• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ’’انصاف ‘‘ کا فقدان ہے ، یہی وجہ ہے کہ شہری ہر طرف سے مایوس ہوکر پاکستان تحریک انصاف کی طرف راغب ہوئے ۔ پاکستان میں بدعنوانی ، لوٹ مار اور لالچ کابھی دوردورہ ہے ۔ چنانچہ شہریوں نے آگے بڑھ کر پاکستان تحریک ِ انصاف کو اپنا کندھا فراہم کردیا۔ پاکستان کا ہر سیاسی رہنما بدعنوان، نااہل اور بے حس ، تو شہریوں نے عمران خان کو اپنی امیداور اعتماد کا مرکز بنا لیا۔ عمران خان نے ایچی سن کالج لاہور اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے تعلیم حاصل کی، وہ کرکٹ کے میدانوں کے ہیرو رہے ، اُن کی قیادت میں پاکستان نے 1992 کا عالمی کپ جیتا، اور جن کا فلاحی کارنامہ، شوکت خانم اسپتال کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا دکھی افراد کے لئے روشنی کی ایک کرن ہے۔
ان سب کے باوجود عمران خان اور پی ٹی آئی کی بے صبری اور اشتعال حقیقی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اور بامعنی کوشش سے آج بھی اتنے ہی دور ہیں جتنے کبھی تھے ۔ پی ٹی آئی ایک ون مین پارٹی ہے جس کے قائد سیماب صفت، تحکمانہ،بے قرار، ہر آن بدگمان اور قہر یہ ہے کہ ہر غلط معلومات کو درست مان کر اُس پر کاربند ہوجانے اور اپنی رائے کو حتمی ماننے والے شخص ہیں۔ اس جماعت میں نہ تو انصاف ہے اور نہ ہی داخلی جمہوریت۔ اس کی بجائے یہ بدعنوان لوٹوں کا اکٹھ ہے جس کے اکثر رہنمائوں پر مالیاتی بدعنوانی، حتیٰ کہ پارٹی فنڈز کی خورد برد کے الزامات ہیں۔ یہ الزامات قالین کے نیچے نہیں دھکیلے جاسکے کیونکہ جو ٹولہ اپنے حامیوں اور خیر خواہوں کے فراہم کردہ فنڈز کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، اُس پر مزید کیا اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔ بدترین بات یہ کہ عمران خان کے دہرے اخلاقی رویے انتہائی قابل ِ اعتراض ہیں۔
ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں، پاکستان میں ’’انصاف ‘‘ کا فقدان ہے، چنانچہ تمام امیدیں سابق چیف جسٹس ، افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی وکلا تحریک سے لگا لی گئیں۔ سوچا گیا کہ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کرے گی اور انصاف کے تقاضوں کویقینی بنایا جائے گا۔ تاہم اس تحریک کے ایک عشرے اور جسٹس چوہدری کی بحالی کے آٹھ سال بعد، آج ایسی تمام معصوم خواہشات کا خون ہوچکا ہے ۔ جسٹس چوہدری کے مقبول ِعام سو موٹو نوٹس اور بلاوے اور دھماکہ خیز بیانات میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت تو بنے لیکن کوئی بہتری لائے بغیر ، یکے بعد دیگر ے ہوا میں تحلیل ہوتے رہے ۔ اُن کی کی گئی بہت سی تقرریوں سے عدلیہ میں سیاسی مداخلت کا تاثر ابھرا۔ ان کی وجہ سے عدلیہ مزید متنازع ہوگی اور اس کی شفافیت اور اہلیت پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ آخر میں، ریٹائرڈ چیف جسٹس محض اپنے کچھ مفاد، جیسا کہ بلٹ پروف گاڑی، کے لئے اپنے محسن نواز شریف کے ساتھ الجھتے دکھائی دئیے ۔ موصوف نے سیاسی جماعت بھی بنا ڈالی جس میں ان کے علاوہ کسی اور شخصیت کا نام بتانے سے راقم الحروف قاصر ہے ۔
چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ عوام ابھی تک انصاف کے منتظر اور متمنی ہیں، اور ہونا بھی چاہئے ۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عمران خان کی تحریک انصاف ہے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان، نیب، ایف بی آراورایف آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں کی بے توقیری کرنے اور انہیں ’’بدعنوان اور نااہل‘‘ قرار دینے کے بعد اب سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔ یہ عمران خان کی پی ٹی آئی ہے جس نے انتخابی دھاندلی پر سب سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا اور پھر جب کمیشن کا فیصلہ اس کی مرضی کے مطابق نہ آیا تو اسے ہوا میں اُڑا دیا۔ اب یہ اُسی سپریم کورٹ سے استدعا کررہی ہے کہ وہ انہی ’’بدعنوان اور نااہل ‘‘ ریاستی اداروں، جیسا کہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو وزیر ِ اعظم نواز شریف کی ’’بدعنوانی ‘‘ کی تحقیقات کرنے کا حکم دے ۔
اس وقت سپریم کورٹ بہت مشکل میں ہے ۔ ایک طرف تو فاضل عدالت سابق چیف جسٹس کے پیدا کردہ مسائل ، جیسا کہ جوڈیشل تقرریاں، سے عہدہ برا ہونے تو دوسری طرف عدالت ِعالیہ بدعنوانی کا کھوج لگانے والے ادارے نیب کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ چیئر مین نیب کے اختیارات اور پلی بارگین اور لوٹی ہوئی رقم واپس لینے کے طریق ِ کار پر عدالت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ اور عمران خان کے مطالبے کے مطابق اسی ادارے نے نواز شریف کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنی ہیںمشکل یہ ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف بد عنوانی کی درخواست کو رد کیا گیا اب وہ دوبارہ سماعت کیلئے پیش ہے اور تاحال ٹرمز آف ریفرنس یا قانون ، جن کے تحت انکوائر ی ہونی ہے ، پر بحث ہونا باقی ہے ۔
اس معاملے میں تازہ ترین موڑ یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف شریف برادران بھی انصاف کے طالب ہیں۔ پریس رپورٹس کے مطابق عمران خان نے شہباز شریف پر کسی فرنٹ مین کے ذریعے اربوں روپوں کی بدعنوانی کا الزام لگایا۔ اس پر شہباز شریف نے ہتک عزت کا دعویٰ کردیا تاکہ وہ عدالت سے انصاف لے کر اپنا نام کلیئر کراسکیں۔ یہاں الجھن یہ ہے کہ ریکارڈ کے مطابق آخری مرتبہ جس ہتک عزت کے کیس کا فیصلہ آیا تھا وہ دس سال تک چلا اور الزام لگانے والے کی کمزور سی معذرت پر ختم ہوگیا۔لگتا نہیں کہ ملک میں کوئی اتنا دلیر ہے جو عمران خان کے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا فیصلہ کرسکے ۔اس طرح تحریک انصاف کا جنون ایسا ترازو بن چکاہے جس کے دونوں پلڑوں پر انصاف کا خون تل رہا ہے ۔ مایوس کن صورت حال ہے ۔ کوئی ریاستی ادارہ یا سیاسی جماعت یا رہنما ملک میں حقیقی انصاف قائم کرنے کابیڑ ااٹھانے کے لئے تیار نہیں۔



.
تازہ ترین