• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر کوئی حاسد ، دشمن یارقیب ہمارے بارے میں کہے کہ یہ شخص اردو سے نابلد ہے تو کیا آپ مان لیں گے؟…ضرور مان لیں کیونکہ ایسا ہی ہے ۔تاہم اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ کوئی ہمارے ایسا قلمکار دعویٰ کر بیٹھے کہ اس ملک کے فاضل رہنما ئے کرام سیاسی بلوغت کو نہیں پہنچے تو آپ آنکھیں بند کر کے یقین کرلیں ۔ ضروری تو نہیں کہ’’ مخالفین‘‘ کی ہر بات صحیح ہو۔
قصہ ہماری کم علمی کا چھڑا تھا۔ تو صاحب! ایک اردو ہی پرکیا موقوف، دیگر زبانوں اور علوم پر بھی ہماری دسترس اتنی ہی سمجھئے، جتنی واپڈا کی بجلی کی فراہمی پر ہے۔ غلطی ہائے مضامین مت پوچھ …اپنے کالموں میں ہم سے ایسی ایسی فاش غلطیاں سر زد ہوتی ہیں کہ ایڈٹ کرنے والا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اب آپ سے کیا پردہ، جب ہم معاصر میں کالم کاری کیا کرتے تھے، یعنی لفظوں کو کاری کر کے مارا کرتے تھے تو ایک دفعہ ہم نے اپنی ’’اردوئے محلہ‘‘ میں ’’دشت کی سیاحی‘‘ لکھ دیا۔ وہ تو بھلا ہو ایڈٹ کرنے والے صاحب کا کہ انہوں نے اسے قلم زن فرما کر ’’دشت کی سیاہی‘‘ بنا دیا، ورنہ اگر اسی طرح چھپ جاتا تو زندگی بھر ہمارے ریکارڈ سے یہ سیاہی نہ مٹتی۔ کبھی آپ کو تفصیل سے بتائیں گے کہ کیسے ہم لوگ راتوں کو جاگ کر جنگل میں سؤروں کے شکار کو جایا کرتے تھے۔ تب ہم نے ایک لفظ پڑھا ’’شغلِ نیم شبی‘‘۔ جاٹ کی سادگی دیکھئے، ہم سمجھتے رہے کہ رات کے اس شکار ہی کو شغلِ نیم شبی کہتے ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔
ہماری کج فہمی کی اور سنئے۔ اکثر قارئین ہم سے کہتے ہیں کہ کرنٹ افیئر پر لکھا کرو ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایک پرلے درجے کا ماضی پرست کرنٹ افیئر کو کیا جانے؟ اور پھر یہاں کرنٹ افیئر کچھ ایسے قابل رشک بھی نہیں کہ ان پر لعن طعن کے سوا کچھ لکھا جاسکے۔ ویسے بھی جسے دوسری قسم کے افیئرز ہی سے فرصت نہ ہو یا جو ہمہ وقت دوسروں کے افیئرز کی ٹوہ میں لگا ہو ،وہ خشک قسم کے کرنٹ افیئر کو کیا سمجھے گا؟ رئیس ؔ امروہوی کہتے ہیں
سراغِ رشتہ ہائے ملک و ملت سے ڈھونڈنے والو
ہمارا سلسلہ تو ایک زلفِ پر شکن سے ہے
ویسے یہ افیئرز بھی تو ’’کرنٹ افیئرز‘‘ ہی ہوتے ہیں ، جو کسی ضمنی انتخاب کی طرح چار دن تماشا دکھا کر ماضی میں دفن ہو جاتے ہیں ۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں جانے کب کوئی ’’کرنٹ افیئر‘‘ ماضی کے عشق میں تبدیل ہو جائے ۔ خیر چھوڑیں، موضوع کی طرف آتے ہیں۔جناب وزیراعظم نے کہا ہے ’’دنیا پاکستان میں معاشی استحکام کا اعتراف کررہی ہے ‘‘ …اب بات تو اپنی لا علمی کا پردہ فاش کرنے والی ہے کہ ہفتہ بھر ہونے کو آیا ہے ، مگر ہر ممکن تلاش کے باوجود ہمیں کسی ایسی دنیا کا سراغ نہیں ملا جس نے پاکستان میں معاشی استحکام کا اعتراف کیا ہو ۔ تاڑنے والے تو خیر قیامت کی نظر رکھتے ہیں ، ممکن ہے کہ اہل نظر اس دنیا میں پہنچ بھی گئے ہوں ،البتہ ہماری کوتاہ نظری کی بات اور ہے ۔ تاہم ہماری کوشش جاری ہے اور آپ کی دعائیں شامل حال رہیں تو بہت جلد ہم اس دنیا کو دریافت کر ہی لیں گے ۔ آخر ہماری رویت ہلال کمیٹی بھی تو چاند کو ڈھونڈ ہی نکالتی ہے ۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کا اشارہ مریخ کی مخلوق کی طرف ہے ۔ کیا عجب کہ کل کلاں ناسا کے کسی خلائی جہاز کو اس مضمون کے سگنل موصول ہوں کہ ہم فلاں سیارے کی دنیا پاکستان میں معاشی استحکام کا اعتراف کرتے ہیں ۔ ویسے یہ بادی النظر کا لفظ بھی بڑا ’’ وسیع القلب‘‘ ہے ۔ ’’ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے ‘‘ کہنے کے بعد آپ جیسے مرضی ہے اپنے خیالات اس میں ٹھونس دیں، سما جائیں گے۔ پچھلے دنوں ہم نے دوستوں کی محفل میں علمیت جھاڑتے ہوئے کہہ دیا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ایان علی بے نظیر ایئر پورٹ میں مکئی کے دانے بُھنانے گئی تھی مگر دشمنوں کی سازش سے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پھنس گئی۔ اس پر بڑی لَے دے ہوئی۔ ایک دوست نے ہمیں یہاں تک کہہ دیا کہ تمہاری بادی النظر کافی کمزور ہے، ڈاکٹر سے رجوع کرو اور چشمہ لگوائو۔
