• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھ ماہ تک پاکستان کی سڑکیں ناپنے کے بعد پائیڈ پائپر(pied piper) واپس قانون کی اُسی عدالت میں آگیا جس کی اُس نے بارہار توہین کی ۔ اب عمران خان چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو ایک ماہ کے اندر منصب سے رخصت کردے ۔ اس سے پہلے اُنھوں نے موجودہ وزیر ِاعظم کو ہٹانے کی سازشی کتاب میں درج ہر طریقہ اپنا کر دیکھ لیا، لیکن ناکامی نے اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔
عمران خان کی ناکامی کا ایک اہم فیکٹر اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو پڑھنے اور محرکات کو سمجھنے میں ناکامی ہے ۔ عمران سوچ رہے تھے کہ ’’وہ‘‘ نوا زشریف کو اتنا ناپسند کرتے ہیںکہ اُن سے چھٹکارا پانے کے لئے مارشل لا لگانے سمیت کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ خاں صاحب پہلی بات درست سمجھے، دوسری نہیں۔ یقینا ’’وہ ‘‘ نواز شریف کو ناپسند کرتے تھے اور اُن پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ، لیکن ’’وہ‘‘ اُن سے نجات حاصل کرنے کے لئے مارشل لالگانے نہیں جارہے تھے ۔ دراصل کیانی ڈاکٹرائن ہنوز فعال اور متحرک ہے ۔ اس کا ہدف پاکستانی سیاست میں بالواسطہ مداخلت اور نادیدہ دبائو کے ذریعے سویلین حکومت کو ایک حد کے اندر رکھتے ہوئے فوج کی اہمیت کو برقرار رکھنا ہے ۔اس ڈاکٹرائن کا مرکزی ہتھیار’’مارشل لا لگانے کی دھمکی‘‘ ہے ، مارشل لا لگانا نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ موقع پرست سیاسی جماعتوں، انتہا پسند جہادی تنظیموں، قوم پرست میڈیا اور ’’تعاون پر آمادہ عدلیہ‘‘ کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہوکر حکمران سیاسی جماعت کو کمزورکرنا بھی اسی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے ۔ اس کا مقصد سیاسی بیانیے پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا ہے ۔
کیانی ڈاکٹرائن کو زرداری دور (2008-13)میں کامیابی سے آزمایا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر جج صاحبان کی بحالی کی تحریک کو مہمیز دی، میڈیا کے موثر استعمال سے جنرل کیانی کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دی گئی ، نوا زشریف کی قیادت میں اپوزیشن اور افتخار چوہدری کی قیادت میں عدلیہ نے صدر زرداری کا میمو گیٹ پر گھیرائو کیااور ایک وزیر ِاعظم کو گھر بھیجا تو دوسرے کا گرم تعاقب کیا۔اس ڈاکٹرائن کی تخلیق کا مرکزی تصور یہ ہے کہ فوج مارشل لا لگانے کے لئے تیار بیٹھی ہے ، اور جب تک ضرورت محسوس کی گئی ، مارشل لا نافذ رکھا جائے گا۔ مسٹر زرداری کا آفس دھمکی کی روح کو سمجھنے میں ناکام رہا اور دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے، جبکہ مسٹر شریف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھایا اور پی پی پی کو کمزور اور عدم استحکام سے دوچار کردیا، اور وہ یوں انتخابات جیت گئے ۔
آج نواز شریف اقتدار میں رہتے ہوئے اس صورت ِحال کی تفہیم کرتے ہوئے اپنا بچائو کرنے میں کامیاب ہیں، تو دوسری طرف اپوزیشن میں عمران خان اس کی تفہیم کے قابل نہیں۔ نوازشریف کی منطق یہ دکھائی دی کہ اگر وہ اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے رہے تو مارشل لا کی دھمکی حقیقت کا روپ نہیں دھار پائے گی۔ صورت ِحال کو پڑھنے میں ناکام رہتے ہوئے عمران خان نے سوچا کہ اگر عوامی تحریک کے نتیجے میں نواز شریف نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تو فوج مداخلت کرے گی۔ ا س سے پہلے نواز شریف 2014 ء کے دھرنوں کے دوران بھی اسٹیبلشمنٹ کا ذہن پڑھنے میں کامیاب رہے تھے ۔ اُس وقت حالات فوجی مداخلت کے لئے ساز گار دکھائی دیتے تھے ، لیکن نواز شریف کو سمجھ آچکی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں کرے گی، چنانچہ اُنھوںنے خوفزدہ ہونے سے انکار کردیا۔
