• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف گزشتہ دنوں جب شیخوپورہ میں بجلی کے نئے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن خصوصاََ َ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نصیحتیں کر رہے تھے کہ وہ ملکی ترقی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں اور محاذآرائی ترک کر دیں ،عین انہی لمحات میں ان کی کابینہ کے اہم وفاقی وزراء ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف تھے۔ جناب وزیرا عظم نے اپنے خطاب میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وہ ان کی گالیوں پر دعا دیتے ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اسی دوران وزیر اعظم نے اپوزیشن کو ملکی ترقی کیلئے مل جل کر کام کرنے کی دعوت بھی دی۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ سخاوت ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے ، جب اپنا گھر ہی درست نہ ہو تو دوسروں کو نصیحتیں کرنا کسی طور مناسب عمل نہیں ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان میں اختلافات کی خبریں منظر عام پر تو اب آنا شروع ہوئی ہیں لیکن ان کی ٹیم کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ عام انتخابات سے کچھ عرصے قبل ہی شروع ہو گیا تھا لیکن خیال ہے کہ پارٹی قیادت نے اس اہم مسئلے کو نہ ماضی میں اہمیت دی اور نہ آج دی جا رہی ہے بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں۔ یہ بھی باور کرانے پر زور دیا جا رہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے ارکان کے درمیان اختلافات کا حکومتی کارکردگی اور اس کی فعالیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان سطور میں قارئین کواقتدار کے ایوانوں کی اس صورتحال سے آگاہ کروں گا جس کے باعث حکمراں جماعت کے بعض اہم اراکین کے درمیان بول چال تک بند ہو چکی ہے۔ ماضی قریب میں جائیں تو اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب عام انتخابات سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف رائے کے سبب میاں صاحبان کے ہر اچھے اوربرے وقت کے ساتھی چوہدری نثار نے آزاد حیثیت میں راولپنڈی کے صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا۔ دیرینہ سیاسی رفاقت اور دوستی کے باعث چوہدری نثار کو گمان تھا کہ شیر کی بجائے گائے کے انتخابی نشان پر جیت کر وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن جائیں گے۔ وہ گائے کے انتخابی نشان پر بھی جیت گئے تاہم ٹیکسلا کی آبائی صوبائی نشست پر شکست نے پارٹی قیادت سے دوری پیدا کردی اور یہ آشکار ہو گیا کہ سیاست کس بے رحم کھیل کا نام ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہی وہ موقع تھا جب خود کو چوہدری نثار کے قد کاٹھ کا لیڈر سمجھنے والے خواجہ آصف نے ان کی جگہ لینے کی کوشش کی اور وہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے نظر آئے۔ وزارتوں کے قلمدانوں کی تقسیم، پرویز مشرف کے ٹرائل، طالبان سے مذاکرات، قومی سلامتی پالیسی،شمالی وزیرستان میں آپریشن، وفاقی بجٹ کی تیاری اورمنظوری جیسے اہم معاملات میں نظر انداز کئے جانے نے چوہدری نثار کو دل برداشتہ کردیا۔رہی سہی کسر اپوزیشن کی تنقید پر دفاع کی بجائے قریبی گروپ کے نام سے جانے والے وفاقی وزراء کی طرف سے ان کے خلاف کئے جانیوالے پروپیگنڈے نے پوری کردی اور کہا جاتا ہے کہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ چوہدری نثار نے بیرون ملک جانے اور وہاں سے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرنے کا فیصلہ کر لیا تاہم پارٹی قیادت نے ارکان قومی اسمبلی کے وفد کو بھیج کر انہیں اس انتہائی اقدام سے روک لیا۔ اس دوران ان کی وزیراعظم اور خواجہ آصف کیساتھ جو کدورتیں پیدا ہوئیں وہ آج تک دور نہ ہو سکیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اور چوہدری نثار کے درمیان صرف ورکنگ ریلیشن شپ ہے ،وزیراعظم وزیر داخلہ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے جبکہ ان کے خواجہ آصف کیساتھ جاری تصادم میں بھی کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔ قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر چوہدری نثار ہیں لیکن تمام سیاسی اور پارلیمانی امور کو وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نمٹا رہے ہیں۔ چوہدری نثار اور اسحٰق ڈار کے درمیان قومی سلامتی پالیسی کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے پر اختلافات شروع ہوئے اور بعد میں سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر کچھ واقعات نے دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات کو صرف سلام دعا تک محدود کردیا۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ اختلافات کی اہم وجہ وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کی وہ مانیٹرنگ ہے جس کے احکامات خود وزیراعظم نے دیئے تھے۔ اپنے آپ کو بہت مہان نواز سمجھنے والے ان وزراء کو شاید یہ بھی علم نہیں ہے کہ ان کی تنقید کے جواب میں منصوبہ بندی کمیشن نے جو بیان جاری کیا ہے وہ وزیراعظم کی ہدایات پر جاری کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی اسی اشیر باد کی وجہ سے منصوبہ بندی کمیشن اب تک مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کی طرف سے بھیجے جانیو الے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں 490 ارب روپے کی کٹوتی کر چکا ہے۔ بڑے منصوبوں کی لاگت میں اس کٹوتی نے بھی وفاقی وزراءکو سیخ پا کر دیا ہے اور وہ اس عمل کو اپنی توہین اور اپنے امور میں مداخلت تصور کر رہے ہیں۔ افواہ یہ اڑئی ہوئی ہے کہ وفاقی وزیر خواجہ آصف کی لاچاری کا تو یہ عالم ہے کہ راولپنڈی میں قائم وزارت کے دفتر میں انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ ماضی میں دوسری وزارت میں پنجاب کی ایک اہم شخصیت کی براہ راست اور وزیر مملکت کے ذریعے بلواسطہ مداخلت کی وجہ سے انکے پاس اتنا فالتو وقت تھا کہ سوٹ ٹائی پہن کر ٹاک شوز کا رخ ہی کر سکتے تھے۔ خواجہ آصف کو کارنر کئے جانے کا ثبوت یہ ہے کہ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر وہ ہیں لیکن پاک چین اقتصادی راہداری فریم ورک سے جڑے توانائی کے کسی ایک منصوبے پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔ وفاق سے متعلق منصوبوں پر وزیر منصوبہ بندی نے دستخط کئے ہیں تو پنجاب سے متعلق منصوبوں کو پنجاب کی ایک اہم شخصیت خود دیکھ رہے ہیں ۔ اسحٰق ڈار اور احسن اقبال کے درمیان تعلقات کی نوعیت یہ ہے کہ وزیر منصوبہ بندی تو کسی مشترکہ اجلاس کیلئے وزارت خزانہ چلے جاتے ہیں لیکن وزیر خزانہ منصوبہ بندی کمیشن میں منعقدہ کسی اجلاس میں نہ خود شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے سیکرٹری کو شرکت کی اجازت دیتے ہیں۔اس رویے کے باعث وزیر منصوبہ بندی نے اپنی وزارت میں مشترکہ اجلاس منعقد کرنا ہی ترک کر دیئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈار صاحب کی بے اعتناعی کا تو یہ عالم ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے معاملے میں انہوں نے تو وزیر اعلیٰ پنجاب کی بھی سننا گوارا نہیں کی جس پر وہ بھی ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ مشیر امور خارجہ اور معاون خصوصی کے درمیان جاری سخت کشیدگی سے تو سب واقف ہی ہیں لیکن کسی کو یہ کانوں کان خبر نہیں کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی بجائے میڈیا مینجمنٹ کہاں سے کی جا رہی ہے۔ کس وزیر نے پریس کانفرنس کرنی ہے اور کون خاموش رہنے پر اکتفا کرے،یہ ہدایات کون دے رہا ہے اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ اب ان حالات میں بھی اگر کوئی یہ کہے کہ اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں اور وفاقی وزراء کے ان اختلافات کا اثر حکومتی کارکردگی پر نہیں پڑتا تو ایسی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں مسلم لیگ ن کی قیادت اور وزراء کیلئے مشورہ ہے کہ اپنے پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کی کہانی کی کتاب لے کر اتفاق میں برکت ہے والی کہانی پڑھ لیں کیوں کہ لگتا ہے بچپن میں پڑھی کہانی وہ بھول چکے ہیں۔
تازہ ترین