• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنری کسنجر کی کتاب ’’ ورلڈ آرڈر ‘‘ کونڈو لیزا رائس کی آپ بیتی ، وکی لیکس کے اِنکشافات اورامریکہ کے اوپن کئے گئے ریکارڈ کے مطابق افغانستان کی یہ ’’ تیل کہانی‘‘چونکہ بہت لمبی ہے لہٰذا حاضر ہے اِس کہانی کا خلاصہ مگراسے پڑھتے ہوئے اگر عراق ، لیبیا اور شام کا ماضی اور حال ذہن میںہو تو پھر یہ خلاصہ ہی کافی ہے ۔ قصہ یہ تھا کہ سپر پاورکو ہر صورت چاہئے تھاروسی کنٹرول سے آزاد مگرکٹھ پُتلی افغانستان اوراس پر ایک عرصے سے کام بھی ہو رہا تھالیکن جیسے ہی لوہا گرم ہو اتو مذہب اور وطن کو بنیاد بناکر پاکستان کے کندھوں پر افغانستان میں ایسا نام نہادجہاد شروع کرایا گیاکہ روس کو الٹے پائوں بھاگنا پڑا لیکن روس کے جاتے ہی سپر پاور کچھ اِس طرح آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکی کہ وہ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور اپنے اپنے علاقوں میں بادشاہ بنے افغان کمانڈروں کے ہتھے چڑھی مطلب پہلے ایک حکومت اور اب درجنوں حکومتیں۔ ابھی اِس نئی صورتحال پر سوچ بچار جاری ہی تھی کہ ایک دن طالبان نے ایسی اُڑان بھری کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ افغانستان پر چھا گئے ۔ اب مغربی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کی محبتیں شروع ہوئیںاورپھر مشرق و مغرب افغانستان میںایسے یکجا ہوئے کہ نہ صرف 1998 کے وسط تک طالبان حکومت کا 80 فیصد خرچہ باہر سے آیا کرتا بلکہ کئی’’Under Cover‘‘ لوگ کابل اور قندھار میںبیٹھ کر طالبان کو حکومت سازی کے گُر بھی سکھایاکرتے لیکن پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چند ماہ میں ہی سپر پاور کی نظر میں طالبان شرپسند ہوئے اور طالبان کے کاغذوں میںسپر پاورشیطان ٹھہری۔
یہاں دو سوال بڑے اہم ہیں ایک تو یہ کہ سپرپاور کو کٹھ پتلی افغانستان کیوں چاہئے تھا ، دوسرا اسکی طالبان سے محبتوں کی وجہ کیا تھی اور ان محبتوں کو ریورس گئیر کیوں لگا تو اِن سوالوں کا جواب یہ ہے کہ سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل و گیس والے ’’ Caspian Sea‘‘ سے تیل نکالنے کا ہر راستہ چونکہ افغانستان سے گزرتا تھا اورسپر پاور کی ایک سپر تیل کمپنی اِن سمندری ذخائر کیلئے ایک بڑی رقم مختص کرکے وہ سروے بھی مکمل کر چکی تھی کہ جس کے تحت ایک ہزار میل لمبی پائپ لائن بچھنی تھی لہٰذا روس سے جان چھوٹنے اور ملاعمر راج قائم ہونے کے بعد خانہ جنگی میں گھرے افغانستان کے حالات بہتر ہوئے تو اس تیل کمپنی کی چھتری تلے سپر پاوراور طالبان رہنمائوںمیں بات چیت شروع ہوئی اور لاتعداد صبر آزما مرحلوں کے بعدآخرکار جب 90 فیصد طالبان قیادت اِس پروجیکٹ کی حامی ہوئی جب دونوں طرف رابطہ دفاتر بن گئے اورمنصوبے کی مکمل حفاظت کا ذمہ بھی طالبان نے اپنے سر لے لیا تو پھر سپر پاور اور طالبان کی محبتیں بھی عروج پر پہنچ گئیں لیکن اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی ان محبتوں کوریورس گیئر یوں لگا کہ ایک دن اچانک ملا عمر کی سربراہی میںطالبان سپریم کونسل کے اجلاس میں نہ صرف سپرپاور کی سپرتیل کمپنی کا منصوبہ مسترد کر دیا گیا، نہ صرف کمپنی کے تمام لوگوں کو افغانستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا بلکہ یہ پروجیکٹ ارجنٹائن کی اُس آئل کمپنی کو دے دیا گیا کہ جس میں 80 فیصد پیسہ روسی سرمایہ کاروں نے لگا رکھا تھا ۔
پہلے تو سکتے اور سوگ کے ماحول میں طالبان کے اس یوٹرن کی کسی کو سمجھ ہی نہ آئی مگر پھر پتا یہ چلا کہ ملا عمر سے یہ سب کروانے والے کوئی اور نہیں اسامہ بن لادن ہیں۔ خیر اِدھر یہ سب ہوا اور اُدھر یہ تیل کمپنی’’ سپر دربار‘‘ میں جب اس یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ پہنچی کہ ’’ جب تک طالبان حکومت ختم کر کے افغانستان میں اپنی حکومت نہیں لائی جاتی تب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا ‘‘اب سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے اورپہلے پلان ’’اے ‘‘ کے تحت طالبان حکومت کو لالچ بھرے پیغامات بھجوانے ، مشترکہ دوستوں کو درمیان میں ڈالنے اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود جب بات نہ بنی تو پھر’’ امن کے دشمن طالبان‘‘ کی آڑ میں ’’پلان بی ‘‘پر کام شروع ہوا ۔ اب ایک طرف سپر پاور اور اس کے اتحادی تھے جبکہ دوسری طرف سفارتکاری سے عاری ، تنہا اور بے لچک طالبان حکومت لہٰذا وہی ہوا جو ہونا تھا اور جو ہوا اُس کی تفصیل میں کیا جانا کیونکہ یہ سب تو سب کوہی معلوم ۔
