• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا ضمنی انتخاب کبھی ہوا تھا؟ شاید ایک بار پہلے بھی! جب مصطفیٰ کھر نے لاہور کی صوبائی نشست پر بھٹو صاحب کو چیلنج کیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب لاہور ابھی اتنا قدامت پسند ہوا تھا اور نہ روپے پیسے والوں کا سیاست میں سکہ جما تھا۔ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب نے ہماری سیاست کے بگڑتے رنگ ڈھنگ عیاں کردیئے ہیں۔ سیاسی نعروں، نظریوں اور پروگراموں کی جگہ اب سیاسی مغلظات کی بھرمار اور جمہوری چلن کی جگہ سیاسی قبضہ گیری یا واگزاری ہے۔ ایسے میں بیچارے عوام (جنہیں رائے دہندگی کے ذریعے حقِ حکمرانی بخشا گیا ہے) کی جو درگت پرانے اور نئے پاکستان والوں نے بنائی، خدا کی پناہ! مقابلہ تھا، تو بس مال لگانے کا۔ پیسہ پانی کی طرح اتنا بہایا گیا کہ شاید کچھ ہفتوں کیلئے ہی سہی، اس انتخابی حلقے میں خطِ غربت کے نیچے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ اب روایتی شریف سیاست لاثانی نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔ عوام کی سیاست کے خلاف دکانداروں، جائیداد و زمین کا دھندہ کرنے والوں اور ہمارے مولانا حضرات نے جو بھٹو کی مخالفت میںایکا کیا تھا، اُسے اب عمران خان نے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ دائیں بازو کی شریفانہ خدمت کے خلاف ’’نچن نوں جی کردا‘‘ والی قدامتِ نو زیادہ تروتازہ دکھائی دیتی ہے۔ انتخابی نتیجے سے قطع نظر اب لاہور پہ شریف خاندان کا اجارہ مات ہوتا دکھائی دیا اور اسے برقرار رکھنا محال محسوس ہوا۔
آخر ایسی کیا قیامت ٹوٹی تھی کہ ضمنی انتخاب کی کٹوری میں ایسا بھونچال مچا کہ تختِ لاہور کا تختہ ہونے کی نوبت آن پہنچی؟ مرکز اور پنجاب میں شریفوں کی اتنی بھاری اکثریت کے ہوتے ہوئے ایک حلقے کا انتخاب تو فقط ایک ضمنی کارروائی ہی رہنا چاہئے تھا۔ لیکن گردشِ ایام کا کیا کیجئے، یہ بے وقت اور بلاوجہ بھی سر پہ آن پڑتی ہے۔ بُرا ہو تین حلقوں میں انتخابی بے ضابطگی کے اوپر تلے فیصلوں کا جنہوں نے عمران خان کے چار حلقے کھولنے کے مطالبے میں نئی جان ڈال دی اور وہ 126روزہ دھرنے کی ناکامی کے بعد پھر سے چل پڑے سیاسی بائونسر مارنے اور اس اُمید سے کہ جو وکٹ اسلام آباد کے سرخ علاقے میں نہ گرائی جا سکی، اب لاہور کے جاندار گرائونڈ پہ ایک وکٹ گرا کر وہ شاید پھر سے موجودہ حکومت کی پچ ہی اُکھاڑنے میں کامیاب ہو پائیں۔ خواہش پہ دم نکالنے پہ کسی کو کیا اعتراض! بیچاری شریف حکومت جو پہلے ہی دھرنے کے ہاتھوں بال بال بچی تھی، اُس کے ہاتھ پائوں پھولنا عجب نہ تھا۔ اِس میں کم بختی غریب جمہوریت ہی کی آنی تھی۔ اگر عمران خان جیت گیا تو پھر سے گو نواز گو کی گردان میں جان پڑے گی اور اگر شریف جیت گئے تو عمران خان پھر سے ٹُھس اور شریف اور بھی تگڑے۔ تو جان کے لالے تو پڑنے ہی تھے۔ ایسے میں مغفور انتخابی ضابطۂ اخلاق کی مٹی ہی پلید ہونی تھی اور دبا کے ہوئی۔ اور مجذوب الیکشن کمیشن نےتماشہ دیکھا۔میاں نواز شریف بھلے مانس آدمی ہیں اور اُن کے اُمیدوار ایاز صادق بھی۔ اُنہیں پالا پڑا بھی تو ایک بھنائے ہوئے غضبناک بائولر سے اور ایسے بلے باز کے ساتھ جو فنِ شریفانہ سیاست اور شریفوں کی پچ پر کھیلنے میں کچھ زیادہ ہی مشتاق ثابت ہوا۔ ارادہ تو حکومت کا خاموشی سے ضمنی انتخاب بھگتانے کا تھا، لیکن عمران خان نے ایسی جارحانہ مہم شروع کی کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ کیا کچھ اشتعال ہے جو عمران خان نے نہیں دلایا اور کیا کچھ ہے کہ حکومتوں نے نہیں کیا۔ پہلی بار پوری کابینہ گلی کوچوں میں ووٹر کے منہ مانگے مطالبوں پر احکام صادر کرتی نظر آئی۔ لیکن علیم خان اکیلے ہی کافی تھے اور نرخ تھے کہ قربانی کے جانوروں کی طرح بڑھتے ہی چلے گئے۔ اتنا اودھم مچا کہ بیچاری جمہوریت کو تخت لاہور میں سر چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ کہا جاتا ہے کہ انتخابات جمہوریت کا جشن ہوتے ہیں۔ لیکن جو جشن لاہور میں بپا ہوا وہ آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔
عمران خان نے حکومت کی بداعمالیوں کیخلاف لمبا چوڑا کیس اتنا بڑھایا چڑھایا کہ حکومت کو دُور دُور کی کوڑیاں لانا پڑیں اور گم شدہ کڑیاں جوڑنی پڑیں۔ بیچاری ایم کیو ایم کی بھی کچھ اشک شوئی کرنا پڑی۔ وزیراعظم نے اندازے سے آدھی قیمت والے توانائی کے منصوبے کا افتتاح کر کے نندی پور کی ہزیمت کا سدِباب کرنیکی کوشش کی اور وزیرِخزانہ اور وزیراعلیٰ رات گئے تو ودہولڈنگ ٹیکس پر تاجروں کی ناراضگیاں دُور کرنیکی کوشش کرتے رہے۔ اور جب عمران خان نے وزیراعظم کیخلاف بدزبانی کی تمام حدیں توڑ دیں تو ہمارے پیارے دوست پرویز رشید بولے بھی تو کفن پھاڑ کے۔ بس پھر کیا تھا دُنیا نے ہمیشہ کی طرح پھر دیکھا کہ سیاست دان آپس ہی میں دست وگریباں ہیں ۔ بھلا کسی بھی طاقت کو سیاست دانوں کو نیچا دکھانے کی کیا ضرورت جب خود سیاستدان جمہوریت کو نقصان پہنچنانے پر تلے ہیں۔عمران خان کے دھرنے نے جمہوریہ کے پلے پہلے ہی کیا کم چھوڑا تھا کہ اس ضمنی انتخاب کی دھماچوکڑی باقی تھی۔
ضمنی انتخاب میں جیت ہار کسی کی بھی ہوئی جمہوریت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی شاید کچھ تلافی جیتنے اور ہارنے والے دونوں اُمیدواروں کو نااہل قرار دینے سے کچھ ہو سکے۔ لیکن یہ کون کرے گا؟ الیکشن کمیشن کو تو اتنا بدنام کیا گیا ہے کہ شاید اب کوئی شریف النفس نفس بچا ہو جو یہ بارِ ندامت اُٹھا سکے۔ عمران خان کے مطالبے پر فوج کو انتخاب کی نگرانی کیلئے بلانا پڑا۔ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل پہ اگر اتفاق نہ ہوا تو کیا الیکشن کمیشن بھی فوج ہی کے حوالے کرنا پڑے گا؟ اور پھر جب اگلے انتخابات آئے اور نگراں حکومتوں کی تشکیل پر بھی اتفاق نہ ہوا تو کون انتخابات کروائے گا؟تحریکِ انصاف ایک نئی سیاسی قوت ہے گو کہ یہ سیاسی و نظری اعتبار سے نواز لیگ کا متبادل (Alternative) تو نہیں نعم البدل (Substitute) ضرور ہے۔ اسے ایک واضح پیغام اور ٹھوس پروگرام دینا پڑے گا۔ خالی خولی تبدیلی کے نعروں سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ جمہوریت کے گھر کو گھر کے چراغ ہی جلانے لگیں تو کسی کے کچھ ہاتھ نہ آئیگا۔ دوسری جانب حکومت کو خاندانی و ذاتی طرزِ حکمرانی کی جگہ بہتر اور اچھی حکمرانی کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پرانے وقت کی پھٹی پرانی پارٹیاں ہیں تو عمران خان کس نئی سیاست کے نمائندہ ہیں؟ آخر کب تک چنائو ایک ہی طرح کے دائیں بازو کی مختلف جہتوں کے درمیان ہوگا؟ عوام کے پاس چنائو کی آزادی کیا باقی رہی، جب ایک ہی طرح کے دو قصاب اُن کی قربانی پر مصر ہوں۔ لاہور کے معرکے کو تو دیکھ کر یہ خیال آیا کہ بے نظیر بھٹو کا خلا کسی کو تو پُر کرنا چاہئے! تاریخ کیوں اتنی یکطرفہ ہو گئی کہ انتخاب ممکن نہیں رہا۔ ضمنی انتخاب کی پیالی میں کیسا ہی بھونچال پیدا کیجئے، عوام کو اس سے کیا فرق پڑنے والا ؟
تازہ ترین