• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی انتخابات پر امریکی میڈیا بھی واضح طور پر تقسیم ہوتا نظر آتا ہے۔ سابقہ خاتون اول صدارتی امیدوار ہیلری کو سی این این (CNN)اور کچھ چینل مکمل سپورٹ دیتے نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف فوکس نیوز کے ہم خیال چینل ٹرمپ کے لئے معروف نظر آتے ہیں۔ اتنی طویل صدارتی دوڑ کے بعد اب ایک دفعہ پھر ٹرمپ کا پلہ بھاری نظر آ رہا ہے میں نے جب سے امریکی انتخابات پر مبصر کی حیثیت سے نظر رکھی ہے تو مجھے اندازہ ہے کہ امریکی بڑے شہروں میں بہت سارے ادارے اور لوگ ان انتخابات کا معاشی پالیسیوں اور خارجی معاملات کے تناظر میں احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ایک ایسا اتفاق بھی ہوا جس کی مجھے بالکل امید نہ تھی پاکستان سے روانگی کے وقت مجھے کافی عرصہ کے بعد لندن سے شانتی دیوی کی میل ملی تھی میں نے اس کو اپنے پروگرام سے مطلع کیا تو اس کا اصرار تھا کہ میں راستہ میں لندن رکوںاور اس سے ملاقات کے بعد امریکہ دریافت کروں مگر اس وقت پروگرام میں تبدیلی ممکن نہ تھی سو میں نے معذرت کی اور مجھے کوفت بھی تھی کہ لندن میں کچھ اچھا وقت گزارا جا سکتاتھا۔ شانتی دیوی نے حسب سابق میری معذرت قبول کر ہی لی۔
شانتی دیوی سے پرانی یاد اللہ ہے بہت سال پہلے سابق ملٹری صدر جنرل پرویز مشرف پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک آئے اس زمانہ میں میرے ساتھی عظیم میاں اقوام متحدہ کےلئے جنگ کے خصوصی نمائندہ تھے ۔ ان کی مدد سے میرا اقوام متحدہ کے اجلاسوں کے لئے داخلی کارڈ بنا ۔اس وقت شانتی دیوی فری لانسر کے طور پر اقوام متحدہ کے لئے مختلف اخباروں میں لکھتی تھی اور اس ہی وجہ سے ہماری یاد اللہ ہوئی ۔مگر دوستی اور اعتماد کا رشتہ نیویارک میں بنا اور جو اب تک قائم ہے۔ جب میں ہوسٹن جانے کے لئے ہوٹل سے نکل رہا تھا تو اس کی ای میل ملی کہ وہ امریکہ آ رہی ہے اور رومیو کولمبس اور ہو سٹن بھی آئے گی ۔میری اس سے ملاقات طے پائی اس کی بھی ان انتخابات کے حوالہ سے کچھ مصروفیات تھیں سو ایسے میںطے پایا کہ نومبر کے پہلے دن ملاقات کی جائے کیونکہ نومبر کے پہلے دو دن کوئی خاص مصروفیت نہ تھی جب وہ مجھے ملنے آئی تو اتفاق سے میں پاکستانی چینل دیکھ رہا تھا۔ پہلا کام تو اس نے یہ کیا کہ چینل بند کیا اور کھڑکی کھول کر تازہ ہوا میں سانس لینے لگی۔
میں نے اس کی مدارت کا سوچا اور پوچھا کہ وہ کیا پسند کرے گی اس کا جواب تھا کچھ کھاتے ہیں میں نے روم سروس کو فون کرنے کیلئے فون ملایا تو اس نے میرافون مجھ سے لیکر بند کر دیا کہ باہر چلتے ہیں ۔ہم نیچے لابی میں آ گئے کیفے ٹیریا میں خاصا رش تھا کہنے لگی بالکل نزدیک میں سوشی لائونج (جاپانی خوراک ) ہے وہاں چلتے ہیں میں نے بھی سوچا کہ سب کچھ ہو گا بس ہم سوشی لائونج کے لئے روانہ ہوگئے وہاں بھی دس منٹ انتظار کرنا پڑا سوشی میں عموماً ابلے چاول ٹھنڈے، کچی مچھلی، مختلف سبزیاں، تیز مرچوں والی چٹنی وغیرہ ہوتی ہے اگر آپ کو ذائقہ بھا جائے تو کھانے کا بہت لطف آتا ہے ابھی ہمارے آرڈر لگانے میں وقت تھا وہ کپتان عمران خان کاپوچھنے لگی میں نے اس کو دھرنے کا بتایا اور بتلایا کپتان نے سپریم کورٹ کے اعلان کے بعد دھرنے کو یوم تشکر میں بدل دیا ہے اس کا سوال تھا کیا اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے میں حیران ہوا کہ اس دھرنے کا جمہوریت سے کیا تعلق بنتا ہے وہ مسکرائی، دیکھو دنیا بھر میں جمہوریت کا الاپ ہو رہا ہے مگر سب کے سب بے سرے لوگ اس راگ کو گا رہے ہیں۔
اب میری باری تھی میں مسکرایا، کپتان ایک نڈر کھلاڑی ہے اور اس کا واسطہ شکاریوں سے پڑا ہے ۔ کھلاڑی اور شکاری میں فرق ان کے قول وفعل سے ہوتا ہے کھلاڑی اچھا کھیلتا ہے اور ہارتا ہے تو مایوس نہیں ہوتا مگر شکاری اگر شکار نہ کر سکے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ خود شکار نہ ہو جائے ۔ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے مگر اس کو کمزور مضبوط کر رہے ہیں میں چپ ہو گیا وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی پھر بولی اس ملک میں جمہوریت کو چلانے والے امریکی عوام نہیں بلکہ اس ملک کے امیر لوگ اور اسٹیبلشمنٹ ہے اور ان کی مرضی سے تمہارے جیسے لوگ اس بے رنگ جمہوریت کو شفاف کہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں اب اس امریکی انتخابات میں ٹرمپ کہتا ہے کہ دھاندلی کے امکانات ہیں۔ہیلری کی ای میل کےلئے سرکار ہی کارروائی کر رہی ہے کیا اس سے عوا م کی سوچ پر کوئی فرق پڑے گا نہیں عوام کو تو پارٹی سے غرض ہے کسی کو گدھا پسند ہے اور گدھے دس سال تک اس جنگل پر حکومت کرتے رہے اب ہاتھی کی اصولی طور پر باری ہے جس کا امکان بھی ہے اور جنگل میں گدھے اور ہاتھی کسی شیر سے نہیں ڈرتے بلکہ شیر ان سے ڈرتا ہے ۔وہ بولی ہمارا میڈیا عوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور سرکار خوش ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ مناسب نہیں میڈیا (صحافت) کا طریقہ اور ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید اور مسلسل احتساب کرے جو کہ ہمارا میڈیا نہیں سمجھ رہا شانتی بڑی سنجیدگی سے بولی تمہاری بات ٹھیک مگر تمہارے ہاں نفاق بہت ہے میں بولا میرے دوست اقبال دیوان نے حال میں کالم میں حوالہ دیا ہے اور شرکاء میں مجھ سے کسی نے ملاقات میں کہا ہم چاروں طرف سے پاگلوںمیں گھرے ہیں جو بابائے قوم محمد علی جناح کا پاکستان میری زندگی میں نہیں بنا پائیں گے لیکن شاید آپ کی نسل میں یہ کام کوئی کر پائے ہمیں اس حوالے سے خاموش نہیں ہونا چاہئے ۔


.
تازہ ترین