• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں نٹ شیل فورم نے پاکستان بزنس اینڈ اکنامکس سمٹ کا انعقاد کیا جس میں وفاقی وزراء، سیکریٹریز، معیشت دانوں، ممتاز صنعتکاروں، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم، انکم ٹیکس اور انرجی کے ماہر مقررین نے اہم معلومات فراہم کیں۔ کانفرنس میں انرجی سیکٹر پر گفتگو کرنے کیلئے مجھے بھی مدعو کیا گیا جبکہ کانفرنس میں میرے علاوہ وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر، وزیر مملکت برائے سرمایہ کاری مفتاح اسماعیل، وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو سینیٹر ہارون اختر، وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی حسن ناصر جامی، حبکو کے چیف ایگزیکٹو خالد منصور، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اسماعیل شاہ، آئی بی اے کے ڈین ڈاکٹر فرخ اقبال، سیمینز کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیلموٹ وون اسٹروو، ماہر تعلیم مشرف زیدی، ٹیکس ماہرین شبر زیدی، مسعود نقوی اور اسد علی شاہ، پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو احسان ملک، نافا کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر امجد وحید، مشوبشی پاکستان کے کنٹری ہیڈ کمی ہیڈی اینڈو،، نیشنل فوڈز کے منیجنگ ڈائریکٹر ابرار حسن، سندھ اینگرو کول کے شمس الدین شیخ، آئی سی آئی پاکستان اور لکی سیمنٹ کے محمد علی ٹبا، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹینٹ پاکستان کے سابق صدر ظفر سبحانی، نٹ شیل فورم کے چیف ایگزیکٹو اظفر احسن، کانفرنس کی ماڈریٹرز ہما بقائی اور ملاحت اعوان نے شرکت کی۔
کانفرنس کا عنوان "Finding the Bright Spots" تھا جس میں شرکاء نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے پاکستان کی معاشی کارکردگی اور مستقبل کے روشن مواقع پر اپنے سیکٹرز کے حوالے سے گفتگو کی۔ صبح 9 بجے سے شام ساڑھے 6 بجے تک جاری رہنے والی کانفرنس میں مقامی ہوٹل کا ہال ملک بھر سے خصوصی دعوت پر آئے ہوئے 250 سے زائد مندوبین سے کھچا کھچ بھرا رہا۔ آئی بی اے کے نئے ڈین ڈاکٹر فرخ اقبال نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے بتایا کہ معاشی اصلاحات کے باعث ملک معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے جس کا آئی ایم ایف نے اپنے معاشی جائزے میں بھی اعتراف کیا ہے۔ بیرونی ذخائر پہلی بار 24 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، بجٹ مالی خسارہ گزشتہ 3 سالوں میں 8.5 فیصد سے کم کرکے 4.6 فیصد تک لایا گیا ہے، ٹیکسوں میں جی ڈی پی کی شرح 10فیصد سے بڑھ کر 12.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 3سالوں میں ریونیو وصولی میں 60 فیصد اضافے سے اس سال 3.1 کھرب روپے کا ریکارڈ ریونیو حاصل کیا گیا ہے، افراط زر جو 2013ء میں 7.5 فیصد تھا، کو کم کرکے 2.9 فیصد تک لایا گیا، جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا اسٹاک ایکسچینج اپنی بلند ترین سطح 41500 تک پہنچ چکا تھا اور ماہرین نے اِسے خطے میں بہترین کارکردگی کرنے والی اسٹاک مارکیٹ قرار دیا تھا لیکن آج کل دھرنوں کی وجہ سے یہ دبائو کا شکار ہے۔ انرجی کے شعبے میں حکومت نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے، اضافی بجلی کی پیداوار اور ایل این جی کی امپورٹ سے صنعتوں میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ تقریباً ختم ہوگئی ہے جس سے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو 3.7 ملین سے بڑھاکر 5.36 ملین افراد تک کردیا گیا ہے لیکن ان سنہرے اسپاٹس کے گرد کچھ سیاہ حلقے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن میں ملکی ایکسپورٹ اور زرعی سیکٹر کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ ہماری مجموعی ایکسپورٹس 25 بلین ڈالر سے کم ہوکر 20 بلین ڈالر ہوگئی ہیں جبکہ زراعت کے شعبے میں کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 10 ملین بیلز ہوگئی ہیں۔ اسی طرح نقصان میں چلنے والے قومی اداروں جن میں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا، پیپکو اور ریلوے شامل ہیں، کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی خزانے پر ہر سال ان اداروں کا ناقابل برداشت بوجھ پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ اقبال نے بتایا کہ دنیا میں کاروبار دوست ماحول میں 189 ممالک میں پاکستان کا نمبر 138 آتا ہے جس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کے65 فیصد پہنچ چکے ہیں اور ملک کے قرضوں کے حد کے قانون (جی ڈی پی کا 60 فیصد) سے تجاوز کرگئےہیں۔
