• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال نومبر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کو 48 سال مکمل ہو جائیں گے ۔ نصف صدی مکمل ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں ۔ دنیا میں کئی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں ، جن کی عمریں ایک صدی سے بھی زیادہ ہیں وہ ملک اور قومیں، سیاسی اور جمہوری طور پر زیادہ مستحکم ہیں ، جہاں ایک یا دو قدیم سیاسی جماعتیں موثر طور پر کام کر رہی ہیں لیکن نصف صدی مکمل ہونے سے پہلے پیپلز پارٹی عوام میں اثر و رسوخ اور مقبولیت کے اعتبار سے جس پوزیشن پر کھڑی ہے ، اسے الفاظ میں بیان کرنا تکلیف دہ ہے ۔ 30نومبر 1967 ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کو پیپلز پارٹی کا بانی چیئرمین بنایا گیا تھا ۔ پارٹی کے تاسیسی اجلاس کیلئے لاہور کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا کیونکہ پارٹی کے بانی قائدین یہ سمجھ رہے تھے کہ لاہور سمیت پورا پنجاب پارٹی کی سیاسی طاقت کا مرکز ہو گا ۔ 1970ء کے عام انتخابات نے پیپلز پارٹی کے بانی رہنما کے اندازے درست ثابت کر دیئے ۔ پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کے کیلئے مختص قومی اسمبلی کی 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کی تھیں۔ حاصل کردہ 81 نشستوں میں سے 70 فیصد سے زائد نشستیں پنجاب سے حاصل کی گئی تھیں ۔ پنجاب اسمبلی کی 180 میں سے پیپلز پارٹی نے 113 یعنی 62.77 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے 60 میں سے صرف 28 یعنی 46.66 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح پنجاب پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کا گڑھ بن گیا تھا لیکن جس شہر لاہور میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ، اسی شہر میں 11 اکتوبر 2015ء کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر میاں عامر حسن کو صرف 819 ووٹ ملے ۔ یہ تو افسوس کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کو کم ووٹ ملے لیکن تشویش والی بات یہ ہے کہ مقابلہ دائیں بازو کی دو سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف میں تھا ، جن کے امیدواروں نے بالترتیب 74525 اور 72082 ووٹ حاصل کئے ۔
1967ء سے 2008 ء تک پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی وفاقی سیاسی جماعت تھی جو تمام زبانوں، مذاہب، فرقوں، صوبوں اور سوچ کی پارٹی تھی۔ 1970ء سے 2008ء تک متعدد انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کم نشستیں ملیں لیکن پیپلز پارٹی مقابلے میں ہوتی تھی اور اس کے ووٹ بھی کم نہیں ہوتے تھے لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں اور اسکے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی ۔ 2008 کے بعد PPP مزدوروں، طالبِ علموں اور دانشوروں سے نکل کر اشرافیہ، بھتہ خوروں، کمیشن ایجنٹوں اور نچلے درجے کے کاروباریوں میں چلی گئی۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی عہد ختم ہو رہا ہے ، جب یہ کہا جاتا تھا کہ ملکی سیاست پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی ہے ۔ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں ، ایک قوت پیپلز پارٹی ہے اور دوسری قوت اس کے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین ہیں ۔ اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں دائیں بازو کی مذکورہ بالا دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ ہے ، جنہوں نے نہ تو کبھی پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور نہ ہی آزادیِ امن اور محنت کشوں اور پسماندہ طبقوں کی خوشحالی کی تحریکوں میں ان کا کوئی کردار ہے ۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اس خطے یا عالمی سیاست میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے ۔ بلوچستان میں کوئی لبرل یا ترقی پسند پارٹی زیادہ مضبوط نہیں ہے ۔ سندھ میں کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا مقابلہ کرنے کے کیلئے تحریک انصاف بڑے دعوے کر رہی ہے ۔ MQM ایک لبرل اور ترقی پسند سوچ کی جماعت ہے اور وہ بلا شرکتِ غیرے کئی دہائیوں سے کراچی میں راج کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی جو ملک کی سب سے بڑی وفاقی اور تمام زبانیں بولنے والوں کی پارٹی تھی اب صرف اندرونِ سندھ میں سندھی بولنے والے ہاریوں اور غریبوں کے بجائے وڈیروں اور اشرافیہ کی پارٹی بن گئی ہے۔ سندھ کے دیگر اضلاع میں پیپلز پارٹی کو کچھ ووٹ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ملتے تھے اور کچھ نظریاتی ووٹ تھے لیکن اب یہ ووٹ نہیں رہے ۔ اب تو سیاست میں وڈیروں اور پیسے کا کردار بہت زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔ سیاست میں پیسے کا کردار صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جس قدر پیسہ خرچ کیا گیا ، وہ بحیثیت قوم ہمارے لئے انتہائی شرمناک بات ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ صرف پیپلز پارٹی کے لوگوں کیلئے ہی نہیں بلکہ اس ملک کیلئے بھی نقصان دہ ہے ۔ پیپلز پارٹی ایک نظریاتی اور لبرل سیاسی جماعت ہے۔
