• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ریاست جس میں انتہا پسندی اورقانون کو بائی پاس کرتے ہوئے عوام کی طرف سے کسی کو سزا دینے کا رجحان فروغ پاچکا ہو اور ایک معاشرہ، جس میں صحیح اور غلط کی تمیز مٹ چکی ہو، میںممتاز قادری جیسے قاتلوں کو ہیروبنا کرپیش کیا جاتاہے۔ ایسی ریاست یا سوسائٹی میں کوئی بھی جو انتہا پسندی سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف بولنے اور ممتاز قادری جیسے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کی بات کرتا ہے، اسے اپنی جان بچانے کیلئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ہم معقولیت، برداشت اور انسانی قدروں سے اتنے بیگانہ ہیںکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ کسی کو قتل کردینے کیلئے توہین کا محض الزام ہی کافی سمجھتا ہے۔ اس ماحول میں سپریم کورٹ کی طرف سے ممتاز قادری کیس کا معقول فیصلہ قابل ِ تحسین حد تک دلیرانہ ہے۔ ٹرائل کورٹ کے جس جج نے ممتاز قادری(جس نے سرِعام سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا) کوسزائے موت سنائی،کو جان بچانے کیلئے پاکستان سے فرار ہونا پڑاتھا۔جب ممتاز قادری کی اپیل کی سماعت ہورہی تھی تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں خوف کی فضا اتنی گہری تھی کہ کمرہ ٔ عدالت کے باہر کھڑے وکلا بھی دم سادھے، یا ایک دوسرے سے سرگرشیوں میںبات کررہے تھے ۔ اس خوف کی وجہ انتہا پسند جماعتوں کے کارکن تھے جو قریب ہی خوفناک نعرے لگارہے تھے۔ سپریم کورٹ کافیصلہ اور سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی آبزرویشنز تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اُنھوں نے کوئی نیا قانون وضع کیا، بلکہ اس لیے کہ اُنھوں نے عوام کو توہین کے قانون کی مبینہ خامیوں کو زیر ِ بحث لانے کا حوصلہ بخشا۔ ا س سے پہلے انتہاپسندوں کے گروہ اس قانون کو مکمل گرادنتے ہوئے اس پر ذرہ بھر تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس پس ِ منظر میں اس فیصلے اورآبزرویشنز کو انقلابی پیش رفت قرار دیا جانا چاہیے۔ ان سے تقویت پاتے ہوئے ہمارے سیاسی رہنما بھی معاشرے میں پروان چڑھنے والے شدت پسندی کے خلاف بیانیہ آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ممتاز قادری کو قاتل اور دہشت گردقراردیتے اور اسلام میں شدت پسندی کا جواز قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ۔ فاضل جج حضرات نے ثابت کیا کہ قانون کی سربلندی کیلئے موت کے خوف کو جھٹکنا ہوگا۔ یہاں یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ فاضل عدالت نے اُن افراد کا منہ بھی بند کردیا جو کہتے تھے کہ فوجی عدالتوں کی اس لیے ضرورت ہے کیونکہ سول عدالتوں کے جج خوف کی وجہ سے دہشت گردوں کو رہا کردیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور آبزرویشنزانتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے عدلیہ اور ایگزیکٹو اور قانون سازوں کے دل پر چھائی ہوئی خوف کی فضا چھٹنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ توہین کے قوانین پر ذرا سی لب کشائی اُنہیں عوامی غیض وغضب کا نشانہ بنادے گی اور پھر کوئی جنونی اُن کی جان لینے کے درپے ہوجائے گا۔ اگرچہ تفصیلی فیصلہ (اگر اُسے بھی جسٹس کھوسہ نے تحریر کیا ہوگا) کسی کو نام نہادمذہبی جذبات کی بنا پر قتل کردینے ، آئین کے مطابق کسی بھی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت اور قانون اور اخلاقیات کے باہم ٹکرائوکے حوالے سے ان آبزرویشنز میں، جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ ہوا، بہت اہم معروضات پیش کی گئیں۔ عدالت کی طرف سے اٹھایا گیا پہلا نکتہ یہ ہے کہ توہین کے قانون کا ناقدانہ جائزہ لینا بذات ِخود توہین کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہماری ریاست اور ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم کہ کہیں اب جاکے فاضل عدالت کو ہمیں یہ بات سمجھانا پڑی۔ آزادی اظہار یقینا نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے توہین بھی نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتی ہے، لیکن توہین کے قانون کے حوالے سے دی گئی دلیل بذات ِخود توہین کا فعل یا قول قرار نہیں پاتا اور نہ ہی اسے مجرمانہ سرگرمی تصور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم جس طریقے سے توہین کے قانون کا مسودہ تیار کیاگیا اور جس طرح کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، اُس میں اس قانون کے منفی استعمال کا گمان خارج از امکان نہیں۔ اس میں موجود خامیوں اور نقائص کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی جنونیوں اور اس قانون کو غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی انتقام کے جذبے کو تسکین دینے والے افراد کا محاسبہ کیا جاسکے۔ معاشرے میں تنگ نظراور جنونی افرادکے رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات295 بی اور سی( جو کہ یقینا الہامی فرمان نہیں بلکہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہیں) پر نظر ِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کا منفی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس قانون پر تنقید کرنا یا یہ کہنا کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے، توہین کے زمرے میں نہیں آتا، لیکن عدالت نے یہ بات اُس وقت کہی ہے جب ،اگرچہ ملک میںآپریشن ضرب ِ عضب چل رہا ہے، کوئی بھی ریاستی ادارہ یا رہنما توہین کے قوانین کو چھیڑنا نہیں چاہے گا۔ فاضل عدالت کی طرف سے اٹھایا گیا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ کسی مجرم کی داخلی نیت کو نہیں دیکھا جائے گا کہ سرزد ہونے والا جرم دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں، بلکہ دیکھا جائے گا کہ کیا اس سے عوام اور معاشرے میں دہشت پھیلتی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں مروج انسداد ِ دہشت گردی کے قوانین مذہبی، مسلکی اور گروہی عقائد کی بنیاد پر ہلاکت کو دہشت گردی قراردیتے ہیں۔ کیا تحریک ِ طالبان پاکستان کا دعویٰ نہیں کہ وہ کسی ’’نیک اور خدائی مقصد‘‘ کیلئے ہمارے شہریوں، بچوں اور سیکورٹی اہل کاروں کو ہلاک کررہی ہے؟کیا داعش نے ان ریاستوں اور شہریوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا ہوا جو ان کی مذہبی تشریح کے راستے سے انحراف کریں؟ کیا تمام مذہبی دہشت گرد گروہوں اپنے مذہبی اور مسلکی نظریات طاقت کے زور سے دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں سمجھتے؟اگر یہ تمام گروہ دہشت گرد ہیں تو پھرسلمان تاثیر کا قاتل اور اسے ہیرو کا درجہ دینے اور نفرت انگیز تقاریر سے تشدد پر اکسانے والے ان جہادی دہشت گردوں سے کس طرح مختلف ہیں؟مذہب‘شدت پسندی کے نام پر مارنے والے قاتل کی طرح کے دہشت گردوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے کا موقف بالکل وہی ہے جو کچھ عرصہ پہلے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے بارے میں تھا۔ آپریشن ضرب ِ عضب شروع ہونے سے ٹھیک پہلے میڈیا اور معاشرے میں طالبان کے حامیوں کا غلبہ اور غلغلہ تھا۔اُس وقت معقول سوچ رکھنے والے میڈیاہائوسز بھی طالبان کے خلاف موقف پیش کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ہم ٹی ٹی پی کے ترجمانوں، لال مسجد کے مولوی عبدالعزیزاور انتہا پسند تنظیموں کے رہنمائوں کے لیکچر سنتے تھے۔ وہ عوام کو اپنے تشریح کردہ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر خاکی وردی پوشوں نے ایک بیاینے کو تحریک دی، تو پھر اُن رہنمائوں کے منہ کو بھی زبان مل گئی جو دہشت گردی کے مخالف، لیکن پہلے خوفزدہ تھے۔ طالبان کے حامی چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھستے دکھائی دئیے۔ آج کا پاکستان دیکھیں اور یاد کریں کہ 2014 ءکے آغاز تک دہشت گردی کے خلاف بات کرنا خود کشی کے مترادف تھا۔
بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عقیدے کو جواز بنا کر دہشت گردی ، تشدد اور تنگ نظری پھیلانے والوں اورا ن کی مخالفت کرنے والوں کے پاس یکساں طاقت اور اختیار نہیں ہے۔ ان کے خلاف لب کشائی کیلئے بہت زیادہ ذاتی حوصلے اور جرات کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ نفرت پھیلانے والے اس دہشت ناک ٹولے کی طاقت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے مقابلے میں شہری کوئی بیانیہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ یہ گروہ ان کے شہری اور مذہبی حقوق کو اپنی دسترس میں رکھتا ہے۔ جب تک عوام کے آزادی اظہار نہیں ہوگااُس وقت تک ’’طاقت کا توازن‘‘قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی کو بھی اپنی رائے کے اظہار پر ہلاک کردیا جائے تو بیانیہ دب کر رہ جائے گا۔ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عدم توازن کو دور کرے ۔ اس مقصد کیلئے ایسے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے جن کا انتہا پسندوں غلط استعمال کرتے ہیں۔ ریاست کو اس بات پر بہت واضح ہونا چاہیے کہ وہ جرم ، چاہے اس کا کوئی بھی جواز ہو، کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ تیسر ااور انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ عدالتوں میں بیٹھنے والے جج حضرات نے قوانین، نہ کہ ذاتی اخلاقیات، کا نفاذ یقینی بنانا ہے۔ یہ بات صرف ججوںہی نہیں، بلکہ ریاست کیلئے بھی ضروری ہے۔ آئین کی بالا دستی کے بغیر ریاستیں صرف افراد کی اخلاقیات کی بنیاد پر نہیں چلتیں۔
تازہ ترین