• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کی طرف سے بنائی، انسانی تقدیر کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک تقدیر معلق، دوسری تقدیر مبرم۔ تقدیر معلق کو دعا اور صدقہ سے بدلا یا ٹالا جا سکتا ہے لیکن تقدیر مبرم اٹل ہے، ٹلتی نہیں۔ یہ نہ بدلنے والی تقدیر کا واقعہ ہے، جس کی پیش گوئی ہمارے سامنے، قبل اوقت کر دی گئی تھی۔ 1988 جولائی کے مہینے کے ابتدائی ایام تھے، جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرکے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا تھا، اس کے باوجود ملک بھر میں بے یقینی، انجانا خوف اور بے چینی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
راقم کو سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے فیصل آباد سے اسلام آباد جانا تھا۔ ان دنوں پنڈی، اسلام آباد کیلئے فیصل آباد سے سرگودھا، خوشاب، کٹھہ کی پہاڑیوں سے ہوتے ہوئے براستہ کلرکہار، چکوال جایا کرتے تھے۔ بذریعہ کار یہ کوئی آٹھ گھنٹے کا سفر تھا، ان دنوں چوہدری ریاض ضلع چکوال کے ڈپٹی کمشنر تھے، جواں سال طارق پیرزادہ مجسٹریٹ، نوجوان ارشد مرزا اسسٹنٹ کمشنر اور مسعود بنگش ایس پی تھے۔ چوہدری ریاض صاحب کا فون آیا، پوچھا آپ اسلام آباد جا رہے ہو؟ عرض کیا ’’ہاںٔ‘‘، ’’تو آتے ہوئے ’’مرلی‘‘ کو لیتے آئیے۔ٔ‘‘ ’’مرلی‘‘ کا اصل نام سلیم تھا جو فیصل آباد کے کچہری بازار میں فٹ پاتھ پر بیٹھا اپنی قسمت کو کوستے ہوئے لوگوں کو مستقبل کا حال بتایا کرتا تھا۔ یہ کورا، ان پڑا، منحنی سا بوڑھا آدمی ’’رمل‘‘ کے علم کا بے بدل استاد تھا۔ اگلے دن نماز مغرب سے پہلے ہم لوگ چکوال ہائی وے کے ریسٹ ہائوس میں موجود تھے۔ چوہدری ریاض صاحب نے ’’رمل‘‘ کی گوٹیاں پھینکیں، سلیم نے ان کا اور ان کی والدہ کا نام پوچھا، تھوڑی ہی دیر میں ’’زائچہ‘‘ بنا کر پیش گوئی کیلئے تیار تھا، اس نے کہا، صاحب زائچہ کوئی بڑا افسر ہے، سیشن جج یا پولیس کپتان کی طرح، جو قلم سے فیصلے لکھتا اور حکم دیتا ہے، عنقریب آپ سے بھی کوئی بڑا افسر ہے، جو آپ سے ناراض ہوگا اور آپ کو اس شہر سے تبدیل کر دیا جائے گا، اور یہ70 دنوں کے اندر ہوگا۔ ہم نے سلیم سے پوچھا، کیا وہ ایسے شخص کا زائچہ بھی بنا سکتا ہے جو یہاں موجود نہیں؟ بولا ہاں بنا سکتا ہوں، کہنے لگا آپ اس کی شکل ذہن میں رکھیں اور رمل کی گوٹیاں پھینک دیں، اس نے نام پوچھا، اب اسے ادھورا نام بتایا گیا، ’’ضیا۔‘‘ کہا ’’والد کا نام؟‘‘ ’’معلوم نہیں،‘‘ اس نے والدہ کی جگہ ’’اماں حوا‘‘ لکھا، زائچہ بنا چکنے کے بعد بولا ’’یہ تو کوئی بادشاہ، جیسے کوئی فرعون ہوتا ہے، بہت ہی بڑا بادشاہ، حکم دینے والا۔ وہ صدر، وزیراعظم کے عہدوں سے لاعلم تھا، پرانی وضع کا ان پڑھ آدمی، کہنے لگا یہ آپ کا دوست ہے؟ ہاں ہمارا دوست ہے، اچھا، آپ کا یہ دوست بڑے خطرے میں ہے، اسے کہو یہ صدقہ دے مگر مرغ یا بکرے کا نہیں بلکہ گائے یا بھینس، پھر وہ زائچہ کو پڑھتا رہا، فکرمندی کے ساتھ دوبارہ مخاطب ہوا، یہ تو بہت زیادہ خطرے میں ہے، اسے تو گائے بھینس کے ’’اجڑ‘‘ (ریوڑ) ذبح کرنے ہوں گے۔ اب سلیم عرف ’’مرلی‘‘ بہت ہی تھکا ہوا اور رنجیدہ نظر آنے لگا، پھر بولا، ’’چوہدری صاحب! مجھے افسوس ہے، بات بنتی نظر نہیں آتی،‘‘ پوچھا تو پھر کیا ہوگا؟ بولا آپ نے کبھی اونچی چھت سے زمین پر اینٹ گرتے دیکھی ہے؟ بس اسی طرح زمین پر گر کے ختم ہو جائے گا، یہ سب کچھ ستر (70) دنوں کے اندر ہے.....
