• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں شاید ہی کسی اور مطالبے کو اتنی عوامی حمایت نصیب ہوتی ہو جتنی احتساب کو۔ سیاسی اور فوجی، دونوں طرح کے حکمران احتساب کی ضرورت پر زور اسی لیے دیتے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام میں اس دعوے کی پذیرائی ہوگئی۔ وہ رہنما جو عوامی حمایت کے طالب ہوتے ہیں، اسے اپنے منشور کا مرکزی نقطہ قراردے کر ایک بہتر پوزیشن اختیار کرنے کا تاثر دیتے ہیں ، کیونکہ اس کا مطلب یہی لیا جاتاہے کہ جو احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں، وہ خود کو بھی احتساب کے لیے پیش کرنے میں تامل سے کام نہیں لیں گے۔ تاہم عوامی کی خواہش کے باوجود پاکستان میں شاید ہی کسی کا حقیقی معنوں میں احتساب ہوا ہو۔ جب بھی مخصوص کیسز میںاحتساب کا عمل ہنگامی بنیادوں پر، اور کسی قدر خلوص ِ نیت سے، شروع کیاگیالیکن پھر سیاسی مجبوریاں آڑے آئیں اور تمام عمل یک طرفہ طو رپر انتقامی کارروائی دکھائی دینے لگا۔ حکمران طبقہ احتساب کو اپنے سیاسی حریفوں کو سزادینے، دبانے اور اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ احتساب کرنے والے ادارے اور ان کے ڈھانچے سیاست زدہ ہونے کے باعث سیاسی مفاد کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران سیاست دان احتساب کے وعدے کرتے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس سے قدم پیچھے ہٹانے لگتے ہیں۔ اصولاً ، سیاست دان،چاہے اُن کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، احتساب کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن وہ اپنی بجائے دوسروں کا احتساب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو افراد اقتدار میں ، یا اقتدار سے باہرہوں، اُن کے منہ سے ’’غیر جانبدارانہ طور پر سب کا احتساب‘‘ کرنے کی باتیں سنائی دیتی ہیں، لیکن جب اُن کے احتساب کی باری آئے تو وہ دہائی دینے لگتے ہیں کہ بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگاکر اُنہیں دراصل سیاسی بنیادوں پر انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
طاقت ور عسکری حلقےدعویٰ کرتے ہیں کہ بطور ادارہ ان کا اپنا احتساب کا کڑا نظام موجودہے، لیکن ناقدین اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ یہ انکوائریاں محکمانہ ہوتی ہیں جس سے اکثر حقائق عوام کے سامنے نہیں آتے ۔ اس لئے ناقد دفاعی اداروں کے افسران کی کھلی اور شفاف انکوائریوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ درحقیقت کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران بھی اس مطالبے میں اپنی آواز ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسا مطالبہ کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ اگر دفاعی اداروں کے افسران کی بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کو منظر ِعام پر لایاجائے اور ان کا احتساب کیا جائے تو اس سے دفاعی اداروں کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ایک حالیہ مثال اس موقف کی تصدیق کرتی ہے۔ جب اس سال اگست میں موجودہ فوجی قیادت نے دوجنرلوں، جو ریٹائرڈ ہوچکے تھے لیکن اُنہیں واپس بلا کر اُن کے خلاف این ایل سی کیس کی تحقیقات کی گئیں اور ثابت ہونے پر اُن کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی تو عوامی حلقوں کی طرف سے اس غیر معمولی پیش رفت کو سراہا گیا۔ آرمی چیف ، جنرل راحیل شریف صاحب کولیفٹیننٹ جنرل محمد افضل مظفر کی سرزنش ، انضباطی کارروائی اور’’سخت ناپسندیدگی کے اظہار‘‘ اورمیجر جنرل خالد ظہیر اختر کی سروس سے معطلی اور تمام پنشن اورعہدے کی مراعات سے محرومی کی سزا سنانے پر بھرپور کریڈٹ دیا گیا ۔ ان فوجی افسران پر 2004-2008 کی انتہائی کساد بازاری کے دوران بنکوں سے پچیس ملین ڈالر قرض لے کرا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے اور فوج کی زیر ِ نگرانی چلنے والی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بھاری مالی نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔اگر ماضی میں ایسے امور کی پاداش میں افسران کو سزاسنائی جاتی تھی تو اُسے خفیہ رکھا جاتا تاکہ فوج کے اعلیٰ افسروں کی سبکی اور ماتحت افسروں کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔
