• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضمنی الیکشن کا نتیجہ عجب آیا ہے۔ جو جیت گئے ہیں ہار وہ بھی گئے ہیں اور جو ہار گئے ہیں جیت ان کا بھی مقدر ہوئی ہے۔جہاں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں ، ماتم بھی انہی کے ہاں ہے اور جہاں جہاں ماتم ہے لڈو بھی انہی کے دل میں پھوٹ رہے ہیں۔دونوں ہی جماعتیں بھنگڑے بھی ڈال رہی ہیں اور سوگ بھی دونوں ہی منا رہی ہیں۔ نتیجہ بحث کا یہ رہا کہ نہ ن حرف آخر ہے نہ جنون آخری تمنا ہے۔ نہ لاہو ر کا تخت ن کی جاگیر ہے ہے نہ جنون پاکستانیوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔نہ یہ ملک صرف شریفوں کا ہے نہ ہی یہ ملکیت صرف جنونیوں کی ہے۔ نہ شیر ہر طر ف دھاڑ رہا ہے نہ بلا ہر بال پر چھکے مار رہاہے۔ نہ ایاز صادق لاہور کے واحد والی وارث ہیں نہ علیم خان کا پیسہ فتح کی ضمانت ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ ایک سبق ہے ن کے لئے، بھی جنون کے لئےبھی۔ اس الیکشن میں تمام تر سیاسی ،قانونی اور غیر قانونی حربے استعمال ہوئے مگرفتح کسی ایک کا مقدر نہ ہوئی۔
حکومت وقت نے ہر ہتھکنڈاالیکشن سے پہلے ہی آزما لیا تھا۔ الیکشن سے پہلے دھاندلی کی یہ بد ترین مثال قائم ہوئی ہے۔ پری پول رگنگ ہوئی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہوئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی تمامتر مشینری ، وسائل ،عملہ اورذرائع استعمال ہوئے ہیں۔ سرکاری خزانے کا منہ کھول دیا گیا۔ وزراء کی فوج کی الیکشن مہم میں موجودگی الیکشن کمیشن کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ٹیکس ریفارم کے معاملے پر حکومت کا تاجروں کے آگے گھٹنے ٹیک دینا بھی دھاندلی ہے۔اس ایک قدم سے معیشت کتنی پیچھے رہ گئی یہ آنے والا زمانہ اس ملک کو دکھائے گا۔ نواز شریف کاالیکشن سے پہلے حلقے کا دورہ ،اورنج ٹرین کا اعلان، سعد رفیق کا ریلوے کالونی بنانے کا دعویٰ سب دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے۔سرکاری ٹی وی کے ذریعے کمپین چلانا اور حقائق کو مسخ کرنا بھی اسی دھاندلی کی مثال ہیں۔ایاز صادق کی سیٹ کی بقاء کے لئے حکومت سب کچھ کر گزری۔ اور یہ سب کچھ چھپ چھپا کر نہیں علی الاعلان کیا گیا ہے۔ سارے پاکستان کو متوقع شکست کا خوف ایاز صادق کے چہرے پر بھی نظر آیا اور وزراء اور شہزادہ لاہور بھی اس خوف کو چھپا نہ سکے۔
پی ٹی آئی کے لئے الیکشن کا نتیجہ اس سے بھی زیادہ بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ جس دھاندلی کا شور ہم نے بہت سنا تھا اور جو جعلی ووٹ ڈالے گئے وہ کہانی جھوٹ ثابت ہوئی۔ ہر مطالبہ پی ٹی آئی کا مانا گیا مگر جعلی ووٹ ، جعلی انگوٹھے، بوگس پرچیاں، ردی کے بھرے تھیلے، آر اوز کا قبیح کردار، الیکشن کمیشن کی من مانیاں سب ذہن کا فتور نکلا۔ وقت کا ضیاع ثابت ہوا۔ دھرنا اور اسکے عوامل اس الیکشن سے ہوا میں تحلیل ہو گئے ۔ کتنا سمجھایا تھا لوگوں نے کہ منظم دھاندلی اور بے ضابطگی میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی حلقہ کھلوا لیں تمام ووٹ کبھی تصدیق نہیں ہو سکتے۔ خان صاحب کے قریبی دوستوں نے بتایا، اینکروں نے سمجھایا ، پارٹی ورکروں نے درخواست کی،دوسری جماعتوں نے قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ ضد پر اڑے رہے۔ کھڑے رہے۔ اور وہ جو کرپٹ لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے کا وعدہ تھا، وہ جو نوجوان قیادت کو سامنے لانے کا دعویٰ تھا، وہ جو صالح لوگوں کا آگے لانے کا اعادہ تھا، وہ جو امیروں سے دولت چھین کرغریبوں میں بانٹنے کا خواب تھا، وہ جو نئے پاکستان کا انقلاب تھا ۔ ثابت ہوا کہ وہ سب سراب تھا ۔ بس اک خواب تھا ؟ جتنا پیسا اس الیکشن پر خرچ کیا گیا اس سے ایک اور اسپتال بنتا تو سارے پاکستان میں نتیجہ بہتر ہوتا۔وزیر اعلٰی کے پی کے اور انکے وزراء کی موجودگی بھی الیکشن کے اس عمل کی ہنسی اڑاتے رہے۔ ہر الیکشن آفس کھولنے والے کو ایک لاکھ روپیہ دینا دھاندلی ہے، کارکنوں کو پانچ ہزار روپیہ یومیہ دینا دھاندلی ہے۔ ہر گھر میں روز چاولوں کی دیگ بھیجنا دھاندلی ہے۔ الیکشن سے ایک دن پہلے وڈیو پر ووٹرز کو پیغام دینا دھاندلی ہے۔
