• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رواں ماہ پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ کے اندر ہونے والی دہشت گردی نے جہاں کئی ماؤں کی گودیں اُجاڑی ہیں وہاں پاکستانی عوام کو تحفظ دینے کے مختلف مراحل سے گزرکر مکمل تیار ہونے والے ’’ انڈر ٹریننگ ‘‘ جوانوں کی حفاظت کے حوالے سے پولیس ٹریننگ اسکول میں عدم سیکورٹی پربہت سے سوالات بھی چھوڑے ہیں جن کے جوابات شاید کوئی نہ دے سکے لیکن سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی’’روحیں ‘‘ اُن جوابات کی منتظر ضرور رہیں گی۔پاکستانیوں کے جان ومال کی حفاظت کرنے والے نوجوان خود اتنے غیر محفوظ کیوں تھے ؟ خستہ ہال دیواروں کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے حکم کے باوجود پختہ کیوں نہیں کیا گیا ؟آئی جی بلوچستان جنہیں اطلاعات تھیں کہ یہاں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں،اُن اطلاعات پر ایکشن کیوں نہ لیا گیا ؟ ٹریننگ اسکول کی دیواروں کو پختہ کرنے کے لئے فنڈزدینے کے اعلان پر عمل کیوں نہ ہوا ؟ یا سمجھا جائے کہ اس سانحہ کے رُونما ہونے تک فنڈز ’’ ادا ‘‘ نہیں کئے جانے تھے ؟ خیر یہ تو وہ باتیں اورسوالات ہیں جو شہداء اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد ہمارے کرنے کے لئے چھوڑ گئے ہیں، میری یہ اپنی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ سب پڑھنے والے اس سوچ سے متفق ہوں،لیکن مجھے یہ سب کہنا ہے، کیونکہ میںسمجھتا ہوں کہ شہدائے کوئٹہ ہمارے بچوں اور خاندان کے رکھوالے تھے، ہم دیار غیر میں بیٹھے شہداء کے لواحقین کو اُن سے مل کر تسلی و تشفی نہیں دے سکتے،ہم اُن رونے والے والدین سے بہت دُور ہیں لیکن اتنے دُور نہیں جتنے دُور اُن بوڑھے ماں باپ کے جوان بیٹے اُنہیں چھوڑ کرجا چکے ہیں۔ہم اپنی تحریر اور الفاظ کے’’ رُومال‘‘ سے شہداء کے لواحقین کے آنسو ضرور پُونچھ سکتے ہیں۔اس سانحہ نے دُنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کو ’’ رُلا ‘‘ دیا ہے۔تارکین وطن یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پولیس اور فوج جہاں محفوظ نہیں وہاں ہمارے اہل خانہ کی حفاظت کون کریگا ؟ تارکین وطن کو کہنا چاہتا ہوں کہ پاک آرمی اور پولیس کے جوان اپنی جان دے کر بھی ہمارے اہل خانہ کی حفاظت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وطن نے جب جب پُکارا ہے تب تب ہماری آرمی اور پولیس نے اپنی جان کے نذرانے دئیے ہیں۔سانحہ کوئٹہ ٹریننگ اسکول رُونما ہو گیا اور اب بلوچستان کے سرکاری و نجی اداروں، کینٹ ایریا،ریلوے اسٹیشن،پولیس لائن، پولیس ٹریننگ اسکول سمیت حساس عمارتوں کی سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے،ضلعی پولیس افسران کو سیکورٹی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے سخت ترین اقدامات کا حکم دیا گیا ہے۔تعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر فوکس کیا گیا ہے،پولیس ٹریننگ اسکول میں دہشت گردی کے بعد ’’ متی تل‘‘ پولیس لائن اور پولیس ٹریننگ اسکول پر سیکورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ متی تل پولیس لائن کی چار دیواری 5فٹ ہے جو سیکورٹی کے لئے چیلنج ہے اب صوبائی حکومت نے اس چار دیواری کی از سر نو تعمیر اور دیگر کاموں کے لئے 10کروڑ روپے منظور کئے ہیں، فنڈز آتے ہی سب سے پہلے چاردیواری کے منصوبے پر کام ہو گا۔