• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینیٹ کے چیئرمین میاں رضاربانی نےاگلے روز کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایک تقریب سے پرجوش خطاب کرتےہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں ۔ احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں ، سب کا ہونا چاہیے۔سول اور ملٹری بیورو کریسی بھی شفاف نہیں ۔ میاں رضاربانی کے خطاب کے6 دن کے بعد ایوان وفاق ( سینیٹ ) میں کرپشن کے معاملے پر بحث ہوئی تو سینیٹرز نے بھی یہی بات کہی کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے ۔ فوج ، عدلیہ ، سیاست دانوں اور میڈیا سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان میں ’’ مقدس گائے ‘‘ کی اصطلاح محاورتاً استعمال کی جا رہی تھی ، تب بھارت سے یہ خبر آئی کہ ہندو انتہا پسندوں نے گائے کی قربانی کرنےپر ایک مسلمان کو تشدد کرکے جان سے مار دیا ۔ ہندو انتہا پسندوں کی اس مذموم کارروائی سے یہ بات سمجھ آئی کہ ’’ مقدس گائے ‘‘ کیا ہوتی ہے اور مقدس گائے کی حفاظت تشدد اور تنگ نظری کا خوف ناک نظام کس طرح کرتا ہے ۔ مقدس گائے کا تصور ہندو مت سے لیا گیا ہے لیکن اسے محاورہ ( Idiom ) کے طور پر غالباً 18 ویں صدی کے آخر یا 19 ویں صدی کے اوائل میں انگریزی ادب میں برتا گیا۔امریکی صدر کےلیے جوپہلا طیارہ بنایا گیاتھا،اس کا نام بھی ’’ مقدس گائے ‘‘ رکھا گیا تھا ۔ طیارے کا یہ نام رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس طیارے کی ہر ممکن حفاظت کی جائے گی اور اسے کوئی بھی نشانہ نہیں بنا سکے گا ۔ لغت میں ’’ مقدس گائے ‘‘ کا مطلب ایسا فردیا ایسی چیز ہے ، جسے طویل عرصے تک لوگ قبول کرتےرہے ہوںاور اس کی عزت کرتےرہے ہوں اور اس پر تنقید کرنے یا اس کے بارے میں سوال کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہوں یا گریز کرتے ہوں ۔ میاں رضاربانی کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ’’ مقدس گائے ‘‘ نہیں ہے ۔ خود میاں رضا ربانی کی بھی ایک نہیں ، کئی ’’ مقدس گائیں ‘‘ ہوں گی ۔ وہ اپنی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی کے دیگر طاقت ور قائدین پر اس طرح تنقید نہیں کر سکتے ، جس سے یہ مقولہ درست ثابت ہو کہ ’’ ہماری واحد مقدس گائے گستاخی ہے ۔ ‘‘ (Irrevence is our only Sacred Cow ) ۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی بھی مقدس گائیں ہوں گی ۔ سینیٹ کے اجلاس میں بحث کے دوران ہر ایک نے الفاظ کے ہتھیاروں سے اپنی اپنی مقدس گائے کی حفاظت کی اور دوسروں کی مقدس گائے پر حملے کیے ۔ کسی نے میاں نواز شریف کو برابھلا کہا اور کسی نے آصف زرداری اور عمران خان کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی مقدس گائیوں کی قبولیت محدود ہے اور ان کی حفاظت کا نظام بہت کمزور ہے ۔ فوج ، عدلیہ اور میڈیا کے احتساب کی بات ضرور کی گئی لیکن ان میں سے کسی مقدس گائے کا نام نہیں لیا گیا ۔ یہ اصل مقدس گائیں ہیں ۔ میاں رضا ربانی اس وقت سیاست دانوں کے دفاع کےلیے میدان میں اترے ہیں ، جب وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ سیاست دانوں نے کرپشن کی ہے ۔ بہت تاخیر سے کسی سیاست دان نے یہ محاذ سنبھالا ہے اور شاید اپنی کسی مقدس گائے کی حفاظت کےلیے میدان میں آیا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ نے وہ عہد بھی دیکھا ہے ، جب ’’ پروڈا ‘‘ اور ’’ ایبڈو ‘‘ کے ذریعہ ان محترم سیاسی قائدین کو ذلیل اور رسوا کیا گیا ، جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا اور جن کی دیانت داری کی قسمیں زمانہ کھاتا تھا ۔ یہ کام اس لیے کیا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت پروان نہ چڑھ سکے ۔ فوج ، عدلیہ اور میڈیا اسی زمانے سے مقدس گائیں بن چکے تھے ۔ مولوی فضل الحق ، حسین شہید سہروردی ، خواجہ ناظم الدین ، حمید الحق چوہدری ، مسٹر منڈل ، سردار اورنگزیب ، نواب افتخار حسین ممدوٹ ، میاں ممتاز دولتانہ ، میاں افتخار الدین ، سر غلام حسین ہدایت اللہ ، پیر الہی بخش ، پیرزادہ عبدالستار ، چوہدری خلیق الزمان ، خان عبدالغفار خان ، مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر کئی محترم اور جید رہنماؤں کا کسی نے دفاع نہیں کیا ۔ انہیں غدار ، ملک دشمن ، سبوٹیئر ، تخریب کار ، کرپٹ اور بھارتی جاسوس قرار دیا گیا اور ان کی تذلیل کےلیے وہ اصطلاحیں استعمال کی گئیں ، جو پیر محمد علی راشدی کے بقول دو عالمی جنگوں کے دوران اتحادیوں نے اپنے دشمنوں کےلیے استعمال کی تھیں اور ان اصطلاحوں کو سیاسی لغت اور اخباری زبان میں بھی شامل کر لیا گیا ۔ تحریک پاکستان کے باکردار اور دیانت دار سیاسی قائدین بھی اپنا اور جمہوریت کا دفاع نہ کر سکے ۔ مقدس گائیں وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ مضبوط ہوتی گئیں اور ان کی حفاظت کرنے والا نظام بھی مضبوط تر ہوتا گیا ۔ اب ’’ ریگن نظریہ ‘‘ کے تحت ان مقدس گائیوں کی حفاظت کا عالمی نظام وضع کیا گیا ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق تیسری دنیا کے ملکوں کو دہشت گردی اور فوجی کارروائیوں میں الجھا دیا جائے ، جس کے ذریعہ ہر ملک کی فوج اور امرا کے طبقے کا اقتدار محفوظ ہو ۔ ان ملکوںکے مالیاتی وسائل سماجی شعبوں کی ترقی کی بجائے مصنوعی جنگوں میں جھونک دیے جائیں اور پھر میڈیا پر یہ تبصرے کرائے جائیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ’’ کامیابی ‘‘ سے جاری ہے اور امریکا اس جنگ سے مطمئن ہے ۔ سارے مالیاتی وسائل ان جنگوں اور جنگی جنون پیدا کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں اور ساری مقدس گائیں ان وسائل پر پلتی رہتی ہیں ۔ میاں رضا ربانی کہتے ہیں کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے ۔ قدیم مصری مذاہب میں ’’ طاقتور مقدس بیل ‘‘ کا تصور بھی موجود ہے ۔ میاں رضا ربانی ان سیاست دانوں کی وکالت کر رہے ہیں ، جن میں سے اکثریت آمروں کی پیداوار ہیں اور جنہوں نے کرپشن کو سیاست کا جزو لاینفک بنا دیا ہے ۔ خود ان کی پارٹی کے لوگوں کے بھی ہاتھ صاف نہیں ہیں ۔ وہ مقدس گائیوں کو تسلیم نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مقدس گائیوں کے ساتھ ساتھ مقدس بیل بھی موجود ہیں۔ کسی نے فیس بک پر ایک مقدس بیل پر محتاط تنقید کی تو اس کے خلاف ایک ہزار سے زیادہ غضب ناک تبصرے آ گئے۔ ان مقدس گائیوں اور مقدس بیلوں کا احتساب کوئی نہیں کر سکتا ہے ۔ ہاں ایک راستہ ہے ، جس کی نشاندہی امریکی افواج کے کمانڈر جان گیلون ( John Galvin ) نے شاید نادانستگی میں کر دی تھی اور کہا تھا کہ ’’ نکارا گوا میں سینڈی نیسٹا حکومت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سینڈی نیسٹا روایتی جنگ کی بجائے نظریاتی جنگ سے کام لے رہی ہے اور اس کی پیش قدمی کو ہم ان کی سرحدوںپر فوجیں تعینات کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ ‘‘ میاں رضا ربانی جس بلا امتیاز احتساب کی بات کر رہے ہیں ، وہ کرپٹ سیاست دان نہیں کر سکتے ۔ اس کےلیے نظریاتی سیاست کی طرف آنا ہو گا اور سیاست میں ان لوگوں کو آگے لانا ہو گا ، جنہوں نے سیاست کو انسان ذات کی بھلائی کے نظریہ کے طورپر اپنایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ میاں رضا ربانی کی دیانت داری اور راست بازی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن انہیں سیاست میں کچھ نہ کچھ تو ملا ہے ۔ مقدس گائیوں اور بیلوں کو چیلنج وہ کر سکتے ہیں ، جنہیں کچھ نہیں ملا ہے اور اب بھی وہ نظریاتی سیاست کرتے ہیں ۔
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کام مرکب نہیں ، راکب ہے قلندر
تازہ ترین