• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا عمران خان کے اسلام آباد "ـلاک ڈائون" کی ناکامی کے بعد اب عمران خان کے جلسوں ، جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خان صاحب کی اکثر پالیسیوں کا انحصار انکی افتاد طبع پر ہے۔ انہوں نے رائے ونڈ کے جلسہ عام میںاسلام آبادکے دھرنے اور لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انکا آخری اور حتمی احتجاجی پروگرام ہے۔اسکے بعد نہ کوئی جلسہ ہوگا، نہ جلوس نہ دھرنا۔لاک ڈائون کی ناکامی کے بعداسلام آباد پریڈ گرائونڈ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے روایتی غم و غصہ کا اظہار ضرور کیا لیکن کم از کم اس وقت آئندہ کے کسی احتجاجی پروگرام کا اعلان نہیںکیا۔ ورنہ عمومی طور پرانکا ہر احتجاجی جلسہ یا دھرنا ایک نئے احتجاجی پروگرام کے اعلان پر ہی ختم ہوتا ہے۔
اسلام آباد لاک ڈائون کی ناکامی کو سیاسی مبصرین تحریک انصاف کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی نے اس لاک ڈائون سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔کہا جا رہا تھا کہ پورے دارالحکومت کو بند کر دیا جائے گا۔کاروبار حکومت مفلوج کر دیا جائے گا۔ تاثر تھا کہ یہ سلسلہ جب کچھ دن تک جاری رہے گا تو قومی سلامتی کے ادارے حرکت میں آجائیں گے۔ وطن عزیز کو بحران سے نکالنے کیلئے کوئی فارمولہ تلاش کیا جائے گا۔اور وزیر اعظم اس فارمولے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔یہ سارا نقشہ اس مفروضے پر مبنی تھاکہ لوگ پاکستان کے طول و عرض سے امڈے چلیں آئیں گے۔مصر کے ـتحریر ا سکوائر کا سماں پیدا ہوجائے گا۔ میڈیا کے کیمرے لاکھوں افراد کے بپھرے ہوئے سونامی پر مرکوز ہوجائیں گے۔ اگر اس دوران پولیس یا امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دارکسی اور ادارے کی کارروائی سے کچھ لاشیں گر گئیں تو کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔ ان کو اپنے ذہن میں بنے اس نقشے پر مکمل یقین تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی یقین دلا رکھا تھا اسلام آباد کے اس شٹ ڈائون میںحتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ اور نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی پورا یقین تھاکہ انکی اپیل پر لوگ امڈے چلیں آئیں گے اور بڑا مجمع لگانے میںکوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔
دوسری طرف حکومت بھی پوری طرح چوکنا تھی۔ اس کے سامنے 2014کے دھرنے کا تجربہ بھی تھا جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے نہ صرف ریڈ زون پر قبضہ جما لیا تھا بلکہ متعدداداروں کو بھی گھیرے میں لے لیا گیا تھا۔ان کا خیال یہ تھا کہ ریڈ زون کے قبضے کے بعد چند گھنٹوں کے اندر اندر امپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی۔ایسا نہ ہوا۔ دھرنا چار ماہ پر پھیل گیا لیکن کوئی مقصد حاصل نہ ہوا۔ اس مرتبہ حکومت نے گزشتہ تجربے کی روشنی میںاپنی حکمت عملی مرتب کر لی۔
اس بار کوشش کے باوجود طاہر القادری پی ٹی آئی کے احتجاجی شو کا حصہ بننے پر راضی نہ ہوئے۔ شیخ رشید کی زبرست کوششوں کے بعد انہوں نے ایک رسمی سا اعلان کر دیا کہ عوامی تحریک کے کارکن احتجاج کا حصہ بنیں گے۔لیکن وہ خود نہیں آئیں گے۔ دیکھا یہ گیا کہ عوامی تحریک کے کارکن بھی دھرنے میں شرکت کے لئے نہیں نکلے۔ حتی کہ مرکزی رہنما بھی کوئی خاص کردار ادا کرتے دکھائی نہ دئیے۔عملا یہ صرف پی ٹی آئی کا شو بن گیا۔ کیونکہ شیخ رشید احمد کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود انکے پاس چند سو کارکن بھی نہ تھے۔ جنہیں وہ متحرک کر سکتے۔حکومت کی کٹر مخالف جماعتوں نے بھی خان صاحب کا ساتھ نہ دیا۔انہیں سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان اس بات سے پہنچا کہ" ـ میں اسلام آباد کو بند کر دونگا۔ لاک ڈائون کر دوں گاـــ ــــ"۔ انہی بیانات کی وجہ سے حکومت کو پروپیگنڈہ کرنے کا جواز مل گیا۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے شہر بند کرنے او رحکومت مفلوج کرنے کے اعلان کی تائید نہ کی۔ اسلام آبادہائی کورٹ اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے بھی حکومت کو تقویت ملی۔ انہیں عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات کرنے کی اتھارٹی مل گئی۔ جو اسنے 2014 کے دھرنے کے وقت نہیں اٹھائے تھے۔ یہ اہتمام کیا گیا کہ پولیس کے پاس کوئی اسلحہ نہ ہو۔ آنسو گیس اور چھڑیوں کے سوا اسکے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ اگرچہ اسکی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی، تاہم ریاست نے شہر کے اندر اور موٹروے پر اپنی قوت کا خوب استعمال کیا۔ یہ وہ ردعمل تھا جسکی پی ٹی آئی کو توقع نہ تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چند سر گرم کارکنوں کی تحفظ امن عامہ کے تحت گرفتاریوں نے پورے پنجاب پر سکتہ طاری کر دیا۔ اگرچہ پنجاب میں تحریک انصاف کو اچھی خاصی حمایت حاصل ہے لیکن کسی بھی شہر میں کوئی ہلچل دکھائی دی نہ کوئی سڑکوں پہ نکلا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھرنے یا لاک ڈائون کے دن عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ میں چند سو افراد کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو فیس سیونگ کے لئے استعمال کرتے ہوئے لاک ڈائون کو یوم تشکر کے جلسے میں بدل دیا گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آگیا ہے۔ اور عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ ٹی او آرز کا تنازع بھی گم ہو گیا ہے۔ کیونکہ عدالت نے خود اپنے ٹی او آرز بنانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اب بہتر ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر گولہ باری کا سلسلہ بند کردیں۔ اچھا ہو کہ سپریم کورٹ کے باہر تماشا لگانے پر بھی پابندی لگا دی جائے اور میڈیا کو بھی کہہ دیا جائے کہ وہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت معاملے کو موضوع بحث نہ لائیں۔ 2018 میں انتخابات ہونے ہیں۔ جس طرح دھاندلی کے الزامات پر کمیشن کا فیصلہ آگیا اسی طرح پاناما لیکس پر بھی آجائے گا۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو صبر و تحمل سے عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اور میڈیا کو بھی کوئی اور موضوع چن لینا چاہئے۔


.
تازہ ترین