لیکن یہاں آپ یہ ضرور سوچ رہے ہونگے کہ ایک تیل کمپنی بھلااِتنی طاقتور کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ حکومت ہی ختم کرا دے یا صرف ایک منصوبے کی خاطرافغانستان پر بھلا کوئی کیوں چڑھائی کرے گا ، تو ا س کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا تھا تیل کیلئے اور کر رہا تھا وہ تیل مافیاکہ جس کی طاقت کا عالم ان دنوں یہ تھا کہ نہ صرف عراق کی اُلٹی گنتی شروع کروا نے والے سپر پاور کے سابقہ سپر مین اس وقت تیل و گیس کے ایک بڑے گروپ کے مشیر تھے ، نہ صرف سپر پاور کے اُس وقت کے موجودہ سپر مین کے دوست احباب کا پیسہ تیل کمپنیوں میں لگا ہوا تھا ، نہ صرف اُس وقت کے نائب سپر مین بھی ایک تیل کمپنی کے سربراہ رہ چکے تھے، نہ صرف سپر پاور کے دفاعی اور خارجی دونوںسپرمین بھی تیل کمپنیوں کے حصہ دار تھے اور نہ صرف افغانستان میں کام کرنے کی خواہشمند تیل کمپنی میں 25فیصد سرمایہ کاری’’سپر اسٹیبلشمنٹ‘‘کی تھی، بلکہ 15 فیصد پیسہ بھی ان 20سپر لوگوں کاتھا کہ جو پچھلے 3دہائیوں سے اقتداری راہداریوں کے مسافر تھے ،لہذا جیسے ہی طالبان سے جان چھوٹی تو اسی تیل مافیا نے حامد کرزئی سمیت نئی افغان حکومت کے 10اعلیٰ عہدیدار بھی وہ چُنے جو تیل کمپنیوں میں ہی کام کر رہے تھے اور یہی نہیں بلکہ افغانستان کی تعمیروترقی کیلئے جسے نمائندہ خصوصی بنا کر بھیجا وہ بھی اسی تیل کمپنی کا سابق چیف کنسلٹنٹ تھا جو "Caspian Sea" سے تیل و گیس کے ذخائر نکالنے کیلئے دن رات ایک کئے بیٹھی تھی۔ تو قصہ مختصر جب ’’تیل‘‘ سیدھی انگلی سے نہ نکلا توتیل ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا ۔
اب افغان تیل کہانی کے اس خلاصے کے بعد لیبیا ، عراق اور شام پر اِک سرسری نظر ڈال کر رتی بھر عقل والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قذافی کو کیوں مروایا گیا ، صدام حسین کو کیوں لٹکایا گیا ، تیونس کے بن علی کو کیوں بھگایا گیا ، حسنی مبارک اور محمد مرسی کو کیوں ہٹایا گیا ، شام اور لبنان کو کیوں کھنڈر بنایا گیا اور بدامنی اور افراتفری کو سعودی عرب کی سرحدوں تک کیوں پہنچایا گیا ۔بلاشبہ جھوٹ، منافقت ، گروہوں اور فرقوں میں تتربتر مسلم امہ کی چھترول اور دنیا کے ہر نشے میں ’’میں میں ‘‘ کرتی نشئی مسلم قیادت کے زوال کی کچھ وجوہات اور بھی ہوں گی مگر طالبان کی انتہا پسندی سے "Arab Spring"تک پورے کھیل کا اصل مقصد تھاقدرتی ذخائر سے مالا مال اس خطے کو نچوڑنا اور یہ ’’نچوڑوپروگرام‘‘ آج بھی جاری ہے۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ لیبیا سے یمن تک جہاں جہاں بھی ’’عوامی انقلاب‘‘آیا ،وہاں وہاں عوام کو کچھ نہ مِلا، کتنی حیرت کی بات ہے کہ نائن الیون سے 2 ماہ قبل ہی یہ پتا چل گیا کہ اکتوبر میں افغانستان پر حملہ ہوجائے گا اور کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر چڑھائی کی گئی اُس نائن الیون کے کسی ہائی جیکر کا تعلق افغانستان سے نہیں تھا اور پھر یہی دستاویزی شواہد بتائیں کہ اُسامہ کو افغانستان سے نکلوانے سے اسے انصاف کے کٹہرے تک لانے سمیت سب مطالبوں کے پیچھے بھی یہی تیل مافیا تھا کیونکہ اُسامہ کی قسمت کا فیصلہ تو اُسی دن ہی ہو گیاتھا کہ جس دن اُس نے تیل مافیا کی مخالفت مول لے لی تھی ۔لہٰذا یہ دیکھتے ہوئے کہ تیل کی خاطر کس کس کا تیل نکلا اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہمارے ہاں ’’تیل و گیس فلم‘‘ کی بجائے صرف ’’اُسامہ ڈرامہ‘‘ فلمایا گیا ۔اگر ہم بھی ’’تیل و گیس فلم‘‘ کا حصہ ہوتے تو پھر باتوں کے دھنی ہم چاہیں جتنی باتیں کر لیں لیکن حقیقت یہی کہ ہم نے تو فلم کے پہلے سین میں ہی بُھگت جانا تھا۔
تازہ ترین