• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب یہاں درختوں نے رنگ بدلنا شروع کردیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ خزاں شروع ہے پھرسردیوں اوربرف کا راج ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف واپس پاکستان روانہ ہوچکے ہیں۔ ان کو ایک دفعہ پھراکتوبر کے تیسرےہفتے میں امریکہ یاترا پر دوبارہ جانا ہے۔ یہ وزیراعظم پاکستان کا سرکاری دورہ ہوگا جس میں صدر امریکہ سے ملاقات ہوگی۔ امریکہ میں نئے صدر کےلئے انتخابی دنگل شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت صدر امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں اپنے ہدف پورے کرسکے۔ ایسے میں امریکہ اور بھارت نئے معاہدے کرتے جارہے ہیں۔ جب بھارت کے وزیراعظم امریکہ آئے تو انہو ں نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں پر زیادہ توجہ نہ دی بلکہ اپنے دورہ میںامریکہ کے طول و عرض میں اہم لوگوں سے ملنے ملانے میں گزارا۔ ایسے میں ان کا ایک نیا روپ نظر آیا۔وہ لوگوں میں گھلنے ملنے میںنمایاں رہے۔ ان کے وفد کی کوشش رہی کہ کسی طریقے سے سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرسکیں اور اس سلسلے میں کا م بھی ہو رہا ہے۔ صرف چینی دوستوں کی وجہ سے پاکستان کی بھی بات سنی جارہی ہے۔دوسری طرف ہمارے وزیراعظم نے زیادہ وقت تو اپنے ہوٹل میں گزرارا یا پھر ان کا پروگرام صرف خاص اپنے لوگوں سے ملنے تک محدود رہا۔ انہوں نے اپنے مہربانوں اور دوستوں کی پاکستانی کھانوں سےتواضع بھی کافی کی۔ اس کیلئے خاص باورچی حضرات پاکستان سے گئے تھے اور محترمہ ملیحہ لودھی کی رہائش گاہ پر کھانا تیار کیا جاتا اور اس کووزیراعظم کے ہوٹل لایا جاتا۔ ایک تصویر جو سوشل میڈیا پرگردش کر رہی ہے اس میں محترمہ ملیحہ لودھی اور جناب نواز شریف کھانے کی میز پر براجمان ہیں اور ایک اہم سرکاری ملازم میاں صاحب کی بات بہت غور سے سننے کی کوشش کر رہاہے۔ اب چند دن کے بعد امریکی دوست سرکاری طور پر جناب نواز شریف کا استقبال کریں گے۔ اس کیلئے دونوں فریق کافی کام کرچکے ہیں۔ اس دورہ کے اہم مقاصد میں پاک امریکہ تعلقات میں مزید توجہ اور باہمی مفادات پر تبادلہ خیال ہوگا۔امریکہ میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کی حکومت نہیں چلارہی اور اس ہی وجہ سے کوئی بھی وزیر خارجہ ابھی تک نہیں بنایا جاسکاہےجبکہ مشیر خارجہ کی حیثیت میں دو سابقہ خارجہ امور کے لوگ میاں صاحب کے ساتھ ضرور نظر آتے ہیں۔ اس وقت واشنگٹن کے سفارتی حلقوں میں یہ بات سنی جارہی ہے کہ امریکہ پاک بھارت معاملات میں دونوں ملکوں کیلئے اقوام متحدہ کے ذریعے بہتر تعلقات چاہتا ہے جبکہ اس امریکی تجویز سے برطانیہ اور چین بھی متفق ہیں۔ امریکہ کو ایران اور افغانستان کے حوالے سے بھارتی رویہ پر صرف تشویش ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ خطے کےممالک جنگی کیفیت کا شکارہوں جبکہ صدر امریکہ کے پالیسی بیان کے مطابق جنگ اور پیسے سے کسی ملک پر قبضہ رکھا تو جاسکتا ہے مگر یہ عمل مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ پاکستان کی افواج کے حوالے سے مطمئن ہے مگر پاکستان میں جو سیاسی صورتحال ہے اس پر وہ خوش نہیں اور بنیادی طور پر یہ معاملہ جناب نواز شریف کے دورہ میں فریقین کےلئے اہم ہوگا۔پاکستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں اس نے برطانوی سرکار کومعاملہ فہمی دے رکھی ہے۔ اس کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان میں امن اورسکون ہو اور وہ اس کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی لوگوں کے بارے میں نرم گوشہ بھی رکھتا ہے۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے معاملہ پر برطانوی حکومت مفادات کے تناظر میں معاملے کو طول دے رہی ہے۔ جناب چوہدری نثار کے امریکی دوستوں کا خیال تھا کہ اس دفعہ الطاف حسین پر فرد ِ جرم عائد کردی جائے گی مگر سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ حکومت پاکستان نے جو ثبوت دیئے تھے ان کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جناب وزیراعظم کے دورہ میں امریکی دوست پاکستان کی افواج کے سربراہ جنرل راحیل کے حوالے سے حکومت ِ پاکستان کو مشورہ دینے کا خیال رکھتے ہیں اور اس کی بازگشت پاکستان کے سفارتخانہ میں بھی ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف کو اضافی مدت قبول ہوگی؟ پاکستان کے معتبر حلقے کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا صرف اگلے کماندار کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کے بعد اب جو بھی چیف بنے گا اس کی مدت ملازمت چار سال ہوگی تاکہ وہ مزید یکسوئی سے اپنے امور سرانجام دے سکے۔ اگر جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہوتا یا وہ نہیں لیتے تو کون سا جنرل پاکستان کی افواج کا چیف ہوسکتا ہے۔ اس وقت جس نام پر زیادہ تکرار نہیں ہے وہ جنرل زبیر محمود ملک کاہے۔ وہ کور کمانڈر کوئٹہ ہیں اور ان کی مدت ملازمت 23ستمبر 2019ہے۔ اگر تو چیف کی مدت ملازمت تین سال رہی تو اس صورت میں لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض اگلےآرمی چیف بن سکتے ہیں۔ یہ صرف اندازہ ہے۔ یہ تمام معلومات ہمارے امریکی دوستوں کی نظرمیں ہے۔ میں نے امریکی مہربانوں سے کہا کہ یہ سب معلومات تو پاک فوج کی جانب سے نیٹ پر ہیں اور اس میں حیرانی کیسی؟ پھر یہ نہ معاملہ ہے نہ مسئلہ تو امریکی دوست اتنی توجہ کیوں دیتے ہیں؟ ہمارے دوست کا جواب حیران کن تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تمہارے جتنے بھی سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری ملازم ہیں، ان پراعتبار کرنا مشکل ہے۔ تمہارے وزیرخزانہ آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لے رہے ہیں اورو ہ ہماری سفارش پر لے رہے ہیں مگر اس کے بدلے میں اعداد و شمار اور کارروائی سب کی سب قابل یقین نہیں۔ فوج کے لوگ اس معاملہ میں اصولی بات کرتے ہیں اوراختلاف پر بات سنتے ہیں اور مشورہ بھی دیتے ہیں۔ تمہارے ملک کی معاشی حالت قابل فکر ہے پھر کرپشن کی وجہ سے نظام حکومت اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے۔ تمہارے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش نہیں۔ اب تم ہی بتائو ہم کس کو توجہ دیں اور کس کی بات سنیں اور یہ ہی معاملہ امریکی سرکار کا ہے۔ امریکی پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان اس علاقہ میں اہم حیثیت کا مالک ہے۔ بھارت کے ساتھ وہ جنگ نہیں چاہتا اور ہم بھی بھارت کو باورکرانا چاہتے ہیں کہ ترقی کے لئےجنگ مناسب نہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے کے کیا اہداف ہوسکتے ہیں؟ایک تو معاملہ امریکی امداد کا ہے۔ اسکے بارے میں امریکی دوستوں کا کہنا ہے کہ جو امداد ہم پاکستان کی سرکار کو دیتے ہیں وہ خاص طور پر اور جو ہم عوامی مفادات کے منصوبوں پر لگاتے ہیں ان میں کرپشن اور بدانتظامی بہت ہے۔ اس معاملہ پر دونوں فریق تجاویز کا تبادلہ کرینگے۔ پھر کشمیر کے معاملے پر امریکہ کو اخلاقی نہیں اصولی مدد بھی کرنی ہوگی۔ دیکھیں اس دفعہ میاں صاحب کتنے لوگ لاتے ہیں ؟کتنے جہاز ان کیلئے سامان لائینگےاور امریکی کون سے پاکستانی کھانوں سے متاثر ہوتے ہیں اور کتنا خرچہ کرتے ہیں؟
تازہ ترین