افسوس، اُن دھرنوں کے دوران حاصل کردہ سبق عمران گزشتہ ہفتے پھر بھول گئے جب اُنھوں نے اپنی کم ہوتی ہوئی عوامی مقبولیت کے ذریعے نواز شریف کو منصب سے اتارنے کے لئے دارالحکومت پر چڑھائی کردی۔ درحقیقت عمران نوشتہ دیوار پڑھنے میں بری طرح ناکام رہے کہ ایسا کچھ بھی ہونے نہیں جارہا ، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’جنگجو اثاثے‘‘، ڈاکٹر طاہرالقادری اور دفاع پاکستان کونسل، ان کے ساتھ مل کر احتجاج میں حصہ لینے سے انکار کرچکے تھے ۔ وہ نواز شریف کا ذہن پڑھنے میں بھی ناکام رہے جب اُنھوں نے موجودہ آرمی چیف کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کردیا، اور چیف جسٹس چوہدری کی سیاسی تقرری کے برعکس آئین اور قانون کے مطابق جسٹس جمالی کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا۔
سپریم کورٹ پہلے تو سیاسی امور میں قدم رکھنے سے گریزاں تھی لیکن اب اس نے اپنا ذہن بنا لیا ہے ۔اس نے پاناما کیس کے لئےکچھ شرائط مقرر کی ہیں۔ تمام دھڑوں کوٹرمز آف ریفرنس تسلیم کرنے ہوں گے، نیز فاضل عدالت شرلاک ہومز کا کردار ادا نہیں کرے گی۔ یہ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے جیسے ساکھ سے محروم اداروں کی معاونت سے گریز کرے گی۔ یہ فیصلہ سنانے میں لامتناہی وقت نہیں لگائے گی۔ یہ پاناما لیکس کے حوالے سے دی گئی الیکشن ڈس کوالیفکیشن کی دودرخواستوں تک محدود رہے گی۔ سب سے اہم، یہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کوئی فریق اس کے فیصلے ، جو بھی ہو، کی توہین کسی صورت نہیں کرپائے گا۔
یہاں کچھ مسائل بھی سامنے آئیں گے ۔ پی پی پی کا کہنا ہے کہ اُسے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں۔ چنانچہ مرکزی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق ِرائے موجود نہیں۔ نواز شریف خوش ہیں کہ پاناما لیکس کی انکوائری کیس میں اُن کا نام تو شامل ہی نہیں۔ اُنہیں مستفید ہونے والوں میں شمار نہیں کیا گیا۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عمران اسے کس طرح برداشت کریں گے کیونکہ اُن کی مقبول سیاسی تحریک کی بنیاد ہی نواز شریف کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پرہے ۔ یہ الزامات دوعشرے پرانے ہیں اور سپریم ان کی تحقیقات نہیں کرنے جارہی ۔ یہ بات بھی قابل ِ بحث ہے کہ سپریم کورٹ کو ’’inquisition‘‘ کی طرف جانا پڑے گا ۔ اس میں بے گناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری مبینہ ملزم پرہوتی ہے ۔ آخر میں، عمران خان کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ جب جج حضرات اُن کی مرضی کا فیصلہ نہیں سناتے تو وہ اپنی تنقید کی توپوں کار خ اُن کی جانب کردیتے ہیں۔ اب اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آگیا تو کیا کمیشن خاں صاحب کی چاند ماری سے بچنے کی توقع کرسکے گا؟درحقیقت یہ ہمارے سیاسی اکھاڑے میں ہیوی ویٹس کے درمیان ہونے والی ایک اور زور آزمائی ہے ۔ پائید پائپر مکان سے باہرنکلے یا نہ نکلے، وہ منظر ِعام سے گم نہیں ہوا ہے۔





.
تازہ ترین