پی ٹی آئی ایک نظریہ لے کر آئی تھی، لوگ اس نظریئے کے ساتھ تھے، اس ایک الیکشن میں آپ نے اس نظریئے کی نفی کر دی۔ کرپٹ سیاستدانوں کو ٹکٹ دے کر اپنی، پی ٹی آئی ، اور ووٹرز کی بھد اڑائی اور اوکاڑہ میں ضمانت بھی ضبط کروائی۔خان صاحب ۔ یہ کرپٹ سیاستداں پی ٹی آئی کے نظریئے سے متصادم لوگ ہیں جاوید ہاشمی ، جسٹس وجیہ الدین ، عدنان رندھاوا، اویس احمد اور حامد خان میں یہ نظریہ واضح نظر آتا تھا مگر آپ نے ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور چل پڑے الیکشن جیتنے۔ جو لیڈر مخلص لوگوں کو بھول جاتے ہیں لوگ بھی انہیں فراموش کر دیتے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ جیتنے والے شعیب صدیقی کے ساتھ وہ سوتیلوں والا سلوک کیا گیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ میاں اسلم اقبال کی محنتوں محبتوں کا کہیں ذکر تک نہیں ہوا۔نہ خان صاحب نے انکا ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کیا اور نہ الیکشن کی اختتامی پریس کانفرنس میں چوہدری سرورکو بولنے کا موقع دیا گیا۔ بد قسمتی سے آپ اپنے ہیرو کو ولن اور ولن کوہیرو بنانے میں لگے رہے۔وہ ووٹر جو آپ کے کلمات کے جوش میں نعرے لگا تا پھرتا تھا وہ اس دن اگر گھر میں بیٹھا رہا تو قصور اسکا نہیں آپکی پالیسیوں کا ہے۔ اس ووٹر کو نکالنے کے لئے شام چار بجے آپ کا پیغام کافی نہیں۔ آپ کا نام کافی نہیں ۔اس پڑھے لکھے ووٹرکو کام سے غرض ہے جس کا ابھی تک آپ آغاز بھی نہیں کر سکے۔
اس الیکشن میں ہارے سبھی ہیں مگر سب سے بڑی شکست الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہوئی ہے۔سب کچھ اس ادارے کی آنکھوں کے سامنے ہوا ۔ الیکشن سے پہلے دھاندلی ہوئی اور کروڑوں روپے اس کی اشتہاری مہم پر پانی کی طرح بہائے گئے ۔ لیکن الیکشن کمیشن چپ سادھے رہا ۔ ایک سوال کے جواب میں بس اتنا بیان آیا کہ اگر ہم نے کچھ کہا تو دھاندلی کا الزام آجائے گا۔ طرف داری کا بیان آجائے گا۔ تو وہ ادارہ جو نہ وزیر اعظم کے تابع ہے نہ صدر پاکستان کاجس پر زور چلتا ہے، نہ وزیر اعلی کچھ کہہ سکتے ہیں نہ وزراء کرام کا کوئی عمل دخل ہے ۔ جب وہ ادارہ ایسی کم فہمی کی باتیں کرے گا تو الیکشن کبھی بھی شفاف نہیں ہو سکتے۔نتیجہ کبھی بھی انصاف پر منتج نہیں ہو سکتا۔
میرے خیال میں دونوں جماعتیں ہار گئیں اور اصل فاتح پاکستانی عوام رہے ۔جنہوں نے صرف تین نشستوں کے انتخاب میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی ایک پارٹی کے زرخرید غلام نہیں، کسی ایک لیڈر کی ملکیت نہیں ، نہ ہی اب وہ اتنے احمق ہیں کہ جدھر کی ہوا چلے ادھر کو دوڑ پڑیں۔ عوام نے اس قدر منقسم ووٹ سے جتلا دیا کہ انکی خواہشیں اور ضروریات جماعتوں کے بلند بانگ دعوئوں سے کمتر سہی مگر ایک حقیقت ہیں۔ نئے پاکستان اور روشن پاکستان کے خواب بہت سنہرے سہی مگرعوام کو اب تعبیر درکار ہے۔ اس ضمنی انتخاب کے نتیجے کے بعد بھی اگر ان جماعتوں نے عوام کے ساتھ وہ کیا جو ماضی کی روایت ہے تو یہ باشعور لوگ اگلے انتخابات میں اشرف سوہنوں کی قطاریں لگا دیں گے۔ لیڈروں کے جھوٹے وعدے، دعوے اور نعرے انکی پیشانیوں پر سجا دیں گے۔
تازہ ترین