• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں کہیں ماضی کو فراموش کرنے کی روایت موجود نہیں ہوتی وہاں دشمنیاں نسل در نسل نسلوں کا تعاقب کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملات کو سمجھنے کے لئے ازحد لازم ہے کہ دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کے ذہنی رجحانات کا مطالعہ کیا جائے۔ قیام پاکستان سے قبل برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت معمول کا حصہ تھی۔ مقامی پشتون قبائل کاروبار سے لیکر رشتہ داریوں تک میں بندھے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جو سیاسی جماعتیں صرف پختون علاقوں میں اثر رکھتی تھیں وہ پاکستان کی مخالفت میں موجود تھیں۔ مگر ان سے زیادہ اثر قومی سطح کی جماعت مسلم لیگ کا تھا جو کامیاب بھی رہی۔ ان تمام حالات کے سبب سے افغانستان میں قیام پاکستان کے وقت یہ خیال تقویت پا گیا کہ اگر ہم نوزائیدہ مملکت کو زک پہنچانا چاہیں اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا چاہیں تو یہ سہل ہو گا۔ لامحالہ پاکستانی پالیسی سازوں نے بھی اس خطرے کو بروقت بھانپ لیا۔ بھارت ویسے ہی درد سر بنا رہا۔ لہٰذا اس بات کی خواہش قوت پاتی گئی کہ افغانستان کو درد سر بننے سے روکنا ہے۔ صدر برہان الدین ربانی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی میں باقاعدہ سیل کام کرتا ہے کہ جس کے مقاصد میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔ اس لئے تمام ملبہ پاکستان پر ڈالنا مناسب نہیں ہو گا۔ ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان میں خیالات میں کتنی وحدت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت تھی جو پاکستان کے بہت قریب سمجھی جاتی تھی۔ ان سے پاکستان میں ڈیورنڈ لائن کی توثیق کی بات کی گئی۔مگر وہاں سے صاف انکار سامنے آیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کابل میں بیٹھنے والوں کی سوچ اس حوالے سے کیا ہے۔ نائن الیون کے بعد بتدریج صورتحال مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ افغانستان اور بین الاقوامی برادری ہماری صورتحال کو سمجھے بنا Do more کا مطالبہ کرتی چلی گئی۔ آمریت اور پھر کمزور جمہوریت کے لئے ان مطالبات کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا دنیا سب کچھ کروانے کے بعد بھی مطمئن نہ ہوئی۔ پھر حامد کرزئی حکومت کے پاس اپنی نا اہلیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے پاکستان کا بہانہ اچھا ہاتھ آیا تھا۔ نجیب کے زوال نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اگر افغانستان کو صرف کابل حکومت کے حوالے کر دیا جائے اور مدد سے دست کش ہو جایا جائے تو اس صورت میں خانہ جنگی اور تباہی کے علاوہ کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ لہٰذا افغان حکومت مستقل بنیادوں پر اپنی سلامتی کو افغانستان سے باہر تلاش کرنے لگی۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب امریکہ نے حامد کرزئی کے اقتدار کے آخری ایام میں سیکورٹی ایگریمنٹ پیش کیا تو حامد کرزئی کو اس کی بہت ساری شرائط نا مناسب لگیں۔ وہ بغیر کسی مستقل انتظام کے بین الاقوامی طاقتوں کے واپس جانے کے بھی خلاف تھے کیونکہ وہ اس کے نتائج سے باخبر تھے۔ حامد کرزئی پاکستان سے دور ہو چکے تھے۔ لہٰذا انہوں نے افغانستان کی سلامتی کو بھارت کے خطے میں عزائم میں تلاش کرنا شروع کر دیا۔ فوجی مدد کے حوالے سے باقاعدہ ایک لمبی ، چوڑی فہرست بھی بھارتی نیتائوں کو تھما دی۔ بھارت افغانستان کے ذریعے پہلے ہی پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے در پے تھا۔ 2ارب ڈالر کی امداد افغانستان کو فراہم کر رہا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے افغانستان میں موجود قونصل خانے ، پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے مزید متحرک کر دیئے۔ اب اس امر میں رتی برابر بھی شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی لسانی ، علاقائی یا مذہبی اس کے تانے بانے بھارت اور افغانستان سے مشترکہ طور پر ملتے ہیں اور جب تک افغانستان کی جانب سے ان خطرات کا تدارک نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان میں مستقل امن قائم ہونا سراب ہو گا۔ جیسے 1990کی دہائی میں کراچی آپریشن کے بعد کچھ سکون آیا تھا۔ مگر زمینی حقیقتیں کیونکہ تبدیل نہیں ہوئی تھیں۔ لہٰذا یہ امن تاش کے پتوں سے بنا گھر ثابت ہوا۔ ایک ہی جھونکے سے زمین بوس ہو گیا۔ بھارت نے آبی جارحیت اپنی جانب سے تو جاری رکھی ہوئی ہے مگر اس نے اس امر سے فائدہ اٹھانے میں بھی دیدہ دلیری کا ثبوت دیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ لہٰذا وہ افغانستان میں 12 ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کر رہا ہے اور آبی ذخائر پر مختلف منصوبے جاری ہیں۔ جس سے پاکستان کا سالانہ 4.7 ملین ایکڑ فٹ پانی افغانستان کی جانب سے کم ہو جائے گا۔ لہٰذا پانی کی صورتحال سنگین ہو جائے گی۔ افغانستان کی فوج میں بھارت کے سرایت کر جانے کو اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے 600 کیڈٹس بھارت میں زیر تربیت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ان حالات میں کیااقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس میں سب سے مستحسن فیصلہ تو یہ ہے کہ افغانستان میں موجود تمام سیاسی طاقتوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ پاکستان کا فیورٹ کوئی نہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف نے گزشتہ افغان صدارتی انتخابات سے قبل کابل کا دورہ کیا اور کابل میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ پاکستان کا منظور نظر کوئی نہیں۔ صدارتی انتخابات کے بعد عالمی میڈیا نے اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ پاکستان غیر جانبدار رہا۔ دہشت گردی کے حوالے سے حکومت اور اس کے ذیلی عسکری اداروں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے ماضی کی آمریتوں کے سائے ابھی بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ عالمی میڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے اور بہت سارے ریٹنگ کے چکر میں پڑے ہوئے مقامی صحافی اس پر تبصرے فرماتے ہیں کہ پاکستان میں نظر آنے والی حکومت کے علاوہ ایک ان دیکھی حکومت بھی موجود ہے۔ یہ تصور اب پاکستان کے لئے زہر قاتل ہے اس سے پیچھا چھڑانے کی فل الفور ضرورت ہے۔ مگر اگر نا قابل سماعت لمحوں میں قابل سماعت قرار پانے لگے تو کہیں نہ کہیں سے ان دیکھی حکومت موجود ہونے کا گمان ضرور ہوتا ہے۔ اور اس سے چھٹکارے بنا زخم رفو نہیں ہو سکتے۔


.
تازہ ترین