پیپلز پارٹی نے ہی اس ملک میں سیاسی کلچر بنایا ۔ اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جو بھی جدوجہد ہوئی ہے ، وہ پیپلز پارٹی سے ہی عبارت ہے ۔ اسکے رہنماؤں اور کارکنوں نے تختہ دار پر آمریت کیخلاف نعرے لگائے ، کوڑے کھائے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے مظلوم طبقات اور مظلوم قوموں کی جدوجہد کو عالمی تحریکوں سے جوڑا ہوا تھا ۔ انکی بین الاقوامی سطح پر بڑی حیثیت تھی ۔ وہ تیسری دنیا ، غیر وابستہ تحریک اور عالم اسلام کے لیڈر تھے ۔ ان کا اس خطے کی اور عالمی سیاست میں انتہائی اہم اور تسلیم شدہ کردار تھا ۔ انہوں نے پاکستان کو نہ صرف سامراجی کیمپ سے نکالنے کیلئے اقدامات کئے بلکہ سامراجی عزائم کو چیلنج بھی کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی عالمی سیاست میں اپنے کردار کو تسلیم کرایا ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یک قطبی ( Unipolar ) دنیا خاص طور پر عالم اسلام جس عذاب کا شکار ہو گیا تھا ، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس عذاب سے نکالنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنیکی تیاری کر لی تھی۔ وہ اپنے فلسفہ مفاہمت سے مغرب اور عالم اسلام کے درمیان نام نہاد ’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کو روکنے کیلئے میکنزم تیار کرکے آئی تھیں ۔ وہ عالم اسلام میں فرقہ وارانہ جنگوں کے تدارک کیلئے بھی واضح لائحہ عمل مرتب کر چکی تھیں اور انہوں نے عالمی سیاست کیساتھ ساتھ اس خطے کی سیاست میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا اور آگے بھی کرتیں لیکن انہیں زندگی نے مہلت نہ دی۔ ان کی شہادت کے بعد پاکستان ،اس خطے اور عالمی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی کا موثر کردار گھٹتا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں لوگ خود مایوسی کا شکار ہیں ۔
میں پیپلز پارٹی کا ہمدرد ہوں اور آج بھی اسکے نظریات سے وابستہ ہوں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا عقیدتمند ہوں لیکن اس تلخ حقیقت کو نہیں چھپایا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کا بحیثیت سیاسی جماعت بھرپور کردار ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہ پاکستانی قوم کیلئے ایک المیہ ہے ۔ ہمیں دور دور تک اس ملک میں دوبارہ وہ سیاسی اور جمہوری کلچر بنتا ہوا نظر نہیں آ رہا ، جو پیپلز پارٹی نے بنایا تھا ۔ سیاسی جماعتیں ہی ملکوں اور قوموں کو متحد رکھتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سوا کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں ہے ، جو حقیقی طور پر پورے وفاق میں سیاسی جڑیں رکھتی ہو ۔
مظلوم قوموں اور مظلوم طبقات کی سیاست جسکا دیگر سیاسی جماعتوںکے قائدین کو ادراک بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس خطے میں ہونیوالے عالمی طاقتوں کے کھیل میں کودنے کی جرات رکھتے ہیں ۔ اب تو یہ باتیں بھی کہی جارہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکا ۔ خود پیپلز پارٹی کے اندر سے اس سیاسی جماعت کو اس حال میں پہنچا دیا گیا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی تاریخ لکھی جائے گی تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئینگے ۔ ہماری اور آنے والی نسل کیلئے مایوس کن صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے غریب عوام اور مظلوم قوموں کی نظریاتی سیاست کرنیوالاکوئی نہیں ہے ۔ پاکستان کی سرزمین سے عالمی سامراجی عزائم کو چیلنج کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔ وفاق پاکستان کو متحد رکھنے والی بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں رہی ہے ۔ سیاست پیسے اور خریدو فروخت کا نام ہو گئی ہے ۔ سیاست صرف ارب اور کھرب پتی اشرافیہ کی جاگیر بن گئی ہے ۔ جس ملک میں ووٹ خریدا جائیگا ، اس ملک میں ہر چیز خریدی جا سکے گی اور ہر ادارہ مشکوک ہو جائیگا۔ میں تاریخ کے جدلیاتی نظریہ پر یقین رکھتا ہوں ۔ اگرچہ حالات یہ ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے لیکن پیپلز پارٹی کا سیاسی کردار غیر موثر ہونے سے ہماری اور آنے والی کئی نسلوں کو خمیازہ بھگتنا پڑیگا ۔ جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کو اس نہج تک پہنچایا ہے ، انہیں شاید اس بات کا احساس نہ ہوکہ ان سے تاریخی غلطی ہوئی ہے ۔
تازہ ترین