• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد لاک ڈائون کا سن رہے تھے ۔ چیئرمین عمران خان نے اپنے جلسہ رائیونڈ کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ ہم اسلام آباد بند کر دیں گے اور حکومت کو مفلوج کر دیا جائے گا ،میاں نواز شریف کو مجبور کریں گے کہ وہ وز یراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ رائیونڈ جلسہ کی کامیابی کے بعد کپتان کو قوی یقین تھا کہ وہ اسلام آباد میں 10 لاکھ لوگ لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔کپتان کو یقین دلوایا گیا کہ سب سے زیادہ لوگ پنجاب سے آئیں گے ۔ جبکہ خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ وزراء ، ممبرز صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں سمیت کم از کم 1 لاکھ کے قریب ورکرز کو اسلام آبادلے کر پہنچیں سندھ اور بلوچستان سے بھی پارٹی ورکرز کو لانے کے انتظامات کیے گئے تھے ۔ تحریک انصاف نے اس لاک ڈائون کو کامیاب بنانے کے لئے کثیر تعداد میں فنڈز جمع کرنے کا بھی ایک منصوبہ بنایا تھا جس میں مالی طور پر مستحکم پارٹی عہدیداران اور ورکروں سے فنڈز لینے کے علاوہ عام ورکرز سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ کم از کم 100 روپے اس تحریک کے لئے پارٹی کے فنڈز میں جمع کروائیں۔تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو اکتوبر کے آخری ہفتے میں یہ مکمل معلومات مل چکی تھیں کہ حکومت اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کا تحریک انصاف کا منصوبہ ناکام بنانے کے لئے طاقت استعمال کرے گی اور راستے روکنے سمیت ہر وہ اقدام کرے گی جس سے تحریک انصاف کے ورکرز کم سے کم اسلام آباد پہنچ سکیںاور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تحریک انصاف اسلام آباد کو بند نہ کر پائے۔ ان اطلاعات کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اور نئی منصوبہ بندی کی اور ورکرز کو کہا گیا کہ وہ دھرنے سے چند روز قبل ہی اسلام آباد ، پنڈی اور کے پی کے دیگر شہروں میں آ جائیں۔ ایسا خاص طور پر پنجاب کے ورکرز سے کہا گیا تھا جبکہ پختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ایک روز قبل ہی اپنے قافلے سمیت اسلام آباد روانہ ہوں اور اگر حکومت روکنے کی کوشش کرے تو بھرپور مزاحمت کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ان کا قافلہ تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا پہنچے۔ تحریک انصاف کا منصوبہ تھا کہ کم از کم 2 سے 3 لاکھ لوگ اسلام آباد لا کر بٹھائے جائیں اور وفاقی حکومت مفلوج کر دی جائے اور اسلام آباد میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ تیسری قوت مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کپتان کو پنجاب اور کے پی قیادت نے بھرپور یقین دلایا تھا کہ جو ان کا منصوبہ ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے گا اور ان کی توقع سے بھی زیادہ لوگ اسلام آباد آ جائیں گے اس حوالے سے فنڈز بھی جاری کئے گئے تا کہ لوگوں کو لایا جا سکے لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا اس کی وجوہات جاننا ضروری ہے حکومت نے 28 اکتوبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی یوتھ کنونشن میں ورکرز کی گرفتاریاں کر کے یہ چیک کرنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی اس پر کیا ردعمل دیتی ہے ۔ وفاقی حکومت کے اس ایکشن کے بعد عمران خان نے خود پنجاب بھر کے عہدیداران کو فون کیا اور کہا کہ ان گرفتاریوں کے ردعمل کے طور پر تمام اضلاع میں بھرپور احتجاجی مظاہر ے کیے جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکاجس کی بڑی وجہ پنجاب کی قیادت کا بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ ہونا تھا۔ شاہ محمود قریشی ، جہانگیرترین ، عبدالعلیم خان سیالکوٹ کے ڈار برادرز، سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور، اعجاز چوہدری سمیت پنجاب کی تمام قیادت اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ بنی گالہ میں تھی جبکہ پنجاب بھر کے ورکروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ لاہوربھی احتجاج میں شامل لوگوں کی تعداد مایوس کن حد تک کم تھی ۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید جو کہ لاہور سے ایم پی اے ہیں وہ بھی لاہور میں کہیں نظر نہ آئے۔لاہور کے احتجاجی مظاہرے میں صرف چند درجن ورکر ہی موجود تھے۔ یہی حال پنجاب کے دیگر اضلاع کا تھا ۔ اس سے کپتان کو یہ اندازہ ہو نا چاہئے کہ پنجاب میں ان کی پارٹی کہاں کھڑی ہے ۔ کےپی وزیراعلیٰ جن کو تحریک انصاف کے سربراہ ہیرو قرار دے رہے ہیں میری نظر میں وہ بھی مطلوبہ ورکر کے پی سے لانے میں ناکام رہے۔ صوابی بیس کیمپ سے جتنے لوگ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ اسلام آباد گئے شاید اتنے ہی لوگ اسی دن صوابی ہی میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے جلسہ میں بھی تھے ۔ کپتان کے ہیرو خود تو گاڑی میں بیٹھے رہےاوربالا آخرواپس صوابی بیس کیمپ چلے گئے ۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر تحریک انصاف کے چیئرمین کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ سڑکوں کی بجائے سپریم کورٹ میں جنگ لڑی جائے ۔ خبریں ہیں کہ کپتان بہت جلد ملک بھر سے اپنی پارٹی کی تنظیم اور ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں کریں گے کیونکہ ان کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ موجودہ پارٹی کی تنظیم اور ڈھانچے سے آئندہ الیکشن میں کامیابی ممکن نہیں۔ اس موجودہ صورتحال کے پیش نظر نواز حکومت کو کافی ریلیف ملا ہے اور حکومت کا مؤقف ہے کہ جو فیصلہ تحریک انصاف نے اب کیا ہے اس کو یہ فیصلہ 7 ماہ قبل ہی کر لینا چاہئے تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے سپریم کورٹ میں اپنا کیس لڑیں گے اور اپنی لیگل ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں گے تا کہ اپنے مؤقف کو سپریم کورٹ میں بھرپور انداز میں پیشلئے کر سکیں۔ کپتان کو ان کے رفقاء اور لیگل ٹیم نے مکمل یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں یہ کیس جیت جائیں گے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ کو اس بارے میں بھی ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر وہ سپریم کورٹ میں بھی جنگ ہار گئے تو پھر ان کے پاس پلان بی کیا ہے؟بہر حال یہ کہنا درست ہوگا کہ معرکہ اسلام آباد حکومت نے جیت لیا ہے جبکہ دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جیت کس کی ہوتی ہے۔





.
تازہ ترین