سیمینز پاکستان کے جرمن نژاد منیجنگ ڈائریکٹر ہیلموٹ وون اسٹروو جو اوورسیز انویسٹرز چیمبر کی نمائندگی بھی کررہے تھے، نے بتایا کہ پاکستان کا سب سے روشن اسپاٹ اس کی افرادی قوت ہے جس میں 60 فیصد نوجوان شامل ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اوورسیز انویسٹرز چیمبر کی 80 فیصد سے زائد کمپنیاں پاکستان میں بہترین منافع کمارہی ہیں۔ یونی لیور کے سابق چیئرمین اور پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو احسان ملک نے بتایا کہ پاکستان میں ٹریڈ ویژن کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہماری کوئی مشترکہ تجارتی حکمت عملی واضح نہیں۔ ایف بی آر کا کام صرف زیادہ سے زیادہ ریونیو کا حصول ہے جس کی وجہ سے لاتعداد بلاواسطہ ٹیکسز کی بھرمار ہے جو صنعت کو غیر مقابلاتی بنارہی ہے، وزارت تجارت کے ترجیحی تجارتی معاہدوں پی ٹی اے اور ایف ٹی اے کرنے کے باوجود ملک کو 14 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے، ملکی ادارے اور وزارتیں تنہائی میں کام کررہی ہیں جن کے درمیان باہمی روابط کا فقدان ہے، پاکستان بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود مقامی سرمایہ کاری اور تجارت پر کوئی فوکس نظر نہیں آتا جسے فروغ دے کر ہم 7 سے 8 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرسکتے ہیں۔ حکومت کے ترجمان مصدق ملک نے تھر، گوادر، پورٹ قاسم، جھمپیر اور گھارو کو پاکستان کے مستقبل کے روشن پروجیکٹس قرار دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے انرجی اور انفرااسٹرکچر سیکٹرز میں ترجیحی اور واضح ویژن ہے۔ تھر کے صرف ایک منصوبے میں 2500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے جو ہمارے کالے سونے کو زمین سے نکال کر توانائی کی شکل میں تبدیل کردے گا۔ وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر نے بتایا کہ کوئی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ 3 سالوں میں 19000 انڈیکس سے 41000 انڈیکس تک پہنچ جائے گی اور ایمرجنگ مارکیٹوں میں خطے کی بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دی جائے گی۔ حکومت پہلے 3 سال معاشی استحکام اور باقی دو سالوں میں گروتھ پر فوکس کررہی ہے۔
میں نے اپنے موضوع ’’انرجی ہماری معاشی ترقی کا انجن‘‘ کے حوالے سے بتایا کہ حکومت کی انرجی سیکٹر میں کارکردگی یقینا ایک کامیاب اسٹوری ہے۔ ایل این جی کی امپورٹ سے آج سندھ اور پنجاب میں ہماری صنعتیں بلاتعطل چل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی ملک میں نئے صنعتی گیس کنکشن پر پابندی ہے جس سے ملک میں صنعتکاری کا عمل جمود کا شکار ہے اور نئی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد نئی صنعتیں لگانے اور موجودہ صنعتوں کے پھیلائو کیلئے صنعتی گیس کنکشن پر پابندی ختم کرے۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں صنعت کو انرجی سپلائی کرنا حکومتی ترجیحات تھیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں 64 فیصد سے زیادہ انرجی فرنس آئل اور دیگر مہنگے ذرائع سے پیدا کی جارہی ہیں جبکہ سستے ہائیڈل ذرائع سے صرف 33 فیصد بجلی حاصل کی جارہی ہے جس کی وجہ سے مقابلاتی حریفوں بالخصوص بنگلہ دیش کے مقابلے میں ہماری بجلی کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نرخ 11 سینٹ، بھارت میں 9 سینٹ اور بنگلہ دیش میں 7 سینٹ فی کلو واٹ ہیں لہٰذا حکومت کو بجلی کے نرخوں میں کمی لانا ہوگی تاکہ ہماری صنعتوں کی مقابلاتی سکت برقرار رہ سکے۔بہتر معاشی کارکردگی کے ساتھ امن و امان کی بہتر صورتحال اور سی پیک منصوبے پاکستان کے مستقبل کے وہ سنہرے اسپاٹس ہیں جو مستقبل میں پاکستان کو خطے میں ایک اہم ملک بنادیں گے لیکن اس کیلئے ہمیں ملک میں معاشی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔



.
تازہ ترین