• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا چار نکاتی امن منصوبہ مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بات چیت تو آپ کے اور ہمارے وزیراعظم کے درمیان اوفا میں ہوئی تھی۔ جس میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک سرحدوں پر امن و امان برقرار رکھیں گے اور دہشت گردوی کے تمام پہلوئوں پر بات کریں گے۔ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کو دہشت گردی کے معاملے پر بات کرنے کا فریضہ تفویض کیا گیا تھا۔ پوری دنیا کے سامنے بھارت نے پاکستانی وزیراعظم کے جس 4نکاتی ایجنڈے کو مسترد کیا ہے۔ اگرچہ اس پر کافی بحثیں ہو رہی ہیں۔ پھر بھی ہم اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کئے دیتے ہیں کیونکہ ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نکتہ نہیں ہے جو قابل استرداد قرار دیا جائے۔ -I لائن آف کنٹرول پر 2003ءکے معاہدے کی روشنی میں مکمل فائر بندی کی جائے۔، -II طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں۔، -III کشمیر کو غیر فوجی زون قرار دیتے ہوئے کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے۔، -IV سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرادیا جائے اور ہر دو اطراف سے افواج کو نکال لیا جائے۔ اپنی اس جامع تقریر میں وزیراعظم پاکستان نے پاک ہند تعلقات اور اس سلسلے میں کئے گئے مذاکرات کی پوری تفصیلات بیان کیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہم ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم نے دہشت گردی کے خلاف بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں بلکہ ہم خود دہشت گردی کا سب سے بڑھ کر شکار ہیں اور اب آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اس کے خلاف برسرپیکار ہیں اور یہ آپریشن دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جاری و ساری رہے گا۔ اس حقیقت میں کہیں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ دنیا میں الزام تراشی سے آسان کوئی مشغلہ نہیں ہے۔ چاہے یہ دو افراد کے درمیان ہو یا دو ریاستوں کے درمیان۔ اختلافات افراد کی طرح ریاستوں کے درمیان بھی ہو سکتے ہیں اور دنیا نے صدیوں کے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ اختلافات دور کرنے کیلئے لڑائی یا الزام تراشی کی بجائے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کی راہ اپنائی جائے۔ اگر معاملہ دو طرفہ مذاکرات سے حل نہ ہو رہا ہو تو کسی تیسرے فریق کی خدمات حاصل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوتا ہے۔ بھارت اس استدلال پر مصر ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور انڈیا پابند ہیں کہ اپنے معاملات و اختلافات بشمول کشمیر دو طرفہ مذاکرات سے ہی حل کریںگے تاہم پاکستان نے اس سے کبھی انکار نہیں کیا۔ پاکستان کی کسی حکومت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم بھارت سے مذاکرات نہیں چاہتے یہ ’’اعزاز ‘‘ بھارت کوہی حاصل ہے کہ باہمی تنازعات کو کسی تیسرے فریق کے پاس لے کر نہیں جایا جا سکتا ہے۔ رہ گئے دو طرفہ مذاکرات تو ان پر بھی ایسی قدغنیں یا شرائط عائد کر دی جائیں کہ ’’پرنالہ وہیں رہے گا‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکیں۔
بھارتی قیادت بار بار اوفا کی سمٹ ملاقات کا حوالہ دیتی ہے۔ بلا شبہ اوفا ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مذاکرات کی بات کی گئی تھی جبکہ بھارتی موقف کے مطابق کشمیر میں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دہشت گردی کے خلاف بات چیت ہو گی تو لازمی بات ہے اس کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے کشمیر کے حوالے سے بھی یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اس ٹیررازم کی وجہ کیا ہے ؟ کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہ خطہ روز اول سے ایک متنازع ایشو کی حیثیت سے چلا نہیں آ رہا ہے ؟ آخر پاکستان کی طرف سے کب یہ کہا گیا ہے کہ وہ کشمیر پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا ترجیحات کا معاملہ الگ ہے کہ اول اہمیت اعتماد سازی کے پیمانوں یا اقدامات کو دی جائے گی۔ جوں جوں یہ اعتماد بڑھے گا توں توں ہم آگے بڑھتے جائیں گے تاوقتیکہ ہم باہمی تمام تنازع ایشوز کو حل کرنے کے قابل نہ ہو جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے جس 4نکاتی امن فارمولے کو موجودہ بھارتی قیادت نے مسترد کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر معاہدے کے مطابق مکمل فائر بندی کی جائے کیا امن پسند دنیا میں کوئی ایک آواز بھی ایسی ہےجو کہے کہ کنٹرول لائن پر فائر بندی نہیں ہونی چاہئے۔ سوائے اس کے آخر کیا حل ہے؟طاقت کے استعمال کی دھمکیاں چاہے وہ کسی طرف سے بھی ہوں کوئی معقول انسانی رویہ نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسی دھمکیاں ہی ایک نوع کی دہشت یا خوف کی علامت ہیں۔ اگر ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں تو پھر لازماً ایسی دھمکیوں کے خاتمے پر بھی ہمیں یکسو ہونا چاہئے۔ سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک اگر یہاں سے اپنی افواج نکال لیتے ہیں تو ہمارے خیال میں اس سے بڑی عوامی و انسانی خدمت کوئی نہ ہوگی۔ ذرا اعداد وشمار جمع کیجئے اس لا حاصل لشکر کشی پر دونوں ممالک کے کتنے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں بسنے والے امن پسند دانشوروں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے سامنے یہ سوال اٹھائیں کہ وہ قومی وسائل کو کیوں بے مقصد بھسم کر رہے ہیں ؟ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان یہ معاملہ تقریباً حل ہو گیا تھا۔ اصولی طور پر قریقین اس حقیقت کو تسلیم کر چکے تھے محض عمل درآمد باقی تھا کہ ہر دو اطراف شدت پسندی غالب آ گئی۔ جہاں تک کشمیر سے افواج کے انخلاء کا معاملہ ہے ۔ بھارت کو اس حوالے سے تحفظات ہونگے لیکن ان تحفظات اور انہیں دور کرنے کے معاملات صرف دو طرفہ مذاکرات سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ ہر دو افراد کے باشعور طبقات بالخصوص میڈیا کی شخصیات غور فرمائیں کہ اس تمام تر خلفشار کا حل کیا محض الزام تراشیاں ہیں یا غیر مشروط اور دو ٹوک دو طرفہ مذاکرات ہیں؟ اب جب ریاست پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس اور ادراک کر رہی ہے بلکہ آپریشن ضرب عضب یا نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس کا مداوا کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ ایسے حالات میں بھارتی قیادت کو انتہا پسندی ترک کرتے ہوئے دانشمندی سے کام لینا چاہئے۔ بھارتی قیادت اگر واقعی یہ چاہتی ہے کہ دہشت گردی کا ون پوائنٹ ایجنڈا نہ صرف یہ کہ بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کرے تو اسے پاکستان کی اس حوالے سے معاونت کرنی چاہئے۔ وزیراعظم پاکستان کا 4 نکاتی ایجنڈا دہشت گردی اور خون خرابے سے چھٹکارے کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اگر بھارت بھی اس مخلصانہ جذبے کے ساتھ کمر ہمت باندھ لے اور پاکستان کی طرف دست تعاون بڑھائے ہر دو ممالک کے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ امن کی منزل صرف شاہراہ مذاکرات پر آگے بڑھنے سے آئے گی۔ اس سے دونوں ممالک اپنے کروڑوں غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکیں گے۔
تازہ ترین