• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چانکیہ کے کردار نے مجھے ہمیشہ متّاثر کیا ہے۔ قبل از مسیح (370-283ق م) ایک بڑا پولیٹکل فلاسفر اور مصنّف جس کی تعلیم و تربیت اس وقت کی ٹیکسلا یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور جسے بجا طور پر فرزندان حق کہا جا سکتا ہے، مقام حیرت ہے کہ اس کے بعد گزشتہ ڈھائی ہزار برس میں اس خطّے میں جہان بانی کی گتھیوں کو سلجھانے والا اس جیسا کوئی دوسرا اسکالر پیدا نہیں ہو سکا۔ اس خطّے کی دوسری مشہور شخصیت ہندو حکمراں اشوکا کی تعلیم و تربیت اسی چانکیہ کے ہاتھوں ہوئی۔ راج نیتی کی باریکیوں پر لکھی گئی مشہور زمانہ اپنی تصنیف ارتھ شاستر میں چانکیہ نے خوشامد پر باقاعدہ ایک باب باندھا ہے جس میں خوشامد کو ایک نہایت مشکل فن قرار دیا ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں، جس کا کمال یہ ہے کہ بین السطور ہو، کھلی خوشامد کو وہ پھکڑپن قرار دیتا ہے، خوشامد کو اس کے نزدیک سلو پوائزننگ کے انداز میں کام کرنا چاہئے کہ نقصان کا تسلسل بھی نہ ٹوٹے اور ٹارگٹ کو خبر بھی نہ ہو۔ کھلی خوشامد والے وارداتیے اکثر نقصان اٹھاتے ہیں۔ اپنی اس فلاسفی کی تشریح کیلئے موصوف نے ایک داستان لکھی ہے کہ ایک جّری اور جانباز قسم کے مہم جو نے ایک وسیع علاقہ فتح کر لیا تو سوچا کہ اتنے بڑے علاقے کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ منیج ایبل (Manageable) اپنے پاس رکھ لیا اور باقی مقامی راجائوں، مہاراجائوں میں یہ کہہ کر تقسیم کر دیا کہ اپنا عیاشی پروگرام حسب سابق جاری رکھو مگر یہ نہ بھولنا کہ رعیت تم ہماری ہی ہو۔ ایسی ہی ایک طفیلی ریاست کا حکمراں صاحب علم و بصیرت بھی تھا اور خوشامد کی بے پناہ ہلاکت خیزیوں سے آگاہ بھی اور خوب جانتا تھا کہ جب تیغ آبدار لاچار ہو جائے، تیر و تفنگ کی بوچھاڑ رائیگاں جائے، کوئی تدبیر کام نہ آئے اور ہزیمت سامنے دیوار پر لکھی دکھائی دے تو خوشامد کا ہتھیار استعمال کرو جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا اور جس کی تباہ کاریاں پاتال ہیں۔کچھ تازہ ہزیمت کی چبھن اور کچھ طبع روشن کا شاخسانہ، سوچا کہ یہ سکہ بند ہتھیار گھس بیٹھیے حکمراں پر کیوں نہ آزمایا جائے چنانچہ مصاحبین میں سے سب سے زیادہ خوشامدی کو طلب کیا اور انواع و اقسام کے تحائف سے لاد کر یہ کہہ کر بادشاہ کے حضور روانہ کر دیا کہ اقلیم فقیر کا دانا ترین شخص ہے اور حضور سے بڑھ کر روئے زمین پر کسی اور کو اس کی صحبت کا اہل نہیں پاتا، سو ارسال خدمت ہے۔ وہ در نایاب منزلیں مارتا دربار شاہی میں پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ صبح کو حاضری ہوئی۔ حال احوال تبادلہ کا ہوا تو عرض کی حضور! تھکاوٹ سے چور تھا۔ جلد ہی نیند نے آ لیا اور پھر عالم رویا میں پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضور سونے، چاندی کے بنے اور جواہرات سے مرصع ایک بلند و بالا تخت پر تشریف فرما ہیں۔ نامی گرامی فاتحین عالم ایک جانب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ سکندر یونانی کی تو خاص طور پر گھگھی بندھی تھی اور زار زار پکار رہا تھا کہ لوگوں نے اسے خواہ مخواہ فاتح عالم بنا رکھا ہے جبکہ وہ تو حضور کی غلامی کا بھی اہل نہیں۔ چاپلوس ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ ایک کوندا سا لپکا۔ جہاں پناہ نے نہ جانے کس وقت جلاد کو اشارہ کر دیا تھا اور اگلے ہی لمحے اس کا سر زمین پر لڑھک رہا تھا، ساتھ ہی حکم ہوا کہ اس کی مثل بھی چاہئے جس کیلئے اس کے ولی نعمت سے بڑھ کر کون ہو سکتا تھا۔ شام ہونے سے پہلے پہلے یہ مرحلہ بھی نمٹ گیا اور اگلی صبح خلق خدا نے دیکھا کہ دونوں کے سر عبرت کا نشان بنے شہر کے داخلی دروازے پر لٹک رہے تھے۔ شاہ رخ خان کی فلم اشوکا کے اوریجنل اسکرپٹ میں اس واقع کو ٹچ کیا گیا تھا۔ بعد میں جانے کیوں نکال دیا گیا، شاید اشوکا کے امیج کا معاملہ تھا یا پھر موصوف کو خوشامدیوں کے انجام سے اتفاق نہیں تھا۔یہاں داستان کا پہلا حصّہ ختم ہوتا ہے اور دوسرے کا آغاز۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ حرف بہ حرف نہ سہی، ایک جیسے عوامل و عواقب والے واقعات سے تو کتابیں بھری پڑی ہیں۔ کیا آپ نے غور کیا کہ آج کے پاکستان کی کئی جہتیں امریکی سول وار (1861-65)سے بڑی حد تک مشابہ ہیں۔ سول وار بھی ایک نکاتی ایجنڈا پر لڑی گئی تھی کہ کیا امریکہ کو ایک متحد و متفق اور مرکزیت پسند ریاست کے طور پر زندہ رہنا ہے یا ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن کے طور پر، جس میں شامل ریاستوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی ہو اور جب اوّل الذکر آپشن کے حق میں فیصلہ ہو گیا تو محض چار برسوں میں امریکہ کی ڈوبتی نائو کی سمت ہمیشہ کیلئے متعین ہو گئی اور اس ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیاد پڑی جسے آج دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی شاید ہی کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکے کہ ضرب عضب کے آغاز کے وقت ریاست کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ چار میں سے تین وفاقی اکائیوں کی صورتحال ناگفتہ بہ اور قوم گو مگو کا شکار جسے پوری کتاب میں سے کوئی صفحہ ہی پسند نہیں آ رہا تھا، ہر کسی کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ اور پھر وہ لمحہ آ گیا جب فیصلہ ضروری ہو گیا کہ ریاست کو بچانا ہے یا بربادی کا تماشا دیکھنا ہے۔ مذاکرات کے سراب میں کھونا ہے یا کھلی آنکھوں کے ساتھ حقیقت کا سامنا کرنا ہے۔ جب فیصلہ ہو گیا تو قوم یکایک ایک پیج پر آ گئی۔‘‘ بھانت بھانت کے بیانیے، یکلخت دم توڑ گئے اور انیسویں صدی کے امریکہ کی طرح آج عساکر پاکستان بھی وطن کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
بطور قوم ہم جذباتی ہی نہیں جلدباز بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آزردہ ہو جاتے ہیں۔ زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے ملک میں ویسٹ منسٹر ٹائپ جمہوریت چاہتے ہیں اور یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ غیر معمولی حالات میں اقدامات بھی غیرمعمولی ہوتے ہیں۔ قواعد و ضوابط نرم پڑ جاتے ہیں اور پروٹوکول کی نزاکتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ امریکی سول وار سے ہی مثال لے لیں کہ صدر ابراہم لنکن اور فوج کے سربراہ جنرل میکلیگن کے مابین طے تھا کہ جس کو جب ضرورت پڑے بلااطلاع ایک دوسرے کی رہائش گاہ پر جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک صبح صدر، وزیر دفاع کے ہمراہ جنرل کے در دولت پر حاضر ہوئے تو پتہ چلا کہ موصوف گھڑ سواری کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ کمرا انتظار میں بیٹھ گئے۔ جنرل صاحب واپس آئے تو منتظر مہمانوں کو کہلوا بھیجا کہ ابھی وہ فارغ نہیں، کچھ اور کام ہیں، ان سے ملاقات بعد میں ہو گی۔ صدر واپسی کیلئے اٹھے تو وزیر دفاع برہم ہو گئے۔ بولے ’’عجیب بدتمیز آدمی ہے، جناب صدر! آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا؟‘‘ دانشمند لنکن کا جواب تھا ’’دھیرج رکھو، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ کمانڈر انچیف اگر جاری جنگ جیتنے کی یقین دہانی کرا دیں تو میں ان کے گھوڑے کی رکاب تھامنے کو بھی تیار ہوں۔‘‘ کالم اختتام کو پہنچا۔ اس کے مندرجات کے مابین کوئی ربط ضبط ہے یا نہیں، فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
تازہ ترین