اور سنئے! تحریک انصاف کے حامی ایک فاضل کالم نگار نے این اے 122کے ضمنی انتخاب کے بعد لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ نئے عمرانی معاہدے کے خدوخال اجاگر ہوں۔ اب خدا معلوم کہ صحیح ہے یا غلط ، لیکن ہماری ناقص فہم نے ان الفاظ کو وارننگ کے طور پر لیا ہے کہ عوام سب کو چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ ’’عمرانی معاہدہ‘‘ کرلیں ورنہ خان صاحب کی توپوں کا رخ ن لیگ سے ہٹ کر ان کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ عوام ان توپوں کے بارود کی حدت ابھی تک محسوس کر رہے ہیں جو انہوں نے اس الیکشن مہم کے دوران حکمرانوں کے خلاف اُگلا۔ خیر اس بارود پاشی میں تو وزرائے کرام بھی پیچھے نہ رہے۔ تاہم ہماری سوئی ایک اور بات پر اٹکی ہوئی ہے۔ خبر ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابی ضابطہ اخلاق کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ ہماری نااہلی کی انتہا دیکھئے ہمیں آج تک اخلاق اور ضابطہ اخلاق میں فرق کا پتہ نہیں چل سکا۔ بخدا ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس ماڈل کا انتخابی ضابطہ اخلاق ہے جس میں انتخابی مہم کے دوران اس طرح کے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ ’’فلاں چور، غدار، ملک دشمن ہے‘‘ ’’اس نے ملک کو کمزور کرنے کے لئے ہندوئوں اور یہودیوں سے فنڈز لئے‘‘ ’’اوئے فلاں! تم نے اربوں روپے کی کرپشن کی‘‘ ’’لوٹی ہوئی دولت باہر لے جانے والے غدار ہیں‘‘ ’’سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘ وغیرہ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جناب پرویز رشید کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں عوام نے بد اخلاقی کی سیاست کو دفن کردیا۔ اب ان بیانات کی روشنی میں آپ ہی بتایئے کہ اخلاق کی سیاست دفن ہوئی ہے یا بداخلاقی کی؟ ویسے یہ دفن کرنے کی اصطلاح بھی عجیب ہے، وزراء کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ماضی کی تلخیوں کو دفن کردیا۔ حیرت ہے کہ دفن تو مردوں کو کیا جاتا ہے۔ جو چیزیں زندہ و جاوید ہوں،انہیں کیسے دفن کیا جا سکتا ہے؟ یہ تو کسی کو زندہ درگور کرنے والی بات ہوئی۔ وزیراطلاعات نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ضمنی انتخاب نے عمران خان کی جھوٹ کی سیاست کو دفن کردیا‘‘ حالانکہ خان صاحب تو اپنا مشن جاری رکھنے کا عزم دہرا رہے ہیں۔ ایک فاضل تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس الیکشن نے عمران خان کی دھاندلی کی سیاست کو دفن کردیا۔ جبکہ عمران خان صاحب نے ایک ہفتے کے اندر اس ضمنی انتخاب کی دھاندلیوں کا ثبوت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ خواجہ آصف صاحب کی سنئے، فرماتے ہیں’’عمران خان مثبت سیاست کی طرف نہیں آنا چاہتے، لاعلاج لوگوں کے لئے جیل روڈ لاہور پر بہترین علاج کی سہولت موجود ہے ‘‘ …تیری آواز مکہ اور مدینہ۔
حضور والا! اس ملک میں لا علاج لوگوں کے لئے جیل روڈ کی علاج گاہ سے بھی کہیں بہتر علاج گاہیں موجود ہیں، جہاں علاج کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان مثبت سیاست کی طرف نہ آئے اور ان کی یہی حالت رہی تو کچھ عجب نہیں کہ ان ’’علاج گاہوں‘‘ کے در وا ہو جائیں، جیسے ماضی میں ہوتے رہے ہیں … ہمیں تو بادی النظر میں ایسا ہی لگتا ہے۔ اگر آپ کو نہیں لگتا تو آپ کی بادی النظر کمزور ہےتو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
تازہ ترین