ساتھ ساتھ پولیس لائن متی تل کے گرد پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔اسی طرح ملتان ڈویژن میں بھی سیکورٹی ہائی الرٹ ہے،ریلوے اسٹیشن کی حدود میں پولیس کے ناکے لگ گئے ہیں،شناختی کارڈ دیکھے بغیر کسی کو حساس عمارتوں کی جانب نہیں جانے دیا جا رہا، ڈیرہ غازی خان کے قبائلی راستوں بالخصوص ڈیرہ کوئٹہ روڈ کی سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے،چیک پوسٹوں پر اضافی انتظامات دیکھنے میں آ رہے ہیں،گاڑیوں کی کڑی نگرانی جاری ہے،ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں اور بین الصوبائی شاہرات پر بھی پہرے لگا دئیے گئے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ ایسا سب کچھ سانحہ کوئٹہ سے پہلے کیوں نہیں کیا گیا ؟ اب جو انتظامات ہو رہے ہیں ان سے آنے والے وقت کے لئے حفاظتی حصار تو بن گیا ہے لیکن ایسا کرنے سے سانحہ کوئٹہ ٹریننگ اسکول میں شہید ہونے والے واپس نہیں آ ئیں گے۔دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں کیپٹن رُوح اللہ جو دو ماہ بعد رشتہ ازدواج میںبندھنے والے تھے انہوں نے جس دیدہ دلیری سے خود کش بمبار کے اُوپر لیٹ کر جام شہادت نوش کیا وہ تاریخ کے صفحات پر زریں حروف میں لکھا جائے گا۔
شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے
سانحہ کوئٹہ میںشہید ہونے والوں کی میتیں عام سی’’ ویگنوں‘‘ کی چھتوں پر رکھ کر اُن کے آبائی گاؤں روانہ کی گئیں جو افسوس ناک عمل ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ جنہو ں نے ہمارے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اُن کی میتوں کو ہیلی کاپٹرز یا خصوصی طیاروں کے ذریعے روانہ کیا جاتا مگر شاید اُن شہداء کا سفر سیاسی یا تجارتی نہیں تھا اس لئے ان کی میتیوں کا احترام لازم نہ سمجھا گیا۔یہاں یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ کچھ دن پہلے امریکہ کی ایک ریاست میں ایک پولیس مین دوران ڈیوٹی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا،جس کی آٹھ سالہ بیٹی اُس کے ساتھ تھی وہ بچ گئی بچی اپنے باپ کی موت کے صدمے سے باہر نکلی، اُسے اسکول جانا تھا اُس بیٹی کو اپنے باپ کی یاد نہ آئے اس لئے امریکن پولیس کے 20بڑے باوردی آفیسرز اُس کے دروازے کے باہر کھڑے ہوگئے جب بیٹی باہر نکلی تو سب نے اُسے سیلوٹ کیا، سب نے باری باری گلے لگایا،پھر تمام آفیسرز اُس بچی کو ساتھ لے کرا سکول پہنچے اور کلاس روم تک اُس کے ساتھ رہے وہاں اسکول کے بچوں، اساتذہ اور پولیس افسران نے اُس بچی کووقت دیا اُس سے باتیں کیں تاکہ اُس کےذہن سے یہ بات نکل جائے کہ باپ کی وفات کے بعد وہ غیر محفوظ ہے اوراُس کا کوئی نہیں رہا۔شہدائے سانحہ پولیس ٹریننگ اسکول کوئٹہ کی میتیں بھی اعزاز اور احترام کے ساتھ اُن کے آبائی گاؤں جانا چاہئےتھیں، تاکہ شہداء کے والدین کوتسلی رہتی کہ اُن کے بہت سے بیٹے ابھی زندہ اور حکومتی اداروں میں موجود ہیں۔




.
تازہ ترین