بانی ٔ پاکستان، محمد علی جناحؒ نے اپنے کردار کی طاقت سے دکھایا کہ اختیارات اور عوام کے وسائل کے ناجائزاستعمال کو کسی صورت برداشت نہیںکیا جائے گا، لیکن قیام ِ پاکستان کے بعد اُن کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اپنے اعلیٰ تصورات کو اداروں کی صورت نہ ڈھال سکے ۔ اس نوزائید ہ مملکت میں بدعنوانی کا پہلا قدم جھوٹے دعوئوں کے ساتھ مہاجرین کی متروکہ جائیدادوں کی اپنے نام منتقلی تھی۔ بہت سوں نے ہندوئوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادپر زبردستی قبضہ کرلیا ۔ بعد میں آنے والے کچھ حکمران تیزی سے اقتدار میں آتے جاتے دکھائی دئیے۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی رشوت اور وفاداری تبدیل کرنے کے لیے سامنے رکھی گئی پرکشش ترغیبات تھیں۔
پاکستان میںاحتساب کی اصطلاح سب سے پہلے فوجی آمر، جنرل محمد ایوب خان نے متعارف کرائی۔ اُنھوں نے وعدہ کیا کہ نہ صرف سیاسی نظام میں موجود گند کو صاف کیا جائے گا بلکہ بدعنوان تاجروں کا بھی تعاقب ہوگا۔ اُنھوں نے 1959میں ’’Elected Bodies Disqualification Order‘‘ جاری کیا اور چھ ہزار کے قریب افراد کو سزا سنائی۔ اس طرح اُنھوں نے اُس وقت کے سیاسی نظام کوصرف اس لیے تباہ کردیا تاکہ اُن کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہ کرسکے۔ اس عمل کے دوران نااہل قرارپانے والے چھ ہزار افراد میں 150 سیاست دان بھی شامل تھے ۔ اُنہیں آٹھ سال کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، درجنوں سرکاری ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا۔ ایوب خان نے 1956کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے فوجی افسران کے کیسز کی سویلین عدالت میں سماعت پر بھی پابندی لگادی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو اُنھوں نے قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے فوجی عدالت سے سزا یافتہ کسی شہری کو سول عدالت میں اپیل کے حق سے محروم کردیا۔ ذرا تصور کریں کہ کئی سال بعد(آج ) 1973 کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں تاکہ سویلینز کو دہشت گردی اور انتہا پسند ی میں ملوث ہونے کی پاداش میں فوجی عدالتوں میں سزادی جاسکے۔
بعد میں آنے والے فوجی حکمرانوں، جنرل محمد یحییٰ خان،جنرل ضیا الحق اورجنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے اپنے طور پر احتساب کی مہم چلائی جس کے دوران سرکاری ملازموں کو بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگا کر برطرف کیا گیا جبکہ بعض اوقات سیاست دانوں کے سر پر احتساب کی تلوار لٹکا کر اُنہیں فوجی حکومت یا کسی ’’کنگس پارٹی‘‘ کی حمایت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جنرل مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدارسنبھالنے کے بعد،1999میں، ایک قومی ادارہ، نیب قائم کیا۔اُن کی طرف سے احتساب کی مہم شروع میں شدید ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں مقبول بھی تھی، لیکن جلدہی وہ اُن کے سیاسی عزائم کے حصول کا ذریعہ بن گئی۔
اگرچہ عمران خان کی پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میںصوبائی احتساب کمیشن قائم کیا ہے جبکہ سندھ میں پی پی پی حکومت ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن آج بھی ملک میں نیب احتساب کرنے والا سب سے سرکردہ ادارہ ہے۔سیاسی حکومتیں موجودہ احتساب کے نظام کو فعال بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم ماضی میں، سیف الرحمن کے دور میں احتساب بیورو کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی تھی کیونکہ اُس وقت یہ ادارہ وزیر ِا عظم نواز شریف کے اُس دور کے سیاسی عزائم کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جارہا تھا۔ نواز شریف، بے نظیربھٹو اور بعد میں آصف زرداری نے ایک دوسرے کے خلاف احتساب کی تلوار تانی لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اگر عمران خان کے الفاظ پر یقین کرلیا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ نوا زشریف اور آصف زرداری نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی خزانے کو باری باری لوٹا۔ عمران خان کو بہرحال اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ وہ اس وقت ملک میں بے لاگ احتساب کے خلاف سب سے توانا آواز رکھتے ہیں۔ اُن کی اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں خیبرپختونخوا میں کارروائی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پی ٹی آئی تبدیلی کی علامت بن کر ابھری اور اسے خاص طور پر نوجوان طبقے میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
تازہ ترین