ہمیشہ کی طرح سب دوست ’’سلیم‘‘ کی باتیں بھول گئے۔ 17 اگست کو ضیاالحق کا طیارہ بہاولپور کی فضائوں میں گرا، جس میں صدرمملکت سمیت اعلیٰ فوجی قیادت شہید ہوگئی۔ رات کو ہوسٹل کے فون پر چوہدری ریاض مخاطب تھے، ضیاالحق کیلئے تعزیت اور افسوس کیا، پھر بولے ’’مرلی‘‘ کی پیش گوئی یاد ہے؟ اس کے ساتھ ہی سلیم عرف ’’مرلی‘‘ کی باتیں یاد آگئیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آج اس کی پیش گوئی کئے چھتیس واں دن ہے۔ اب میں (ریاض) نے بھی اپنا بستر باندھ لیا ہے، اس کی یہ بات ٹھیک نکلی تو میرے بارے میں کہی باتیں بھی ٹھیک ہوں گی، چند دنوں کے بعد چکوال کا سب سے بااثر سیاسی خاندان(سردار غلام عباس وغیرہ) پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے، اس بات پر وزیراعلیٰ نوازشریف ڈپٹی کمشنر سے ناراض ہوئے اور انہیں ’’او ایس ڈی‘‘ بنا کر سردخانے میں لگا دیا۔
اسرائیل کی مذہبی داستانوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ ؑجو زمین پر پہلے انسان اور پیغمبر تھے، ان سے لے کر حضرت نوح ؑ تک امتیں، جب اللہ کے حضور قربانی پیش کرتیں تو آسمانوں سے آگ اترتی ہے جو مقبول قربانی کو اٹھا لے جاتی۔ حضرت آدمؑ کے بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی کی تو ہابیل کی قربانی مقبول ہوئی، آسمانی آگ اسے اٹھا لے گئی لیکن قابیل کی قربانی ’’قربان گاہ‘‘ پر دھری رہ گئی۔ یہی بات قابیل کے لئے حسد کی وجہ بنی، حسد کی تنگ دلی سے مجبور قابیل نے اپنے نیک فطرت بھائی ہابیل کو قتل کر دیا..... زمین پر نوع انسان کا پہلا قتل۔
افریقہ کے اس جنگل میں جنگلی حیات بکثرت پائی جاتی تھی، صحت مند، خوش، مسرور، جنگل کے بوڑھے شیر کے بعد ایک بدنہاد، ظالم شیخی خورہ جنگل کا بادشاہ ہوا..... تو قدرت نے بھی ظلم کی اس ’’بستی‘‘ سے منہ پھیر لیا، تب سارے علاقے کو خشک سالی نے آن لیا، درختوں کے پتے جھڑ گئے، گھاس جل گئی، تالاب خشک اور پانی نایاب ہوا جنگل کی ساری مخلوق کی جان پر بن گئی۔ تب بادشاہ کو کسی نیک فطرت، خدا پرست کی تلاش ہوئی، جس کی دعا سے مخلوق کی مصیبت دور اور خشک سالی ختم ہو۔ سارے جنگل میں بگلا بھگت کی شہرت تھی، ہر سو اس کی نیکی، پرہیزگاری کا ذکر تھا، بادشاہ سلامت نے بھگت بگلے کے در پر حاضری دی اور عرض گزاری کہ اللہ کے نیک بھگت دعا کیجئے کہ جنگلی حیات کے دکھ دور اور خشک سالی ختم ہو۔ بھگت نے کہا دعا ضرور کروں گا، آپ لوگ بھی اللہ کے نام پر صدقہ دیں اور عزیز چیزوں کی قربانی کریں۔ جنگل کے بادشاہ نے منادی کروائی، جنگل کے باسیوں کا جلسہ ہوا، بادشاہ نے خطاب کیا، خشک سالی کی مصیبت کا رقت آمیز بیان ہوا، پھر بھگت بگلے سے ملاقات کا احوال کہا، صدقہ، قربانی کی فضیلت بیان کی اور کہا کہ آپ میں کچھ خود کو صدقے اور قربانی کیلئے پیش کریں تاکہ ساری مخلوق کو مصیبت سے نجات ملے۔ ایک ہرن جی کڑا کرکے اٹھا، جان کی امان مانگی۔ پھر بولا، بادشاہ سلامت ہم تو روز ہی آپ کی بھینٹ چڑھتے ہیں اور قیامت تک چڑھتے رہیں گے۔ آج مصیبت کی اس گھڑی میں آپ اور آپ کا خاندان کچھ قربانی دے۔ شیر بولا، اگرچہ میں اور میرا خاندان اس کیلئے تیار ہیں لیکن آپ کو پتہ ہے کہ شیر حلال نہیں ہے، اس لئے ہماری قربانی جائز نہیں۔ شیر نے پہلے سے قریب کھڑے تنومند بھینسے کو تاک رکھا تھا۔ یکا یک بھینسے پر جھپٹ پڑا، اس کی موٹی گردن میں دانت گاڑ دیئے تو خون بہہ نکلا، اس کی سانس رک گئی۔ یوں شیر کی شیری نے بھینسے کی قربانی دی۔ سنتے ہیں کہ شیر کی طرف سے دی گئی قربانی جوں کی توں، قربان گاہ میں پڑی ہے، آسمانی آگ اسے لینے نہیں آئی۔ شیر کی طرف سے دی گئی قربانی کے قبول نہ ہونے کا یہ اعلان ہے مگر خاموش اعلان۔


.
تازہ ترین