• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کئے ہیں ، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت سنگین اور انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کو جوابی الزامات عائد کرنے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویزرشید نے اگلے روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کیساتھ ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان نے بھارتی اور اسرائیلی لابی سے فنڈز حاصل کئے اور اس رقم سے پاکستان میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں فنڈز دینے والے کچھ لوگوں کے نام بھی میڈیا کو بتائے۔ پرویز رشید نے توعمران خان کیخلاف وہ باتیں بھی کہہ دیں، جو قیام پاکستان کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کیلئے کی تھیں۔ سیاست دانوں نے بڑی مشکل سے ان باتوں کو متروک کرایا ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے عمران خان کو چور ، غدار اور ملک دشمن قرار دیا ۔ اسی طرح عمران خان نے شریف خاندان پر اربوں روپے کی کرپشن اور پاکستان کو تباہ کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں ۔
پاکستان کی سیاست میں اس طرح کے سنگین الزامات کا جو سلسلہ دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے خود سیاست دانوں نے شروع کیا ہے ، اس کے تدارک کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان الزامات کی تحقیقات کی جائیں ۔ اگر الزامات درست ثابت ہوں تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے اور اگر الزامات غلط ثابت ہوں تو الزامات عائد کرنے والے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے قیام پاکستان کے بعد جمہوریت اور سیاست کے خلاف ایک منصوبہ بندی کے تحت کام کیا اور سیاست دانوں پر ملک دشمنی ، غداری اور کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرنے کو ایک ریاستی بیانیہ ( Narrative ) کے طور پر رائج کیا ۔
90 ء کی دہائی تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور سیاست دان بھی اس ریاستی بیانیے سے کام لیتے رہے اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں قومی سیاسی قیادت نے ماضی کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کے سنگین الزامات عائد نہیں کریں گی ۔ کسی کو ثبوت کے بغیر غدار، ملک دشمن اور کرپٹ نہیں کہا جائے گا ۔ سیاسی قیادت نے اس اصول کو سیاسی اخلاقیات کے طور پر اپنایا اور نہ صرف اسے میثاق جمہوریت میں شامل کیا بلکہ اسے پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کا بھی حصہ بنایا گیا لیکن حالیہ ضمنی انتخابات سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کئے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ اگر ان الزامات کی صحت کا فیصلہ نہ کیا گیا تو ملک میں پھر وہی گندی ( Dirty ) سیاست شروع ہوجائے گی ، جس کا بعض غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے جو الزامات عائد کئے ہیں ، کم و بیش یہی الزامات کچھ عرصہ قبل جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی عائد کر چکے ہیں ۔ے
مولانا فضل الرحمن کے بارے میں تحریک انصاف کے لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سیاسی طور پر پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف پر الزامات عائد کررہے ہیں ۔ اب تحریک انصاف والے یہی بات پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی کہہ رہے ہیں ۔
ان کا یہ موقف ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کو چیلنج کیا ہے ، اسلئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما تحریک انصاف کیخلاف اس طرح کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں ۔ اب ان الزامات کا معاملہ الیکشن کمیشن میں بھی اٹھایا گیا ہے اور کوئی فیصلہ ہونے تک ان الزامات پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہئے لیکن سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے ۔ اس آپریشن کا دائرہ کار دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں تک بھی وسیع کر دیا گیا ہے ۔ خاص طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو گرفت میں لایا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں وہ لوگ بھی اس آپریشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں جو پاکستان میں تخریب کاری، سبوتاژ کی کارروائیوں اور داخلی عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں ۔
تحریک انصاف پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جو الزامات عائد کئےگئے ہیں ، وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تحقیقات کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اگر یہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو اس طرح کے دیگر الزامات کو بھی لوگ سیاسی بنانے کی کوشش کرینگے اور اس سے آپریشن متاثر ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا سیاست دانوں کو اس طرح کے الزامات عائد کرنے سے پہلے بہت سوچنا چاہئے ۔ اگر صرف ضمنی انتخابات کی وجہ سے سیاسی مقابلے بازی میں اس طرح کے الزامات عائد کئےجا رہے ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک ہیں ۔
سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کا یہ کہنا درست ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے ، سب کا احتساب ہونا چاہئے ۔ اگر سیاسی قوتوں کے خوف سے سیاست دان ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتے تو بھی یہ ایک دیانت دارانہ سیاسی رویہ نہیں ہے ۔
سیاست دان ہی ایک دوسرے کا احتساب کر سکتے ہیں اور یہ جرات سیاست دانوں میں ہی ہے لیکن غیر ذمہ داری کا مظاہرہ انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ اگر مہران اسکینڈل کے کرداروں کا احتساب ہو جاتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے پر اس طرح کے سنگین الزامات کو صرف سیاسی مخاصمت قرار دے رہے ہیں اور کوئی اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے تیا رنہیں ہے ۔ ان الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے ۔ ورنہ الزامات در الزامات کی سیاست دوبارہ شروع ہو جائے گی ، احتساب ایک مذاق بن جائے گا اور اس صورت حال سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھائیں گی ۔
تازہ ترین