام ان کا بھی تھا۔ پی ٹی آئی کی لاہور کی قیادت بھی علیم خان سے بہت خوش نہیں۔ میاں محمود الرشید سے انکے اختلافات گرچہ پرانے ہیں مگر یہ اختلافات دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں کھل کر سامنے آئے ۔شایدیہی وجہ ہے کہ میاں محمود الرشید اس انتخابی مہم میں اس طرح کھل کر سامنے نہیں آ رہے جو انکا خاصہ ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اپنے امیدوار کی کمزوریوں کو جانتے ہوئے عمران خان کو یہ بیان بار بار دینا پڑ رہا ہے کہ یہ علیم خان اور ایاز صادق کے درمیان مقابلہ نہیں بلکہ یہ جنگ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ہے۔ پی ٹی آئی کے ایم پی اے میاں اسلم جو نہایت اچھی شہرت کے حامل ہیں اور اس حلقے میں اپنے کام اور نیک نامی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اس انتخابی مہم کے مقامی روح رواں ہیں۔ انکی محنت اور سماجی کام روز بہ روز زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابی اخراجات کے معاملے میں دونوں جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندیوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ کل پندرہ لاکھ خرچ کرنے کی اجاز ت تھی جس میں بہت سے بہت تین سے ساڑھے تین ہزار فلیکس چھاپے جا سکتے ہیں ۔ لیکن یوں معلوم ہوتا کہ ہر روز کم از کم پندرہ لاکھ تشہیر کی مد میں خرچ کئے جا ر ہے ہیں۔ اشتہارات کی مد کو چھوڑ بھی دیں تو گھروں میں گھی کے ڈبے اور انتخابی دفاتر کھولنے والوں کو تین تین ہزار یومیہ دینے کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔بظاہر دیکھا جائے تو اس انتخاب میں حکومت کو باآسانی کامیابی حاصل کرلینی چاہئے ۔حکومتی جماعت تاریخی طور پر ضمنی انتخاب میں کامیاب رہتی ہے مگر حکومت کی پھرتیاں اور ضرورت سے زیادہ تیاریاں صورت حال میں دشواری پیدا کر سکتی ہے۔ جو چیز حکومت کے خلاف جاتی ہے وہ عمران خان کی انتخابی مہم چلانے کا انداز ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو حکومت کی جانب سے کسی وزیر، مشیر کو میسر نہیں ۔ خان صاحب میں بلاشبہ یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دلوں کو گرما دیتے ہیں، نعرے لگوا دیتے ہیں ، کارکنوں کو متحرک کر دیتے ہیں۔ ڈونگی گراونڈ سمن آباد کا جلسہ اگرچہ مینار پاکستان والے جلسے کے پا سنگ بھی نہیں تھا مگر پھر بھی جو لوگ موجود تھے ان کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ جلسے میں ریحام خان کی موجودگی عمران خان کے سابقہ بیان سے لگا نہیں کھاتی تھی مگر اچھنبے کی بات یہ تھی کہ میڈیا نے جلسے میں آمد کی کوریج کے معاملے میں ریحام خان کو عمران خان پر کہیں زیادہ فوقیت دی۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اگر چہ ایسے جذباتی موقعوں پر زیربحث نہیں ہوتی لیکن دیکھا جائے تو بحیثیت اپوزیشن عمران خان کی اور انکی جماعت کی کارکردگی بھی حکومتی جماعت کی طرح زیرو ہے۔
گیارہ اکتوبر کو ہونیوالے اس ضمنی انتخاب کے نتائج بہت دلچسپ اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت یہ نشست ہار جاتی ہے تو عمران خان کا دھرنا، احتجاج ، استعفٰے اور کے پی کے میں ناقص کارکردگی کو ایک جواز مل جائے گا جو آنے والے دنوں میں حکومت کیلئے شدید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔بات پھر اس حلقے تک محدود نہیں رہے گی ۔ دو ہزار تیرہ کا سارا انتخاب اور پاکستان میں انتخابی عمل اس کی زد میں آئے گا۔ مسائل میں گھری پی ٹی آئی کو ایک تازہ کمک ملے گی اور ملک گیر دھرنوں اور احتجاج بعید از قیاس نہیں۔دوسری جانب اگر حکومت اپنی نشست برقرار رکھتی ہے تو دھاندلی کے مسلسل الزام کو شکست ہو گی اور عمران خان کی سیاست کو ایک بڑا دھچکا لگے گا ۔
پھر لوگ سوال کرینگے کارکردگی کا ، وقت کے ضیاع کا، پینتیس پنکچر کا، چیف جسٹس کی دھاندلی میں مبینہ شمولیت کا ۔ منفی سیاست کا۔ عوام کو گمراہ کرنے کا ۔ اگر پی ٹی آئی ہار جاتی ہے تو لوگ پھر گلا پھاڑ پھاڑ کر پوچھیں گے اور جواب مانگیں گے۔ امپائر اور انکے نادیدہ سرکاروں کا۔،لندن پلان اور اسکے کھلواڑوں کا۔ جلد از جلد وزیر اعظم بننے والے برق رفتاروں کا۔نئے پاکستان کے جوش سے تمتمائے رخساروں کا۔ اخلاق اور تہذیب سے گرے اشعاروں کا۔ دھرنے کی خبروں سے بھرے اخباروں کا۔گو نواز گو کے نعروں سے بھری دیواروں کا۔بے وجہ الزامات کی تلواروں کا اور سپریم کورٹ کے باہر لٹکے گیلے کپڑوں کا۔
تازہ ترین